20 May 2020 - 19:07
News ID: 442781
فونت
سال میں جتنے بھی مہینے ہیں سب میں کوئی نہ کوئی خاص اور اہم تاریخ ہوتی ہے ، ہر مہینہ اپنے اعتبارسے ایک خاص اہمیت اور فضیلت کا حامل ہوتاہے ، کوئی مہینہ خوشی لے کے آتا ہے تو غم ،اور کوئی خوشی اور غم دونوں لے کے آتا ہے۔

تحریر: سید ظفرعباس رضوی (قم المقدسہ ایران)

سال میں جتنے بھی مہینے ہیں سب میں کوئی نہ کوئی خاص اور اہم تاریخ ہوتی ہے ، ہر مہینہ اپنے اعتبارسے ایک خاص اہمیت اور فضیلت کا حامل ہوتاہے ، کوئی مہینہ خوشی لے کے آتا ہے تو غم ،اور کوئی خوشی اور غم دونوں لے کے آتا ہے ، کچھ مہینے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں کوئی خاص واقعہ پیش آتا ہے جب وہ آتاہے تو انسان کی پرانی یادٖیں تازہ ہوجاتی ہیں  یہ الگ بات ہے کہ یادیں  کبھی خوشی کی شکل میں ہوتی ہیں اور کبھی غم کی شکل میں  ہوتی ہیں ، ہر مہینہ اپنے  ساتھ ایک الگ  یاد لے کے آتا ہے،اورجو جس  مہینہ سے زیاد ہ متا ثر ہوتا ہے  وہ مہینہ اس کے  اوپر اتناہی اثر ڈالتاہے ، غرض کہ جتنے بھی  مہینے  ہیں سب میں کوئی نہ کوئی خاص بات ہوتی ہے  اور جب وہ آتاہے تو انسان اپنے ماضی کی یادوں میں ڈوب جاتاہے ، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ جس چیز کو انسان زیادہ دوست رکھتا ہے تو یہی چاہتاہے کہ ہمیشہ وہی رہے ،چاہے وہ دنیا کی کوئی چیزہو یاسال کا کوئی دن ،تاریخ   یا کوئی مہینہ ہو جب وہ چیز،تاریخ،یا مہینہ تمام ہونےلگتا ہے   اور اس کا وقت پوراہو جاتاہے تو انسان کو دکھ ہوتاہے اور نہایت ہی افسوس کرتاہے ، ان سارے مہینوں میں اگر کوئی مہینہ ایساہو جو  رحمت کا مہینہ ہو ، برکت کا مہینہ ہو  ،بخشش کا مہینہ ہو ،مغفرت کا مہینہ ہو ، خد ا کی مہمانی کا مہینہ ہو    ،نزول قرآن کا مہینہ ہو ،  قرآن کی بہار ہو ، ہمارے لئے بہترین فرصت اور موقع ہو اپنے  گناہوں کے بخشوانے کا ، اپنے خدا سے قریب ہونے کا ، جس میں نیند عبادت ہو ، سانسیں تسبیح کا ثواب رکھتی ہوں ، قرآن کی ایک آیت کے پڑھنے کا ثواب ختم قرآن کا ثواب  ہو ، جس میں شب قدر ہو ، جس میں آسمان کے دروازے کھول دئیے گئے ہوں ، جس مہینہ کو خدانے ایک خاص اہمیت اور فضیلت عطا کی ہو جس کا اجر خدانے اپنے ذمہ لیا ہو ، جب وہ مہینہ ختم  اورتمام ہونے والا ہو تو ہمیں کتنا افسوس ہونا چاہئیےاور کتنا دکھ ہو نا چاہئیے ،  اور جس کو جس چیز کی زیادہ معرفت ہوتی ہے اس کے جانے سے اس کے اوپر اتنا ہی اثرپڑتاہے اور اتناہی زیادہ  افسوس ہوتا ہے ماہ مبارک کی فضیلتوں اور عظمتوں کو حقیقی طور پہ معصومین ؑ کے علاوہ کون سمجھ سکتا ہے ، اور ان سے زیادہ کس کو اس مہینہ کی معرفت ہوسکتی ہے ، تو ان کے اوپر اس کے جانے کا اثر بھی اتناہی ہوگا ۔

 میں چاہتاہوں کہ یہاں پہ وداع ماہ مبارک رمضان کو امام زین العابدین ؑ کی  صحیفہ سجادیہ میں وداع ماہ رمضان کے سلسلہ سے جودعا ہےاس سے بیا ن کروں کہ آپ نے ماہ  مبارک رمضان کو کس طرح سے الوداع کیا ہے اور آپ کے علاوہ کوئی اور اتنی معرفت کے  ساتھ الوداع کر بھی نہیں سکتا ہے ۔

امام علیہ السلا م فرماتےہیں :" اس مہینہ نے ہمارے درمیان قابل تعریف دن گزارے اور ہمارے ساتھ رفاقت کا حق ادا کیا ، ہمیں عالمین کے بہترین فوائد سے نوازا اور جب اس کا وقت تمام ہو گیا اور ا س کی مدت ختم ہو گئی اور اس  کا وعدہ پوراہو گیا تو ہم سے رخصت ہونے لگا تو اب ہم اسے اس طرح رخصت کر رہے ہیں جس طرح اسے  رخصت  کیا جاتاہے جس کا فراق سخت ہو   اور جس کی جدائی غم زدہ اور وحشت زدہ بنانے والی ہو اور جو محفوظ حقوق ، باقی رہنے والی حرمت اور قابل ادا حق کو لازم قرار دیدے ،تو اب ہم یہ آواز دے رہے ہیں کہ اے اللہ کے بزرگ ترین مہینہ اور اے اولیاء خداکی عید تجھ پر ہمارا سلام ،سلام ہو تجھ پر اے اوقات میں بہترین ساتھی اور ایام و ساعات میں  سے  بہترین مہینے ۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ماہ مبارک جس میں آرزوئیں قریب تر ہو گئیں اور اعمال کے صحیفے منتشر ہو گئے ۔ سلام ہوتجھ پر اے وہ ہمنشین جو رہا تو اس کی منزلت عظیم رہی اور چلاگیا تو اس کے فراق نے رنجیدہ بنادیا اور اس کا وجود ایسا پر امید تھا جس کی جدائی درد ناک ثابت ہوئی ۔ سلام ہو تجھ پر اے و ہ محبوب جو آیا تو سامان انس لے کر آیا اور خوش کر دیا اورگیا تو  رنجیدہ بنا کر گیا ۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ ہمسایہ جس کے زیر سایہ دل نرم ہو گئے اورگناہ کم ہو گئے ۔ سلام ہو تجھ پر اے وہ مددگار جس نے شیطان کے مقابلہ میں ہماری مدد کی اور ایسا ساتھی بنا جس نے نیکیوں کے راستوں  کو آسان بنا دیا ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تیرے دور میں جہنم سے آزاد ہونے والے کس قدر  زیادہ تھے اورتیر ی حرمت کا خیا ل رکھنے والے کس قدر نیک ہو گئے ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تو نے کس قدر گناہوں کو مٹادیا اور کتنے قسم کے عیوب کو چھپا دیا ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تو گنہگاروں پہ کس قدر مہربان تھا اور تیر ی ہیبت صاحبان ایمان کے دلوں میں کس قدر زیادہ تھی ۔  سلام ہو تجھ پر  اے وہ مہینے جس کا مقابلہ  دوسرے زمانے سے نہیں کرسکتے ہیں ۔ سلام ہو تجھ پراے وہ مہینے جو ہر رخ سے سلامتی  کا باعث تھا ۔ سلام ہو تجھ پر کہ نہ تیری مصاحبت ناپسندیدہ تھی اور نہ تیری معاشرت قابل مذمت تھی ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تو برکتیں لے کرآیا اور گناہوں کی کثافت کو دھو کر پاک کر گیا ۔ سلام ہو تجھ پرکہ تجھے دل تنگی کی بنیاد پر رخصت نہیں کیا گیا اور جس کے روزوں کو خشکی کی بنا  پر  چھوڑا نہیں گیا ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تیرے وقت سے پہلے تیرا انتظارکیا جاتاہے اور تیرے جانے سے پہلے ہی لوگ رنجیدہ ہو جاتے ہیں ۔ سلام ہو تجھ پر کہ تیر ی وجہ سے کتنی  برائیوں کا رخ موڑ دیا گیا اور کتنی نیکیاں انڈیل دی  گئیں ۔ سلام ہو تجھ پر  اور تیری قدر کی رات پر جو ہزار مہینوں سے بہتر تھی ۔ سلام ہو تجھ پر  ہمیں کس قدر کل تیری  آرزو تھی اور کل تیر ا شوق رہے گا ۔ سلام ہو تجھ پر اور تیرے اس فضل پر جس سے ہم محروم ہو گئے اورتیری ان گذشتہ برکتوں پر جو ہم سے چھین لی گئیں ۔

خدایا ہم اس مہینے والے ہیں جس سے تو نے ہمیں شرف بخشاہے اور اپنے کرم سے ہمیں ا س کی توفیق دی ہے جب کہ بدبخت افراد  اس کے وقت سے بے خبررہے اور اپنی بد بختی کی بنا پر اس کے فضل سے محروم رہ گئے ۔ 

در حقیقت تو ہی اس معرفت کا مالک ومختار ہے جوتونے اس کےسلسلہ میں ہمیں عنایت فرمائی ہے اور اس کی سنت کی ہدایت دی ہے اور ہم نے تیری  توفیق ہی کے  ذریعہ سے اس کے روزےاور نمازکا بیڑہ اٹھایا ہے اگر چہ اس میں کوتاہیاں بھی ہوئی ہیں اور بہت سے حقوق میں   سےصرف  کچھ ہی کو ادا کرسکیں ہیں ۔ خدایا یہ تیری حمد اپنی برائیوں کے اور حقوق کی بربادی کے اعتراف کے ساتھ ہے ۔ تیرے لئے ہمارے دلوں میں واقعی شرمندگی ہے اور ہماری زبانوں پہ سچی معذرت ہے ۔ لہذا ہماری کوتاہیوں کے باوجود ہمیں وہ اجر عطافرما دے جس کے ذریعہ اس فضل کی بھر پائی ہو سکے جس کی آرزو تھی اور اسے ان ذخیروں کے انواع واقسام کا بدل قرار دے سکیں جن کی تمنا اور لالچ تھی ۔ اور اگر چہ ہم نے تیر ے حق میں کوتاہی کی ہے لیکن اس کے باوجود ہمارے عذر کو قبول کرلے ۔اورہماری عمروں کو ہمارے سامنے آنے والے رمضان تک پہنچادے اور جب ایسا ہو جائے تو ہماری مدد فرما کہ ہم اس عبادت کو اختیار کریں جس کا تو اہل ہے اور ہمیں اس منزل تک پہنچا دے کہ ہم اس اطاعت کو انجام دے  سکیں جس کا تو مستحق ہے ۔ اور ہمارےلئے نیک عمل کا وہ سلسلہ قائم کردے جو اس سال اور آیندہ سال کے ماہ رمضان کے حقوق کی تلافی کرسکے ۔  خدایا اور ہم نے اس مہینہ میں جو بھی جرم یا گناہ کیا ہے یا جس معصیت میں مبتلا ہو گئےہیں اور جس خطاکو انجام دیاہے چاہے و ہ جان بوجھ کر ہو یا بھول کر ہو اور جس کے ذریعہ ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے یا کسی دوسرے کی بے حرمتی کی ہے ، تو محمد وآل محمدعلیہم السلام  پر رحمت نازل فرما اورہمارے عیوب کو پردہ کرم میں چھپالے اور ہمارے گناہوں کا نشانہ نہ بننے دینا اور ہمارے خلاف سرکشوں کی زبان درازنہ ہونے دینا ۔ ہمیں ان کاموں میں مصروف کردے جو گناہوں کو ختم کر سکیں اور ہمارے بدترین اعمال کا کفارہ بن سکیں ۔ اپنی اس مہربانی کی بنا پر جو ختم ہونے والی نہیں ہے اور اس فضل وکرم کی بنا پر جو کم ہونے والا نہیں ہے ۔خدایاہمارے آباء کرام اورہماری ماؤں کو اور ہمارے تما م اہل مذہب کو بخش دے چاہے وہ گزر چکے ہو ں یا قیامت تک گزرنے والے ہوں خدایا ہمارے نبی حضرت محمد(ص) اور ان کی آل پر رحمت نا زل فرما جس طرح تونے اپنے ملائکہ پر نازل کی ہے [1] "

واقعا اگر ہم غور کریں تو ہمیں پتہ چلے گاکہ امام ؑ نے اپنی اس دعا میں کس طرح سے ماہ رمضان کو الوداع کیا ہے ۔ اسی سے اس مبارک مہینہ کی اہمیت اور قدر بھی سمجھ میں آتی ہے ۔ وہ امام جو سید سجا دؑ اور زین العابدین (عابدوں کی زینت ) ہو وہ کس طرح سے اپنے گناہوں کا اعتراف کر رہا ہے اور خداسے بخشش ومغفرت طلب کر رہا ہے اور اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کر رہاہے کہ جس طریقہ سے ہمیں اس مہینہ سے فائدہ اٹھانا چاہئیے تھا  ہم نہیں اٹھاسکے ۔اگر ہم  مولا کی اس دعاکو شروع سے لیکے آ خر تک پڑھیں  تو ہمیں  سمجھ میں آئے گا کہ امام ؑ نے ہم کو کس طرح سے ماہ رمضان کو وداع کرنے کا سلیقہ اور طریقہ بتایا ہے کہ ہم اس مبارک مہینہ کو کس طرح سے الوداع کریں ۔ اور امامؑ نے ہمیں اس دعامیں بہت سے پیغام دئیے ہیں کہ ہم اپنے گناہوں کا اعتراف کریں ، خد اسے مغفرت طلب کریں ، دوسروں کے لئے دعا  کریں  اپنے والدین  کے لئے دعا کریں ، اپنے مذہب والےاور دوسرے مومنین کے لئے دعا کریں ،  اور زیادہ سے زیادہ اس  مہینہ سے فائدہ اٹھائیں ، اور جتنا ہو سکے   نیک عمل انجام دیں ، اور اپنے    زمانہ کے امام ؑکے ظہور کی تعجیل کے لئے دعا کریں ،    لیکن ایک بات ضرور یا د رکھیں کہ ہم جتنے بھی   نیک عمل اس میں انجام دے دیں لیکن پھر بھی اس مہینہ کا حق ادا نہیں کر سکتے  ہیں۔ اس لئےکہ خود امام ؑ اعتراف کر رہے ہیں کہ خد ا ہم تیرے اس عظیم مہینہ کا حق ادا نہیں کر سکے بلکہ فقط کچھ چیزوں کو ہی انجام دے سکے ۔

آخر میں  خدا وند عالم سے یہی دعا ہے کہ خدا محمدﷺ وآل محمد علیہم السلام کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے  کہ ہم اس مبارک مہینہ کے آخری ایام میں زیادہ سے زیادہ  نیک  اعمال انجام  دے سکیں  اوراس کی برکتوں، رحمتوں اور فضیلتوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھاسکیں ، اور خدا ہمیں توفیق دے کہ ہم آیندہ  سا ل ماہ  رمضان کو درک کرسکیں ۔  

..........................

حوالہ:

[1] ۔ صحیفہ سجادیہ، دعا ۴۵، ترجمہ اردو، ناشر۔ انصاریان پبلیکیشنز، قم

/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬