15 May 2020 - 13:00
News ID: 442736
فونت
حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید جواد نقوی:
جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سرپرست نے کہا کہ شہادت علیؑ صرف رونے کیلئے نہیں، بلکہ اس شہادت میں مسلمانانِ عالم کی تقدیر پنہاں ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق تحریک بیداری امت مصطفیٰ کے سربراہ اور جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے سرپرست حجت الاسلام والمسلمین علامہ سید جواد نقوی نے یوم شہادت حضرت علی علیہ السلام کی مناسبت سے منعقدہ نشست سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ شہادت علیؑ صرف رونے کیلئے نہیں، بلکہ اس شہادت میں مسلمانانِ عالم کی تقدیر پنہاں ہے، یہ واقعہ شب قدر میں وقوع پذیر ہوا، اس واقعہ کا پس منظر ہے جس کے کردار ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مُلا رومی نے کہا تھا کہ جب عبدالرحمان ابن ملجم نے ضرب لگائی تو اس نے ایسی ہستی پر ضرب لگائی جو توحید کا منبع تھی، جو قرآن تھی، ابن ملجم نے اللہ کی ہدایت پر ضرب لگائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ علیؑ ایک فرد نہیں بلکہ اللہ کا پورا نظام تھے، اس ضربت کا ذمہ دار صرف ابن ملجم نہیں بلکہ وہ بھی ذمہ دار ہیں جو اس وقت اللہ کے ولی کیساتھ نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ یہ اسباب ان لوگوں نے پیدا کئے جو خاموش تھے اور امام کا ساتھ نہیں دے رہے تھے، جو ولی خدا سے لاتعلق تھے، اپنے مفادات اور مصلحتوں کا شکار تھے، وہ شامی طاغوت کیساتھ تھے، اور جو آج بھی نظام ولایت کیساتھ نہیں یہ بھی ویسے ہی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو ہمارے دور میں ہو رہا ہے، یہ پہلے بھی ہوتا آیا ہے، یہ امیر المومنین کیساتھ ہوا ہے، صرف امیر المومنین کو رونے سے اس ضربت کی تلافی نہیں ہوتی، بلکہ اس کیلئے ولایت کا ساتھ دینا ہوگا، جو خاموش رہے گا وہ ابن ملجم کا ساتھی شمار ہو گا۔

انہوں نے کہا کہ پہلے علیؑ کو چھوڑ گئے جب علیؑ شہید ہو گئے تو سارے آ گئے کہ ہم نے جنازہ پڑھنا ہے تو انہیں جنازے میں شامل نہیں ہونے دیا گیا۔ جیسے کچھ لوگوں کو حضرت فاطمہؑ کے جنازے میں شریک نہیں ہونے دیا گیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ بہت سے آئے، لیکن خود حضرت زہراؑ نے منع کر دیا کہ انہیں میرے جنازے میں شامل نہ ہونے دیا جائے۔

انہوں نے کہا جنت البقیع میں جو قبر حضرت زہراؑ سے منسوب ہے وہ حضرت زہراؑ کی نہیں بلکہ وہ حضرت فاطمہ بنت اسد کی قبر ہے، امام زمانہؑ آ کر ہی حضرت فاطمہ کی قبر کی نشاندہی کریں گے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ مولا امیر علیہ السلام کے مزار کا بھی کسی کو علم نہیں تھا، تدوفین کے بعد حسنین کریمینؑ نے قبر کا نشان مٹا دیا تھا، بعد میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے قبر کی نشاندہی کی کہ یہ جگہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ 12 ہزار افراد علیؑ سے الگ ہو کر خوارج بن گئے تھے، باقی جو الگ ہوئے انہیں مولائے کائنات نے نامرد قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف رونا اپنا مقصد بنا لیا ہے، اس کے علاوہ ہماری کوئی ذمہ داری نہیں، ہر رونے والا بھی زہرا و زینب سلام اللہ علیھما کو پسند نہیں، روک دیا گیا تھا بعض رونے والوں کو، کوفہ والے رونے آئے تو بی بی زینبؑ نے فرمایا اب کس لئے روتے ہو، اس وقت کہاں تھے جب میرا بھائیؑ تمھیں پکار رہا تھا؟؟

انہوں نے کہا کہ کربلا میدانی رونا مانگتی ہے، دشمن مزارات مٹانا چاہتا ہے، تکفیری، داعش، ایم آئی سکس، صہیونی، سعودی سب مل کر نشان مٹانا چاہتے ہیں، تو ایسے میں عزاداری کا تقاضا کیا ہے؟ یہ کہ مٹنے دو، بعد میں ہم نوحہ بنا لیں گے، نہیں دوستان، جو امیر المومنین کے زمانے میں ان کیساتھ رہنے والے نہیں کر سکے، وہ آج آپ نے کرنا ہے، وہ کریں گے تو تلافی ہو جائے گی۔

انہوں نے کہا کہ آپ کے زمانے کے امامؑ زندہ، حاضر و ناظر ہیں، حاضر ہیں تو کیا دیکھ رہے ہیں، اپنے پیروکاروں کو دیکھ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ موسیٰؑ نے جب اپنی قوم کو سامری کیساتھ کھڑے دیکھا تو جو کیفیت ان کی تھی وہی آج امام زمانہؑ کی کیفیت ہے۔

علامہ جواد نقوی نے کہا کہ ہم امامؑ کو دکھ دے رہے ہیں، آج شب تقدیر ہے، ہمیں اپنے راستے کا انتخاب کرنا ہوگا، فیصلہ کرنا ہوگا ہم کس کے ساتھ ہیں، ہم علیؑ کیساتھ ہیں یا ابن ملجم کیساتھ؟

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬