25 February 2020 - 01:12
News ID: 442178
فونت
امریکہ مسلسل فریب کاری میں مصروف ہے۔ عین الاسد امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی فوجی طاقت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے شعبے میں بھی ایسے امریکی محققین کی تعداد بہت کم ۔

تحریر: محمد کاظم انبارلوئی

اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے حال ہی میں خطاب کرتے ہوئے کہا تھا: "امریکہ اندر سے ختم ہو رہا ہے۔ امریکہ نے انتہائی فریب کاری کے ذریعے خود کو باعظمت ظاہر کر رکھا ہے۔" یہ جملہ ایک حقیقت ہے جو ہر از گاہے کروڑوں امریکی شہریوں کی شدید غربت اور اقتصادی بے بسی پر مشتمل اعداد و ارقام کی صورت میں ظاہر ہوتی رہتی ہے۔ امریکہ میں انتہائی محدود پیمانے پر ایسے افراد پائے جاتے ہیں جو کھا پی کر خود کو ہلاک کر رہے ہیں جبکہ کثیر تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہے جو شدید غربت اور اقتصادی دباو کا شکار ہیں اور بہت مشکل سے زندگی بسر کر رہے ہیں۔ فرانسیس فوکویاما امریکہ کے مشہور فلاسفر اور سیاسی اقتصاد کے ماہر ہیں ماضی میں امریکہ کی قومی سلامتی میں کام کرتے رہے ہیں۔ وہ پینٹاگون سے وابستہ سکیورٹی شعبے میں تحقیق کرنے والے ادارے "رینڈ" میں فوجی تجزیہ کار کے طور پر بھی سرگرم عمل ہیں۔ انہوں نے تیس سال پہلے "تاریخ کا اختتام" نامی کتاب لکھی جس میں دنیا میں موجود تمام مکاتب فکر کو باطل ثابت کرنے کے بعد یہ نتیجہ گیری کی کہ انسان کی حتمی فلاح و بہبود اور ترقی صرف اور صرف لبرل ازم کی پیروی میں ممکن ہے۔

فرانسیس فوکویاما نے دو سال پہلے ایک اور کتاب لکھی جس کا عنوان "تشخص، احترام کا تقاضہ اور رنجیدہ پالیسیاں" تھا۔ اس کتاب میں فوکویاما نے اپنے گذشتہ نظریات پر نظرثانی کی اور لبرل ازم کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹرمپ ازم کا ظہور اور یورپ میں دائیں بازو کی شدت پسند تحریکوں کی طاقت پکڑنے نے لبرل ازم کے حامیوں کو نئی مصیبت میں گرفتار کر دیا ہے۔ فوکویاما کا خیال تھا کہ کمیونزم اور سوشل ازم کے زوال کے بعد دنیا بھر میں لبرل ڈیموکریسی پر جامع اتفاق رائے پیدا ہو چکا ہے اور یہ اتفاق رائے درحقیقت تمام نظریات اور مکاتب فکر کی تاریخ کے خاتمے اور لبرل ازم کی برتری کے مترادف ہے۔ فوکویاما کے استاد سیموئیل ہنٹنگٹن جنہوں نے "تہذیبوں کے تصادم" کا نظریہ پیش کیا اپنے شاگرد کے نظریے کو غلط گردانتے تھے اور انہیں خبردار کرتے تھے کہ وہ اپنے نظریے کے بارے میں زیادہ خوش بینی کا شکار نہ ہوں۔ آج وہ تذبذب کا شکار ہو چکے ہیں۔ جب ولادیمیر پیوٹن کی سربراہی میں روس نے تیسرے ہزارے میں قدم رکھا، چین نے اقتصادی میدان میں حیرت انگیز ترقی کرنا شروع کی، امریکہ نے افغانستان اور عراق پر فوجی حملہ کیا اور اسلامی دنیا میں اسلامی بیداری کا آغاز ہوا تو فوکویاما کی خوش بینی کم ہو گئی۔

اب وہ امریکہ کے سیاسی میدان میں بش اور کلنٹن خاندان کے ظہور کو امریکہ کے سیاسی زوال کی علامت قرار دیتے ہیں اور خبردار کرتے ہیں کہ موجودہ حالات کے نتیجے میں عوام کو شدید نقصان پہنچے گا۔ ان کی پیشن گوئی درست تھی۔ ٹرمپ شمال مشرقی ماہرین اور جنوبی پاپولسٹ حضرات کے درمیان دیرینہ تنازعات کا فاتح قرار پایا۔ امریکہ کی رائے عامہ اور ذرائع ابلاغ اس کی پیشن گوئی کو سمجھ گئے۔ اس نے واضح انداز میں ٹرمپ کے ظہور کو امریکہ کے سیاسی نظام میں زوال کا نتیجہ قرار دیا۔ اس نے اپنی نئی کتاب "تشخص، احترام کا تقاضہ اور رنجیدہ پالیسیاں" میں پاپولسٹک نیشنل ازم، آمریت، مذہبی تنازعہ، ڈیموکریسی کے زوال اور تشخص کے بحران کے بارے میں بات کی ہے۔ اس کا عقیدہ ہے کہ موجودہ زمانے میں ثقافتی نوعیت کے حامل مفہوم "تشخص" کی بنیاد پر صف آرائی ہو رہی ہے۔ تشخص کو تسلیم کئے جانے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے اور یہ مفہوم اکثر سیاسی تنازعات اور جدوجہد کی بنیاد بن چکا ہے۔ ایسے افراد کے نام پر سیاست رائج ہو چکی ہے جن کا تشخص نظرانداز کیا جا چکا ہے یا ان پر ظلم ہوا ہے۔ امریکہ ایسی اقوام اور ممالک سے خوفزدہ ہے جو اپنا تشخص منوائے جانے اور اظہار وجود کے متقاضی ہیں۔

امریکہ مسلسل فریب کاری میں مصروف ہے۔ عین الاسد امریکی فوجی اڈے پر ایران کے میزائل حملے نے ثابت کر دیا ہے کہ امریکہ کی فوجی طاقت کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے۔ سیاست اور حکمرانی کے شعبے میں بھی ایسے امریکی محققین کی تعداد بہت کم ہے جو واشنگٹن کی پالیسیوں کو لبرل ازم کے اصولوں کے مطابق سمجھتے ہیں۔ جرمنی کے شہر میونخ میں سالانہ سکیورٹی اجلاس منعقد کیا جاتا ہے۔ اس اجلاس میں مغربی دنیا کی فکری، سیاسی اور فوجی سکیورٹی کو درپیش چیلنجز کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ اس سال اس اجلاس میں پیش کی جانے والی فکری تقاریر کا موضوع "مغرب کا زوال" تھا۔ اسلامی جمہوریہ ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ العظمی نے حال ہی میں اپنی ایک تقریر میں اس حقیقت کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: "امریکہ مغربی دنیا میں طاقت کا مظہر تصور کئے جانے کے ناطے دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ امریکہ کے اسی فیصد مزدور غربت اور افلاس کا شکار ہیں۔ طبقاتی فاصلہ انتہائی شدید ہے۔ وائٹ ہاوس کا دعوی ہے کہ ٹرمپ کے دور میں اقتصادی صورتحال بہتر ہوئی ہے لیکن امریکی عوام کی نہیں ہوئی بلکہ چند دولت مند افراد کی بہتر ہوئی ہے۔"/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬