28 December 2019 - 15:39
News ID: 441828
فونت
حکومت بی جی پی اقتدار کے دوسرے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ابھی اس کے پاس چارسال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے دیکھیۓ کیا کیاگل کھلاتی ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حکومت بی جی پی اقتدار کے دوسرے دور میں داخل ہو چکی ہے اور ابھی اس کے پاس چارسال سے زیادہ کا عرصہ باقی ہے دیکھیۓ کیا کیاگل کھلاتی ہے الیکشن جیتنے کے بعد وزیر اعظم پورے ملک کا ہوتا ہے یہ بات بچے بھی جانتے ہیں اس لۓ اس کی کسی خاص گٹ علاقہ یا افراد سے وابستگی اس عہدے کے خلاف اور ملک کے مفاد کے بر خلاف ہے۔

تحریر: سید مشاھد عالم رضوی افریقا

ملک کی ترجیحات

امن وامان کی بحالی اور ملک کے تمام باشندوں کے لئے یکساں طور پرروزگار کے مواقع فراہم کرنا بنیادی ضروریات کا حصہ ہیں البتہ دیگر اور بھی ضروریات ہیں۔۔۔مگر ان آر سی۔سی اے اے جیسے بل کا لانااوراسکی درست طریقہ سے فہمائش کرنے کے بجائے حکومت کے اھم عہدے داروں کی طرف سےبیانات میں ٹکراؤ کی کیفیت کہ مودی جی کچھ بولتے ہیں اور وزیر داخلہ شاہ جی کچھ اور اس کے کیا معنی ہیں ۔

جمہوری ملک بھارت میں باشندوں کے حقوق کے خلاف انھیں گمراہ کن بیان سے مس گایڈ کرنا کس حد درست ہے آیین ھند کے مطابق آزادی رائے آزادی بیان اور آزادی مذہب باشندگان وطن کاحق ہے کیا اھل وطن حکومت کی پالیسیوں کے بارے میں سوال نہیں کرسکتے کیا وہ حکومت سےاپنے حقوقِ نہیں مانگ سکتے کیاانکا حق نہیں بنتا کہ غلط فیصلوں پر اعتراض کریں اور حکومت سے وضاحت طلب کریں آخر کیوں پرامن مظاہرے کوتشددکانشانہ بنایا جاتا ہے اور دفعات کابیجا استعمال کرکے انھیں روکا جاتا ہے کیا واقعاً پولیس محض پولیس ہونے کے ناطے نھتےعوام پربربریت کرسکتی ہے پبلک کے مال واسباب پر ھلہ بول کرانھیں خوفزدہ کرسکتی ہے آخر یہ ٹھگی ہوئی عوام ان باتوں کا جواب کس سے پوچھے حکومت اترپردیش کے سامنے بھی یہی سوال ہیں کہ آخراحتجاجی مظاہرہ پر تشدد کی ضرورت کیوں پڑی نان مسلم اور مسلم میں بھید بھاؤ کیوں کیا جارہا ہے جبکہ غیر بی جی پی والے صوبہ تشدد سے دور رہے اور باشندگان وطن پر امن طریقے سے احتجاج کرتے رہے کیوں بی جی پی اقتدار والی حکومتوں ہی میں ہنسا رہی مودی جی بھاشڑ میں آگے کام میں پیچھے مودی جی توبھاشڑوں میں پیاری پیاری نصیحتیں کرتے اور پبلک لبھاو تقریریں کرتے ہوئے ملک بھر میں آپ کو دیکھائی دیتے ہیں مگر انکی حکومت کے برسراقتدار آنے سے اب تک ملک میں خوف ودہشت کا جو ماحول پیدا ہوا ہے اس میں روز اضافہ ہوا ہے۔

یہ کیسا تیری محفل میں ہے دستور زباں بندی
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری

موب لنچنگ پولیس کی بربریت نیٹ سویدھاکی تعطلی کشمیر یوں کی آواز طاقت کے بل دبایا جانا بابری مسجد معاملہ کاحیرت انگیز فیصلہ ۔اور ان آر سی اور سی اے اے بل کا کرشماتی انداز سے پاس کرنا یونیورسٹیوں کے اسٹوڈنٹس کی آواز دبانے کے لیے ان پرجبرو تشدد اور لڑکیوں پر پولیس کی لاٹھی چارج وغیرہ ایسے آنکھوں دیکھےثبوت ہیں جو کسی بھی طرح جھٹلاے جاسکتے ہیں نہ ہی ایک جمہوری ملک کے لئے اچھے سندیش ہیں لہزا آج ھربھارتی ان مسایل کو لیکر فکر مند بھی ہے اور رنجیدہ بھی بی جی پی اور آرایس ایس ہی نگہبانان ملک ہیں کیا بی جی پی کے لوگ تو بس خود کو ملک کا محافظ سمجھتے ہیں اور جو لوگ سیکڑوں سال سے اس دھرتی پر پرامن طریقہ سے رہ رہے ہیں اور آزادی وطن کے لئے خون پسینہ بہاچکے ہیں انھیں وہ شک کی نگاہ سے دیکھتی ہے چاہے وہ کسی قوم وذات سے کیوں نہ ہوں اورانھیں نظر انداز کر تی آرہی ہے اور ان لوگوں نے تو جھوٹ بولنے کی قسم اٹھا رکھی ہے اور ترقی کی راہیں جیسے بچوں کے لئے کم خرچ بہتر تعلیمی نظام کی بنیاد حفظان صحت کاصحیح بند وبست سرکاری اداروں میں کرپشن میں کمی وسدھار کےلۓقانون اور اس پر عملدرآمد کالادھن بٹورنے والوں سے کالے دھن کی واپسی مہنگائی پر قابو پانے کی کوششیں جو ہمارے بھارت کوترقی پر پہونچا سکتا ہے اس کی طرف سرکارکی کوئی توجہ نہیں ہے اور نہ ہی عوام کی توجہ ادھر چاھتی کہ ہوکہ جسے حکومت اگرچاہتی تو حل کرسکتی تھی مگر ان سب کے برخلاف لڑاؤ بدامنی پھیلاؤ دہشت وخوف لوگوں کے دلوں میں داخل کرو ان کا جیسے کھلا ترقیاتی ایجنڈا ہو گیا ہو جو یقینا ہمیشہ سے ملک کی ترقی کے لئےرکاوٹ تھے اور آج بھی اسی طرح رکاوٹ ہیں ۔

اہم سوال یہ ہے کہ کیا حکومت اپنی بچی ہوئی مدت کار میں ان مسایل کو حل کرنے میں دلچسپی لے گی یقینا آپ کہے گیں کہ ایک سچے بھگت سے امید تو اسی بات کی ہے اور پھر وعدہ بھی مودی جی کا
سب کا ساتھ سب کاوشواس تھا ۔

ع تمہیں یاد ہو کہ نہ یاد ہو

مزید یہ کہ غریبی اور بے روز گاری ہمارے ملک کے لئے ایک بڑا چیلنج ہے کسانوں کی مشکلات کی سنوائی کانہ ہونا ۔ آبادیوں میں چھٹا جانوروں کی بڑھتی ہوئی تعداد گندگی تو بڑھاتی ہی ہے اکسیڈنٹ کے ساتھ جان لیوا بھی ہے اور ملک کی بدنامی کا سبب بھی اور ایسے کتنے مسائل ہیں جو راہ حل چاہتے ہیں اور حکومت کی توجہ بھی البتہ پبلک ان سب باتوں کو جوان نسل خصوصاً بشدت محسوس بھی کرتی ہے اور زبان پر لاتی بھی ہے مگر گودی میڈیا بے معنیٰ ڈیبٹ سے فرصت پاے تو پبلک کی آواز بھی سنے اور سچ کی ترجمانی کرے خیر ، بھولنا نہیں چاہئے چڑھتا سورج بھی آخرکار ڈوب جاتا ہے اور سچ کامیاب ہوتا ہے ۔  ست میو جیتے ۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬