26 April 2020 - 14:49
News ID: 442583
فونت
ابراہیم امینی علیہ الرحمہ صرف درس و بحث ، تصنیف تالیف اور وعظ و نصیحت سے وابستہ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کی پیش نظر ملک کے سیاسی اور سماجی مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

حجت الاسلام محمد عباس مسعود حیدر آبادی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ابراہیم امینی علیہ الرحمہ صرف درس و بحث ، تصنیف تالیف اور وعظ و نصیحت سے وابستہ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کی پیش نظر ملک کے سیاسی اور سماجی مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔

آج ایک ایسی خبر آئی جسے سن کر دل بیٹھ سا گیا ۔قم مقدس کی پاکیزہ فضا میں پروان چڑھنے والے ہر طالب علم کی یہی حالت ہوگی اس لیے کہ کون طالب علم ہے آیت اللہ ابراہیم امینی کی امامت میں نماز ادا نہ کی ہو ۔

آج جب انکے انتقال کی خبر آئی تو روضہ معصومہ قم اور مسجد اعظم کی روحانی فضا کا منظر یاد آگیا ۔آیت اللہ ابراہیم امینی قم مقدس کی نہایت نورانی شخصیت تھے۔ آپ کے چہرے سے معصومیت ٹپکتی تھی آپ کی آواز میں عجب کشش تھی ۔آپ مسجد اعظم کے امام جماعت اور ولی امر مسلمین رہبر معظم آیت اللہ خامنہ ای کی جانب سے قم مقدس میں امام جمعہ مقررتھے۔ آپ کے خطبے علم و معرفت اور موعظہ و اخلاق سے بھرے ہوتے تھے۔ آپ عوام اور خواص دونوں میں مقبول تھے یہی وجہ ہے کہ آپ کی امامت میں ہزاروں لوگ نماز ادا کرنے دور دور سے آیا کرتے تھے۔

آیت اللہ ابراہیم امینی کی محبوبیت کی بنیادی وجہ ان کی پاکیزہ زندگی ہے جس نے انہیں محبوب بنادیا ہے۔۹۵ سالہ زندگی کو اگر کوئی عنوان دیں تو کہہ سکتے ہیں کہ ان کی زندگی جہد مسلسل تھی۔آپ کی ولادت سنہ ۱۳۰۴ شمسی میں نجف آباد میں ہوئی۔ چھ سال کی عمر میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا ۔آپ نے ابتدائی تعلیم اپنے وطن ہی میں حاصل کی چھٹی جماعت تک ایک پرائیویٹ اسکول میں تعلیم حاصل کرتے رہے مگر آپ کا رجحان زیادہ تر دینی علوم کی جانب تھا اس لئے آپ نے ۱۳۲۱ شمسی میں مذہبی تعلیم اور دینی علوم کے حصول کیلئےاصفہان کا رخ کیا وہاں آپ نے پہلے مدرسہ نوریہ پھر مدرسہ کاسہ گران اس کے بعد مدرسہ جدہ میں تعلیم حاصل کی ۔پھر آپ نے سنہ۱۳۲۶ میں اعلی دینی تعلیم کیلئے قم مقدس کا رخ کیا وہاں آپ کنے ماہر اساتید سے فقہ و اصول و حکمت کے علاوہ درس اخلاق لیا لیکن آپ درس و بحث کے ساتھ تہذیب نفس پر خاص توجہ دیتے تھے۔

آپ کے اساتید اور دوست احباب

آپ نے مقدمات شیخ رمضان علی ملایی،شیخ ہاشم جنتی اور سید محمد ہاشمی قہدیجانی سے پڑھےاس کے بعد شرح لمعہ اور معالم شیخ محمد حسن کے پاس تمام کی اور منطق منظومہ آپ نے آقا صدر ہاطلی سے سیکھی اور رسائل کیلئے آپ نے سید عباس دہکردی اور حیدر علی برومند کے آگے زانوئے ادب تہ کیا ۔قوانین آپ نے سید علی اصغر محقق سے پڑھی اور مکاسب سید علی سلطانی اور حاج آقا بہادالدینی اور آقائے مجاہدی کے یہاں تمام کی کفایہ کی جلد اول آپ نے آیت اللہ مرعشی نجفی کے پاس پڑھی اور جلد دوم کو آیت اللہ گلپائیگانی کے پاس تمام کیا منظومہ سے حکمت کے حصے کو آپ نے علامہ سید محمد حسین طباطبائی صاحب تفسیر المیزان کے پاس پڑھا اورفقہ و اصول کے درس خارج کیلئے آپ آیت اللہ بروجردی اور امام خمینی علیہ الرحمہ کے دروس میں شرکت کرتے تھے ۔ان تمام دروس کے مباحثوں [ڈسکشن] میں آپ کے کلاس میٹ اور دوستوں میں سید کمال الدین موسوی ، شیخ عبد القاسم محمدی، شیخ عبد اللہ جوادی آملی ، شیخ عبا س ایزدی کے نام لیے جاسکتے ہیں ۔

تدریس و تبلیغ

آپ نے تدریس بھی کی مگر وقت کی ضرورت کے پیش نظر تدریس سے زیادہ تبلیغ پر توجہ دی اس لئےکہ انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے بعد یونیورسٹی اور علمی حلقوں سے بوڑھے جوان سبھی اسلامی نظریات کو سمجھنے کیلئے حوزہ کا رخ کررہے تھے مگر اس وقت حوزہ ان کے شبہات اور استفسارات کو متقن جواب دینے کی حالت میں نہیں تھا اس لئے کہ یہ باتیں پہلے حوزہ کی نصاب کا حصہ نہیں تھیں اب نئی حکومت کے استحکام اور وقت کے بدلتے تقاضوں کے پیش ہمیں دو باتوں پر خاص توجہ دینے کی ضرورت تھی ۱۔جدید علوم سے مربوط مسائل میں تحقیق اور درسی متون کی تیاری ۲۔اور ملک بھر میں سیمیناروں اور کلچرل پروگراموں میں شرکت کے ذریعہ اسلامی حکومت کو لیکر عوام کے سوالات کا جوا ب دینا ۔اسی غرض سے آپ نے بیرونی ممالک کے بھی سفر کیے تحقیقی مقالے پڑھےآپ کے تبلیغی سفر کبھی کبھی چالیس چالیس دن تک کھنچ جاتے تھےاور جب آپ کو تبلیغ سے فرصت ملتی تو اپنا پورا وقت تعلیم و تربیت اور جوانوں کے مسائل اور گھر زندگی سے متعلق مباحث کی تحقیقات میں لگ جاتے اور وقت کے تقاضوں کے مطابق کتابیں لکھتے ۔

علمی نشستوں کا خصوصی تذکرہ

صاحب المیزان علامہ طباطبائی علیہ الرحمہ کے ساتھ ہر ہفتہ جمعرات اور جمعہ کو ایک علمی نشست ہوا کرتی تھی جو ہر ہفتہ الگ الگ مقامات پر رکھی جاتی تھیں۔جس میں آیت اللہ منتظری، شہید مطہری ، آیت اللہ ناصر مکارم شیرازی، آیت جعفر سبحانی ، آیت اللہ مصباح یزدی، آیت اللہ شیخ جوادی آملی، آیت اللہ حسن حسن زادہ آملی اور بھی بہت دانشور ہیں جو شریک ہو اکرتے تھے ان علمی نشستوں میں عرفانی، اخلاقی تفسیری، علمی حدیثی ، تاریخی، اور فقہی موضوعات پر بحث ہوتی تھی انہی مباحث کا حاصل وہ کتاب ہے جسے شہید مطہری نے اپنے محققانہ نوٹ لگاکر پانچ جلدوں میں تیار کیا تھا یعنی"اصول فلسفہ و روش ریالیسم"یہ کتاب انہی جلسات کی یادگار ہے ابراہیم امینی صاحب کہتے ہیں ان جلسات میں شرکت کو میں اللہ کی توفیق سمجھتا ہوں۔

آیت اللہ امینی کی سیاسی زندگی

ابراہیم امینی علیہ الرحمہ صرف درس و بحث ، تصنیف تالیف اور وعظ و نصیحت سے وابستہ نہیں تھے بلکہ وہ اپنی سماجی ذمہ داریوں کی پیش نظر ملک کے سیاسی اور سماجی مسائل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔وہ کہتے ہیں کہ شاہ کے زمانے میں ایک گروہ مخفایانہ طور پر جمع ہوتا تھا جس کا اپنا سیاسی ایجنڈہ تھا سب سے پہلے ۱۳۴۱ میں اس گروہ سے آشنا ہوا جس میں شیخ عبد الکریم ربانی ، شیخ علی مشکینی، شیخ حسین علی منتظری، شیخ محمد تقی مصباح،شیخ علی اکبر ہاشمی رفسنجانی، سید محمد خامنہ ای، اور سید علی خامنہ ای وغیرہ شامل تھے۔ ان کے چند ایجنڈےتھے۔۱۔حوزہ علمیہ کی اصلاح ۲۔اسلام کی تبلیغ۳۔ امر بالمعروف و نہی عن المنکر۴۔ اسلام کے سیاسی سماجی اور معشیتی احکام کا اجرا انہوں نے ذمہ داریاں آپس میں بانٹ لی تھیں آگے چل کر یہی گروہ جامعہ مدرسین کی بنیاد کا سبب بنا۔

ابھی جس گروہ کا ذکر ہوا ان کے ساتھ آیت اللہ ابراہیم امینی ابتداء ہی سے انقلابی تحریک سے وابستہ تھےیہ لوگ اپنی ہویت آشکار کیے بغیر امام خمینی کی حمایت کرتے تھے اعلانات اور اشتہارات کو چھاپتے علماء کو ہمکاری کیلئے تیار کرتے اور عوام کو میدان میں آنے کی دعوت دیتے۔جب ۱۳۴۲ میں امام خمینی کو گرفتار کیا گیا پھر انہیں پہلے ترکیہ اس کے بعد نجف تبعید کردیا گیا ان تمام مراحل میں یہی لوگ امام خمینی سے جڑے رہے جب آیت اللہ محسن حکیم کا انتقال ہوا تو انہی لوگوں نے امام خمینی کی مرجعیت کا اعلان کیا اور اس پر دستخط کیے۔آپ انقلاب کے آغاز سے اب تک آٹھ آٹھ سالہ تین دوروں میں رئیس مجلس خبرگان میں رہ چکے ہیں اس کے علاوہ ان چالیس سالوں میں آپ مختلف عہدوں پر فایز رہے خاص طور سے قم مقدس کے امام جمعہ کی حیثیت سے سالہا سال آپ نے خدمات انجام دی ہیں۔آج ۲۵ اپریل ۲۰۲۰ کو ۹۵ سال کی عمر میں آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ایسا لگتا ہے کہ اللہ نے آپ کو ماہ رمضان کی ضیافت کیلئے اپنے پاس بلالیا ہے۔

آپ کے چند علمی آثار ۱:۔بررسی مسائل کلی امامت،۲۔ہمہ باید بدانند،۳۔بانوی نمونہ اسلام فاطمہ زہرا،۴۔اسلام اور تمدن غرب،۵۔آموز ش دین چہار جلدی،۶۔آئین ہمسر داری،۷۔آئین تربیت،۸۔خود سازی،۹۔دروس من الثقافۃ الاسلامیہ،۱۰۔انتخاب ہمسر،۱۲۔اسلام و تعلیم و تربیت۱۳۔آشنائی بامسائل کلی اسلام۱۴۔وحی در ادیان آسمانی۱۵۔در کنفرانسہا۱۶۔تعلیمات دینی دورہ ابتدائی ، راہنمائی،تحصیلی۱۷۔الگوہای فضیلت۱۸۔خدا شناسی۱۹۔پیامبر شناسی و پیامبر اسلام۲۰۔زن در اسلام۲۱۔نماز نور چشم پیامبر اعظم۲۲۔مہم ترین واجب فراموش شدہ۲۳۔دادگستر جہان۲۴۔امامت و امامان۲۵۔تربیت۲۶۔پرتوی از اسلام۲۷۔گفتارہای اخلاقی و اسلامی۲۸۔جہاد بانفس۲۹۔انضباط اقتصادی۳۰۔عدالت در اسلام

Comments
Anonymous
Iran (Islamic Republic of)
۲۶ April ۲۰۲۰ - ۲۳:۲۱
پروردگار غریق رحمت کرے بہت عظیم شخصیت کے مالک تھے
0
0
تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬