24 January 2018 - 14:54
News ID: 434762
فونت
وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کا دورہ ایران اور وہاں پر اپنے ہم منصب اور دیگر دفاعی حکام سے ملاقاتیں بھی بہت اہم ہیں، دونوں طرف نے استعمار کیطرف سے داعش کیصورت میں شام و عراق کی تباہی اور اب اسے افغانستان میں پلانٹ کرنے، جس پر سابق افغان صدر حامد کرزئی واویلا کر رہے ہیں، کے خطرے کو بھانپ لیا ہے۔ اس لئے باہمی طور پر ایسی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، جسکے ذریعے اس فتنے سے نمٹا جاسکے، کیونکہ ایران کو شام و افغانستان میں اس خارجی گروہ سے نمٹنے کا تجربہ ہے۔ امید ہے آنیوالے دنوں میں ان تعلقات میں مزید وسعت آئیگی اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی جلد مکمل ہوکر باہمی تعلقات میں فروغ کا باعث بنے گی۔
ڈاکٹر ندیم عباس

تحریر: ڈاکٹر ندیم عباس

ایک تاریخی جدوجہد کے نتیجے میں پاکستان کا مطالبہ تسلیم کر لیا گیا ہے، محمد علی جناح اب قائداعظم کی حیثیت سے ہندوستان کے دارالحکومت دہلی میں الوداعی ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ سینکڑوں برس اکٹھے رہنے کے بعد اب ایک الگ شناخت کے ساتھ ایک علیحدہ وطن مسلمانوں کے لئے معرض وجود میں آیا چاہتا ہے۔ سب سازشیں، سب منصوبہ بندیاں ناکام ہوچکی ہیں۔ قائداعظم دہلی سے کراچی کے لئے تاریخی سفر اختیار کرنے کے لئے دہلی ائرپورٹ پر آتے ہیں، اس سفر کو خفیہ رکھا جاتا ہے، مگر قائد دہلی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جا رہے ہیں، امیدوں کے ایک نئے جہان میں جسے پاکستان کہتے ہیں۔ دہلی ائرپورٹ پر جن شخصیات نے قائد اعظم کو رخصت کیا، ان میں ایک انڈیا میں ایران کے اس وقت کے سفیر نے نیک تمناؤں کے ساتھ قائد اعظم کو رخصت کیا۔ قائد کراچی آتے ہیں اور پاکستان کی آزادی کا اعلان کر دیا جاتا ہے، برطانوی سامراج کا سو سالہ اقتدار ختم ہو جاتا ہے۔ اس اعلان  کے ساتھ ہی جس ملک نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا وہ ایران تھا۔ پاکستان پر جو بھی مشکل وقت آیا، ایران نے ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا، کشمیر کا مسئلہ ہو یا پاکستان و ہندوستان کی جنگیں ہوں، ایران نے ایک برادر اسلامی ملک ہونے کا حق ادا کیا ہے۔

پاکستان اور ایران کے تعلقات میں سرد مہری اس وقت آئی، جب افغانستان میں طالبان کی حکومت قائم ہوئی، پاکستان نے اسے تسلیم کر لیا۔ طالبان ایران کو اپنا دشمن سمجھتے تھے، افغانستان میں ایرانی اہلکاروں کو شہید کیا گیا، اسی طرح بامیان اور دیگر علاقوں میں شیعہ عوام کے بے دریغ قتل عام نے بھی طالبان کی وحشت کو ظاہر کیا۔ ایسے حالات میں ایران نے شمالی اتحاد کی حمایت کی۔ برسہا برس کی لڑائی کے باجود طالبان وادی پنج شیر اور دیگر علاقوں پر قبضہ نہ کرسکے، اگرچہ وہ افغانستان کے تمام اہم علاقوں پر قابض ہوگئے، مگر مکمل افغانستان کے حکمران نہ بن سکے۔ یہ مسئلہ ایران اور پاکستان کے درمیان کے ایک فالٹ لائن کی صورت اختیار کر گیا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ ایرانی بلوچستان میں کچھ دہشتگردوں نے کارروائیاں کیں، جس سے بہت سے بے گناہ ایرانی جان سے گئے اور علاقے میں امن و امان کے مسائل پیدا ہوئے۔ پاکستانی بلوچستان میں جاری بدامنی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے انقلاب مخالف طاقتوں نے ان گروہوں کی سرپرستی کی، جس سے یہ گروہ کافی طاقتور بھی ہوگئے۔ ایران نے بارڈر پر بہت سے سکیورٹی اقدامات کئے، جن میں دیوار کی تعمیر، باقاعدہ فوجی گشت اور جدید ذرائع کو استعمال کرکے ان دہشتگرد عناصر کی سرکوبی کرنا شامل تھا۔ ان اقدامات کے نتیجے میں ان عناصر کی روک تھام ممکن ہوسکی۔ اس تمام پروسس میں باہمی طور پر غلط فہمیوں نے جنم لیا۔ ایک اہم بات جس پر میڈیا بہت زیادہ بحث ہوئی، وہ چاہ بہار کی بندرگاہ ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ کو گوادر کے مقابلے میں لا کر مفادات کے باہمی ٹکراؤ کی بات کی گئی۔ چاہ بہار میں ہندوستان کی سرمایہ کاری نے مزید خدشات کو جنم دیا کہ یہ بنیادی طور پر گوادر کو ناکام بنانے کی ہندوستانی چال ہے، جس کے تحت  بلوچستان میں بدامنی پیدا کر دی جائے اور چاہ بہار کو افغانستان اور دیگر لینڈ لاک ریاستوں کے لئے واحد آپشن کے طور پر ترقی دی جائے۔

طالبان کی حکومت کی وجہ سے باہمی مفادات کے ٹکراؤ کی جو صورتحال پیدا ہوئی تھی، وہ اب ختم ہوچکی ہے، کیونکہ اب طالبان کی حکومت ہی ختم ہوچکی۔ اب ایرانی حکومت پاکستان اور افغانستان کے درمیان موجود غلط فہمیوں کو دور کرنے کے لئے کردار ادا کرسکتی ہے، جو وہ کرتی بھی رہتی ہے۔ بارڈر کے مسائل پر باہمی بات چیت کے کئی ادوار کے بعد ایک پورا نظام تشکیل دیا جا چکا ہے، جس کے تحت اب مشترکہ پٹرولنگ سے لیکر  بارڈر کی فضائی نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ عبدالمالک ریگی کی گرفتاری اور سزا کے بعد یہ دہشتگرد گروہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوگئے ہیں اور عوام نے ان کو مکمل طور پر مسترد کر دیا ہے۔ چاہ بہار بندرگاہ میں ایک بڑے منصوبے کی تکمیل کے موقع پر اس کے افتتاح کی تقریب رکھی گئی، جس میں ایرانی صدر اور دیگر  اعلٰی ایرانی حکام نے شرکت کرنا تھی، اس اہم تقریب میں پاکستان کو دعوت دی گئی اور پاکستان وفد وزیر کی قیادت میں شرکت کرے، اس کو یقینی بنایا گیا، پاکستانی وفد کی بھرپور پذیرائی کی گئی۔ دوسرے دن کے دنیا بھر کے اخبارات میں وہ تصویر لگائی گئی، جس میں پاکستان وزیر صدر روحانی کے ساتھ کھڑے ہیں۔ یہ انڈیا اور ان قوتوں کے لئے واضح پیغام تھا، جو چاہ بہار کو پاکستان مخالفت میں استعمال کرنے کا ارادہ رکھتی تھیں کہ چاہ بہار اور گوادر خطے کے لئے خوشحالی کے لئے مل کر کام کریں گے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے کئی بار اس بات کا اعادہ کیا کہ یہ دونوں بندرگاہیں مقابل نہیں ہیں بلکہ ترقی کے سفر میں مددگار ہوں گی۔ اس  حکمت عملی سے دونوں دوست ممالک میں غلط فہمیاں پیدا کرنے والوں کو ناکامی ہوئی۔ پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ جنرل ناصر جنجوعہ دو بار ایران گئے، ٹرمپ کے پاکستان مخالف بیانات اور ایران میں مظاہروں کے بعد ایک ہفتے میں ایران کا دو بار کا دورہ پاکستان اور ایران کے درمیان بڑھتے ہوئے  تعلقات کا اظہار ہے کہ دونوں ممالک مشکل وقت میں ایک دوسرے کی مدد کریں گے اور خطے  میں استعمار کے ایجنڈے کو نہیں چلنے دیں گے۔ وفاقی وزیر دفاعی پیداوار رانا تنویر کا دورہ ایران اور وہاں پر اپنے ہم منصب اور دیگر دفاعی حکام سے ملاقاتیں بھی بہت اہم ہیں، دونوں طرف نے استعمار کی طرف سے داعش کی صورت میں شام و عراق کی تباہی اور اب اسے افغانستان میں پلانٹ کرنے، جس پر سابق افغان صدر حامد کرزئی واویلا کر رہے ہیں، کے خطرے کو بھانپ لیا ہے۔ اس لئے باہمی طور پر ایسی حکمت عملی تیار کی جا رہی ہے، جس کے ذریعے اس فتنے سے نمٹا جاسکے، کیونکہ ایران کو شام و افغانستان میں اس خارجی گروہ سے نمٹنے کا تجربہ ہے۔ امید ہے آنے والے دنوں میں ان تعلقات میں مزید وسعت آئے گی اور ایران پاکستان گیس پائپ لائن بھی جلد مکمل ہوکر باہمی تعلقات میں فروغ کا باعث بنے گی۔ /۹۸۸/ن۹۴۰

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬