07 January 2019 - 19:25
News ID: 439076
فونت
فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ روزہ رکھتے تو اپنا افطار محتاجوں کو دے دیتے۔
سید تقی عباس رضوی

حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی

 

دوسروں کے ساتھ سخاوت و فیاضی:

امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام کے فیاضی اور سخاوت کا یہ عالم تھا کہ روزہ رکھتے تو اپنا افطار محتاجوں کو دے دیتے۔ جس پر آیت کریمہ: وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّہ ِ مِسْكِيناً و يَتِيماً و أَسِيراً۔ گواہ ہے! مفسرین کہتے ہیں کہ اگر کسی دن علیؑ کے پاس صرف چار درہم ہوتے تو ایک درہم رات کو، ایک دن کو اور تیسرا درہم خفیہ طور پر اور ایک اعلانیہ بطور صدقہ عطا کرتے تھے۔

 روایات میں ہے کہ اپنے ہاتھوں سے مدینہ کے یہودیوں کے نخلستان کی آبیاری کرتے تھے یہاں تک کہ آپ کے ہاتھوں پر گٹھے پڑے گئے تھے اور اجرت لے کر صدقہ دیا کرتے تھے اور خود بھوکے رہتے تھے۔ مروی ہے کہ آپ نےکبھی بھی کسی سائل کو "نہ" نہیں کہا۔[1]

ایک دفعہ محفن بن ابی محفن معاویہ کے پاس پہنچا۔ معاویہ نے پوچھا: کہاں سے آرہے ہو؟ تو اس نے معاویہ کی چاپلوسی کی غرض سے کہا: میں بخیل ترین شخص [یعنی علیؑ] کے ہاں سے آرہا ہوں!؛ معاویہ نے کہا: وائے ہو تم پر! تو کس طرح ایسی بات ایسے فرد کے بارے میں کہتا ہے کہ اگر اس کے پاس ایک گودام بھوسے کا بھرا ہوا ہو اور ایک سونے کا تو وہ سونے کا گودام بھوسے کے گودام سے پہلے محتاجوں پر خرچ کرے گا؟!

دوسروں کےساتھ عفو و حلم:

عفو و درگزر کا محل وہی ہوتا ہے جہاں انتقام پر قدرت ہو اور جہاں قدرت ہی نہ ہو وہاں انتقام سے ہاتھ اٹھا لینا ہی مجبوری کا نتیجہ ہوتا جس پر کوئی فضیلت مرتب نہیں ہوتی ­البتہ قدرت و اقتدار کے ہوتے ہوئے عفو درگذر سے کام لینا انسانی فضیلت کا جوہر اور اللہ کی اس بخشی ہوئی نعمت کے مقابلہ میں اظہار شکر ہے۔

ابن ابی الحدید کہتے ہیں: امام علیؑ حلم و درگذر اور مجرموں سے چشم پوشی کے حوالے سے سب سے زیادہ صاحب حلم و بخشش تھے، چنانچہ واقعۂ جمل اس مدعا کی بہترین دلیل ہے۔ جب آپ نے اپنے معاند ترین دشمن مروان بن حکم پر قابو پالیا تو اس کو رہا کردیا اور اس کے عظیم جرم سے چشم پوشی کی۔

عبداللہ بن زبیر اعلانیہ امامؑ کی بد گوئی کرتا تھا اور جب عبداللہ عائشہ کے سپاہ کے ہمراہ بصرہ آیا تو اس نے خطبہ دیا اور خطبے کے دوران جو بھی وہ کہہ سکا کہہ گیا حتی کہ اس نے کہا: "اب لوگوں میں ادنی ترین اور پست ترین انسان علی بن ابی طالب تمہارے شہر میں آرہا ہے"، لیکن جب علیؑ نے اس پر قابو پایا تو اسے چھوڑ دیا اور صرف یہ کہنے پراکتفا کیا کہ "ایسے جاؤ کہ میں پھر کہیں تجھے نہ دیکھوں"۔ نیز جنگ جمل کے بعد آپ نے مکہ معظمہ میں اپنے دشمن سعید بن عاص پر قابو پا لیا لیکن اس سے نظریں موڑ لیں اور اس سے کچھ بھی نہ کہا۔

جنگ جمل کے بعد عائشہ کے ساتھ آپ کابرتاؤ مشہور ہے۔ جب جنگ جمل میں سپاہ عائشہ کو ہار ہوئی اور آپ فاتح ہوئے تو ان کی تکریم کی اور جب عائشہ نے مدینہ واپس جانا چاہا تو آپ نے قبیلہ عبد قیس کی مردانہ لباس میں ملبوس اور تلواروں سے لیس بیس خواتین کو اس کے ہمراہ روانہ کیا۔

عائشہ سفرکے دوران مسلسل اعتراض کرتی رہی اور علیؑ کو برا بھلا کہتی رہیں کہ "آپ نے اپنے اصحاب میں سے مردوں کو میرے ساتھ بھجوایا ہے اور میری حرمت شکنی کی ہے" لیکن جب یہ قافلہ مدینہ پہنچا تو خواتین نے عائشہ سے کہا: دیکھو ہم سب عورتیں ہیں اور ہم ہی سفر میں تمہارے ساتھ تھیں"۔

بصریوں نے عائشہ کا ساتھ دیا تھا اور علیؑ کے خلاف لڑے تھےاور آپ کے کئی ساتھیوں کو قتل کیا تھا لیکن جنگ کے بعد آپ نے سب کو معاف کیا اور اپنی سپاہ کو ہدایت کی کہ انہیں نہ چھیڑیں اور اعلان کیا کہ جو بھی ہتھیار زمین پر رکھے وہ آزاد ہے۔ آپ نے ان میں سے نہ کسی کو قیدی بنایا اور نہ ان کے اموال کو بطور غنیمت اخذ کیا۔ اور آپ نے وہی کیا جو رسول خداؐ نے فتح مکہ کے بعد مکیوں کے ساتھ کیا تھا۔

صفین کے مقام پر معاویہ کی سپاہ نے امامؑ کے لشکر کا پانی بند کیا اور شریعۂ فرات اور آپ کے لشکر کے درمیان حائل ہوا اور لشکر معاویہ کے سالار کہتے تھے کہ ہمیں علیؑ کے لشکر کو پیاس کی حالت میں تہہ تیغ کرنا پڑے گا جیسا کہ انھوں نے عثمان کو پیاسا قتل کیا تھا!۔ اس کے بعد علیؑ کی سپاہ نے لڑ کر دریا اور پانی کو ان سے واپس لے لیا۔ یہاں امامؑ کی سپاہ میں بھی بعض لوگوں نے تجویز دی کہ "بہتر ہے کہ ہم پانی کا ایک قطرہ بھی سپاہ معاویہ تک نہ پہنچنے دیں تاکہ جنگ کی مشقت برداشت کئے بغیر، وہ پیاس کی شدت سے مر جائیں۔ امامؑ نے فرمایا: ہم ہرگز ایسا نہیں کریں گے۔ دریا کے ایک حصے سے انہيں پانی اٹھانے دو۔[2]

دوسروں کےساتھ عدل و انصاف:

عدل و انصاف؛ معاشرے کے استحکام اور قوموں کی بقاء کی ضمانت ہے۔ عدل و انصاف ہی وہ پیمانہ ہے جس کی بدولت انسانیت زندہ ہے ۔ اگر معاشرہ عدل و انصاف سے عاری ہو تو وہ صالح معاشرہ نہیں ہو سکتا، ہاں ظلم و جبر کی آماجگاہ ضرور بن سکتا ہے ۔

عدل و انصاف ہی تمام نیکی و محاسن کی اساس ہے ۔ عدل و انصاف ہی سے انسان زندگی کا لطف حاصل کرتا ہے ۔ ورنہ اس کے بغیر معاشرہ وہشت و درندگی کا مرکز بن جائے گا۔ عدل و انصاف کا جذبہ ہی وہ جذبہ ہے جو انسان کو بلندی کی طرف لے جاتا ہے۔

 عدل و انصاف کا ہی دوسر انام ہی’’علیؑ‘‘ ہے۔ کسی بھی نظام کی بقاء کے لئے اس کا عدل و انصاف پر قائم ہونا بہت ضروری ہے۔ انسان کسی کی عداوت یا کسی سے دشمنی کی وجہ سے نا انصافی کر بیٹھتا ہے یا پھر اپنے کسی رشتہ دار کی وجہ سے ظلم و نا انصافی کرتا ہے اور اس سے بھی کٹھن منزل اس وقت آتی ہے جب کہ عدل و انصاف کی زد میں خود اپنی ہی ذات آتی ہو لیکن مذہب اسلام اور بانیان اسلام نے ان دیواروں کو گرا دیا اور اپنے ماننے والوں کو یہ تعلیم دی کہ عدل و انصاف کی ترازو اس قدر مضبوط اور برابر ہو کہ سخت ترین نفرت اور شدید ترین محبت بھی اس ترازو کے کسی پلڑے کو جھکانہ سکے ۔

 حضرت امیرالمومنینؑ کی ذات کا ایک منفرد پہلو عدل و انصاف کا نفاذ ہے جو انہیں دنیا کے تمام حکمرانوں سے جدا اور منفرد کرتا ہے آپؑ نے عدل و انصاف کا معاشروں، ریاستوں، تہذیبوں، ملکوں، حکومتوں اور انسانوں کے لیے انتہائی اہم اور لازم ہونا اس تکرار سے ثابت کیا کہ عدل آپؑ کے وجود اور ذات کا حصہ بن گیا اور لوگ آپؑ کو عدل سے پہچاننے لگے۔ اپنے ملک اور معاشرے میں عدل اجتماعی نافذ کرنے تک آپؑ کی پوری زندگی عدل سے مزین رہی اور آپؑ نے گھر سے لے کر معاشرے اور تختِ حکومت تک عدل و انصاف کے معاملات میں کبھی مصلحت سے کام نہیں لیا لہذا مورخین نے حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام کی شہادت کے بارے میں یہ فیصلہ دیا کہ علی ابن ابی طالبؑ کو شدتِ عدل کی وجہ سے شہید کر دیا گیا۔ کیونکہ حضرت علی ؑ ہی کی وہ ذات تھی جنہیں رسول خداؐ نے سب سے بہترین انصاف کرنے والا قرار دیا تھا۔ اسی عدل کے سبب آپؑ کی شہادت واقع ہوئی ہے۔

جارج جُرداق (ایک معروف مسیحی مصنف) اپنی شرہ آفاق کتاب ندائے عدالت انسانی میں رقم طراز ہے کہ: علیؑ کی تمام تر توجہ مساوات و عدل کے قوانین کو موثر طریقے سے بروئے کار لانے پر مرکوز تھی۔ ان کے افکار اور انداز فکر حکومت اور ان تمام ترحکمت اسی مقصد کے حصول کے لئے وقف تھی ۔ جب کسی ظالم نے عوام کے حقوق کی پاعمال کی یا کسی کمزور سے تحقیر آمیز رویہ اختیار کیا علیؑ اس سے سختی سے نمٹے۔

حضرت علیؑ نے معاشرتی زندگی میں عدل کو کتنا لازمی قرار دیا ہے اس کا اندازہ اس واقعہ سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ ایک دن کچھ لوگ جنہوں نے آپ کی بیعت بھی کر رکھی تھی آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور کہا کہ ہم آپ کے خیر خواہ ہیں آپؑ کو یہ مشورہ دینے آئے ہیں کہ اگر آپؑ اشراف عرب کو دوسروں پر ترجیح دیں تو ان کی پیش رفت کے لئے مناسب ہوگا۔ آپؑ اس تجویز سے ناراض ہوئے اور فرمایا کیا تم مجھے یہ حکم دیتے ہو کہ میں رعایا پر ظلم کروں یا دوستوں کا ایک گروہ اپنے گرد جمع کرلوں؟ خدا کی قسم جب تک دنیا موجود ہے اور ستاروں کی گردش باقی ہے میں یہ کام نہیں کرسکتا ۔ اگر یہ مال میرا اپنا بھی ہوتا تو بھی اسے برابر تقسیم کرتا جبکہ یہ مال تو ہے ہی خدا کا۔

تاریخ اورحقیقتِ انسانی کیلئے یکساں ہے کہ کوئی علی علیہ السلام کو پہچانے یا نہ پہچانے، تاریخ اور حقیقتِ انسانی خود گواہی دے رہی ہے کہ علی علیہ السلام کا ضمیر زندہ و بیدار تھا۔ وہ شہیدِ راہِ خدا تھے اور شہداء کے جد تھے، عدالتِ انسانی کی فریاد تھے۔/۹۸۹/ف۹۵۴/

 

۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 22-21[1]

 

۔ ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج 1، صص 24-22[2]  

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬