19 May 2019 - 23:32
News ID: 440414
فونت
اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یہ عجیب المیہ ہے کہ ہمارا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا گویا ہماری ہر حالت خود ساختہ قوانین کی پابند تو نظرآتی ہیں مگر خدا کے بنائے قرآنی تعلیمات کو منشور زندگی بنانے اور اس راہ میں جد و جہد کے بجائیا سے نظرانداز کرتے ہیں۔

 

حجت الاسلام سید تقی عباس رضوی

 

''ان ھذا القرآن یہدی للتی ھی اقوام و یبشّر المؤمنین الذین  یعلمون الصّٰلحت ان لہم اجراً کبیراً۔''

''بیشک قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبانِ ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں کہ ان کے لیے بہت بڑا اجرہے۔'' (سورۂ مبارکہ اسراء آیت ٨)

شیطانی بغاوتوں اور تثلیثی شرارتوں سے معرض وجود میں آنے والے گلوبلائزیشن اور دین بیزاری کے پر آشوب دور میں صرف مسلمانوں کے لئے ہی نہیں بلکہ سارے عالم کے انسانوں کیلئے سرچشمہ ہدایت اور مینارہ ٔنورہے۔یہ وہ کلام الہی جس میں غیرواقعی بات نہ اس کے آگے کی طرف س آسکتی ہے اورنہ اس ے پیچھے کی طرف سے،یہ خدا ئے حکیم کی طرف سے نازل کیا گیا ہے ۔یہ وہ آفاقی کلام ہے جو دنیائے انسانیت کو اخلاقی پستیوں اور توہمات کی زنجیروں سے نجات دلانے کا عظیم مقصد لے کر آیا ہے۔یہ محض تلاوت و ثواب کی نیت سے پڑھ لینے کے لئے نہیں بلکہ دین و دنیا کی سعادتوں و کامرانی کا ذریعہ ،سراپاشفا ورحمت اور ہادی و بشارت دینے والا ہے۔

''ان ھذا القرآن یہدی للتی ھی اقوام و یبشّر المؤمنین الذین یعلمون الصّٰلحت ان لہم اجراً کبیراً۔'' ''بیشک قرآن اس راستہ کی ہدایت کرتا ہے جو بالکل سیدھا ہے اور ان صاحبانِ ایمان کو بشارت دیتا ہے جو نیک اعمال بجا لاتے ہیں کہ ان کے لیے بہت بڑا اجرہے۔''(سورۂ مبارکہ اسراء آیت ٨)

معزز قارئین کرام سے یہ بات ہرگز پوشیدہ نہیں ہے کہ ''کمیونسٹ روس'' کے زوال کے بعد ١٩٩٠/کی دہائی کے اوائل سے اور خاص طور پر امریکہ پر ٩/١١کے حملے کے بعدامن عالم اور احترامِ انسانیت کے حامی قرآن واسلام اور مسلمانوں کے خلاف اسلام مخالف قوتوں کی مشقِ ستم اورہرزہ سرائی کا جو بھیانک طوفان اٹھاوہ عالم اسلام کے لئے رنج و غم اور کڑھن کی داستان بن گئی! اور اس کے رد عمل میں جو نتیجہ سامنے آیا اسے دہشت گردی کا نام دے کر عالم اسلام اور مسلمانوں کونشانہ بناتے ہوئے ان پر نت نئے طریقوں سے مختلف افکار و نظریات ؛ کہیں آزادیٔ نسواں کا جھوٹا نعرہ ، کہیں سکولرزم کا کھلا مکرو فریب ، کہیں شوسلزم و کیمونزم کی خفیہ دعوت توکہیں طالبان ، القائدہ ،داعش اور ان جیسے دیگر تکفیری افکار و احزاب کوان پر مسلط کردیا گیا!! حالانکہ اسلام نے کبھی کسی بھی دور میں مذہب، تہذیب، نسل یا کسی بھی علاقے کے رہنے والوں کو اپنا دشمن تصور نہیں کیا اور نہ ہی کبھی دہشت گردی، فساد فی الارض اور انسانی طبقات کی ایذا رسانی کی لیکن جب اللہ کی سرزمین پر اہل شر نے فساد پھیلانے اور ظلم و بربریت کرنے کی سازشیں رچیں تو ان الفاظ میں ''فَاخْتَلَفَ الْأَحْزابُ مِنْ بَیْنِہِمْ فَوَیْل لِلَّذینَ ظَلَمُوا مِنْ عَذابِ یَوْمٍ أَلیمٍ '' ان کی مذمت اور مزاحمت ضرور کی ہے۔

امید ہے کہ یہ مختصر سی تحریرقرآن مجید سے شغف، قلبی لگاؤ اور اس کے صحیح مطلوب و مقصود کو سمجھنے میں ہمارا ناصر و مددگار ثابت ہو اور ہم فردی اور اجتماعی سطح پر اس سے بہرہ ور ہوسکیں ، اس لئے کہ یہ دستورِحیات بھی ہے اورپیامِ ہدایت بھی،علم کا منبع و ماخذ بھی ہے اور حکمت کا سرچشمہ بھی،احسن الحدیث بھی ہے اور عروة الوثقی بھی ،دلوں کے ثبات کا ذریعہ بھی ہے اور وسیلہ ٔ  عصمت و حفاظت بھی ،یقین و تقو ی کا راہنما بھی ہے اور ادب گاہ الہی بھی ،معرفت ِ خدا کا راستہ بھی ہے اور سراپا بصیرت و آگاہی بھی ،عالم انسانیت کے لئے خیرو بیان بھی ہے اور مسلمانوں کے لئے بشارت بھی،مؤمنین کے لئے شفا و رحمت بھی ہے اوراہل تقوی کے لئے موعظہ اور ہدایت بھی،طہارت قلب کا ذریعہ بھی ہے اور پاکیزگی ٔ روح کا سبب بھی ، روز قیامت شفاعت کرنے والا شفیع بھی ہے اورآخرت کے لئے بہترین توشۂ نجات بھی گویاانسانی زندگی کا کوئی شعبہ خواہ انفرادی ہو یا اجتماعی ،قرآنی تعلیمات و فرامین اور اس کے احکامات سے باہر نہیں ۔۔۔شاعرق مشرق علامہ اقبال نے کیا خوب کہا ہے کہ : گر تو می خواہی مسلمان زیستن   نیست ممکن جز بہ قرآن زیستن

اگر مسلمان بن کر زندہ رہنا چاہتے ہو تو قرآن حکیم پر عمل پیرا ہوئے بغیر یہ ممکن نہیں ہے۔

معلم قرآن مولائے کائنات علیہ السلام نے فرمایا :(اے لوگو جان لو کہ ! ) لوگوں پر ایک ایسا دوربھی آنے والا ہے جب قرآن کے صرف نقوش باقی رہ جائیں گے اور اسلام میں صرف نام باقی رہ جائے گا ۔۔۔قرآن کی تعلیم حاصل کرو اس لئے کہ وہ بہترین گفتگو ہے اور اس کی گہرائی میں جاؤ کیونکہ وہ دلوں کی بہار ہے اور اس کے نور سے شفا چاہو کیونکہ وہ دلوں کی شفا ہے ۔''مَا جَالَسَ ھَذٰا الْقُرْآن اَحَد اِلاّٰ قَامَ عَنْہُ بِزِیَادَةٍ اَوْنُقْصَانٍ،زِیَادَةٍ فیِ ھُدیً اَوْ نُقْصَانٍ فیِ عمیً ۔'' تم جب بھی قرآن کے ساتھ مجالست اختیار کرو گے تو تم میں کسی چیز کا اضافہ ہو گا اور وہ ہدایت ہے اور تم میں کسی چیز کی کمی واقع ہو گی اور وہ دلوں کی کوری اور جہالت ہے ۔(عیون الحکم و المواعظ،صفحہ٤٧٨)

            قرآن مجید سے شغف،محبت ، قلبی تعلق اور اس سے مستفید ہوئے بغیرخدا ،رسول ۖ اور اہل بیت اطہار علیہم السلام سے وابستگی اور ان کی معرفت کا شعور و احساس پانا ناممکن ہے !آج ہمارے گھروں میں کتاب خدا موجود تو ہے مگر افسوس !ہم اس کی روشنی سے محروم ہیں ،اس کے علم و عرفان اور حکمت سے بے بہرہ ہیں۔۔۔کبھی اس بابرکت کتاب کی ہدایات کے مطابق زندگی بسر کرنے کے سبب دنیامیں معزز،باوقار اور با اختیار تھے جبکہ آج !قرآن سے دوری اور اس کی تعلیمات سے نحراف کے سبب ہم زندگی کے ہر موڑ پر ناکامی اور ذلت کے دلدل میں دھنستے جارہے ہیں اوراب نہ وہ عظمت ہے نہ وہ ابوہت ہر امور اورمراسم میں شیطانی عناصر کا سایہ اور غیروںکی چھاپ نظر آرہی ہے !

وہ زمانے میں معزز تے مسلماں ہو کر             اور ہم خوار ہوئے تارکِ قرآن ہوکر

یہ بات ملحوظ خاطر رکھنے کی ہے کہ کوئی بھی معاشرہ قرآن سے مستغنی نہیں ہوسکتا، یعنی عدل و انصاف اور اخلاقی و انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک مثالی گھر،خاندان اور معاشرہ وجود میں لانے کے لئے اگر تمام انسانی علوم اور تجربوں کواستعمال کیا جائے اور تمام افکار و خیالات اکٹھا ہو جائیں، تب بھی قرآن کے بغیر ہرگز صحیح راستہ اور صحیح منزل نہیں پاسکتے۔

شیخ عبد الکریم حائری مؤسس حوزہ علمیہ قم فرماتے ہیں کہ سرکار ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ نے ہمارے لیے دو گرانقدر چیزیں ودیعت میں چھوڑی ہیں ایک اللہ کی کتاب اور دوسرے اہل بیت علیہم السلام ،مگرافسوس!اہل سنت نے قرآن لے لیا اوردامن اہل بیت علیہم السلام کو چھوڑ دیا اور ہم شیعہ حضرات دامن اہل بیت علیہم السلام سے متمسک ہوئے تو قرآن کی عظمت  و معرفت سے غافل ہوگئے ۔

یقینا! اللہ کا یہ بابرکت کلام جو ہمارے نبی آخر الزمان صلی اللہ علیہ و آلہ پرنازل ہونے والا زندہ و جاوید معجزہ  اور خالق و مخلوق کے درمیان رابطہ کا بہترین ذریعہ ہے ہمارے درمیان آج بھی مہجورومتروک واقع ہے! یہ عجیب المیہ ہے کہ ہمارا سونا جاگنا، اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا گویا ہماری ہر حالت خود ساختہ قوانین کی پابند تو نظرآتی ہیں مگر خدا کے بنائے قرآنی تعلیمات کو منشور زندگی بنانے اور اس راہ میں جد و جہد کے بجائیا سے نظرانداز کرتے ہیں۔ اس ناگفتہ بہ  حالات کا مرثیہ  اللہ کی کتاب خودان الفاظ میں یوں پڑھتی نظرآتی ہے: الذین اوتوا الکتاب کتاب اللہ وراء ظھور ھم کانھم لایعلمون۔ اہل کتاب کے ایک گروہ نے کتابِ خدا کو ا س طرح پسِ پشت پھینک دیا گویا وہ کچھ جانتے ہی نہیں۔(بقرہ/١٠١)

{سلسلہ جاری ہے}

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬