23 May 2020 - 05:57
News ID: 442799
فونت
ویسے تو ہمارے یہاں خوشی کی تاریخیں بہت سی ہیں اور لوگ اپنے اپنے اعتبار سے خوشی مناتے بھی ہیں اور ہر خوشی کے منانے کا انداز الگ اور جد ا ہوتاہے، کچھ خوشیاں  ایسی ہیں جنھیں  کچھ لوگ  مناتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مناتے ہیں، کچھ خوشیاں مخصوص ہیں ۔

تحریر : حجت الاسلام سید ظفر عباس رضوی (قم المقدسہ ایران)

ویسے تو ہمارے یہاں خوشی کی تاریخیں بہت سی ہیں اور لوگ اپنے اپنے اعتبار سے خوشی مناتے بھی ہیں اور ہر خوشی کے منانے کا انداز الگ اور جد ا ہوتاہے ، کچھ خوشیاں  ایسی ہیں جنھیں  کچھ لوگ  مناتے ہیں اور کچھ لوگ نہیں مناتے ہیں ، کچھ خوشیاں مخصوص ہیں اور کچھ  مخصوص نہیں ہیں اور ہر خوشی کی اسی کے اعتبار سے اہتمام اور تیاری بھی کی جاتی ہے جیسی خوشی   ہوتی ہے ویسی ہی تیاری ہوتی ہے اور ہر آدمی چاہتا ہے کہ ہر بار بہتر سے بہتر تیاری کرے تاکہ لوگ بھی دیکھیں کہ اس بار پہلے کے مقابلہ میں زیادہ تیاری کی ہے ،  خوشی کے مواقع اور تاریخیں تو بہت سی ہیں لیکن ان ساری خوشیوں میں جیسی خوشی  لوگ عید فطر کی مناتے ہیں کسی اور کی نہیں مناتے  اورجیسی تیاری  عید فطر کی کرتے ہیں کسی اور کی نہیں کرتے ،عید فطر ان خوشیوں میں سے ہے جسے ہر مسلمان مناتا ہے بلکہ مسلمان کے ساتھ ساتھ دوسرے مذہب کے لوگ بھی اس خوشی میں شامل ہوتے ہیں اور عید کی مبارک باد پیش کرنے کے لئے مسلمانوں کےگھرآتے  ہیں ، جیسا اتحاد، پیارو محبت   اور گنگاجمنی تہذیب عید کے دن دیکھنےکوملتی ہے کسی اور دن دیکھنے کو نہیں ملتی ، عیدیں تو کئی ہیں عید قربان ،  عید غدیر اور جمعہ سب عید ہیں لیکن  مسلمانوں میں جس عیدکی  ظاہری طورپہ زیادہ اہمیت اور جس کی زیادہ تیاری ہوتی ہے وہ عید فطر ہے اور دوسری عیدیں ظاہری اعتبار سے عید فطرکے مقابلہ میں  پھیکی پڑجاتی ہیں ، عید فطر کی تیاری  ما ہ مبارک رمضان شروع ہونے کے کچھ ہی دن بعد شروع ہو جاتی ہے کہ اس بار عید میں  کیا  پہننا ہے کیا کھانا ہے وغیرہ ۔

عید فطر ماہ مبارک کے پورے ایک مہینے کے روزوں کے بعد آتی ہے جس کا ہر انسان بہت ہی بے چینی اور بے صبری سے انتظار کرتاہے اور کرنا بھی چاہیئے، روزہ داروں سے زیادہ وہ لوگ عید کی تیاری میں  دبلے ہوتے جاتے ہیں جو روزہ نہیں رکھتے  ہیں ، زیادہ تر لوگوں کا ہم وغم یہی ہوتا ہے کہ عید کی تیاری بہتر سے بہتر ہو ۔

یہ ساری چیزیں اپنی جگہ پہ  ہیں ، لیکن جوچیز سب سے زیادہ غور کرنے کی ہے وہ یہ ہےکہ لوگ ایک مہینہ روزہ    رکھنے کے بعد شب عید اور عید کے دن سمجھتےہیں کہ اب آزاد ہو گئے  ہیں جو چاہیں انجام دیں ، گویا کہ آج ہمارے سماج اور معاشرے میں ایسا ماحول پید ا ہوگیاہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ شب عیداور روز عید جو بھی گناہ چاہیں کر سکتے ہیں سب کچھ جائز ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے ،  حرام چیز ماہ رمضان میں بھی حرام رہے گی اور عید کے دن بھی حرام رہے گی ، ایسا نہیں ہے کہ ماہ رمضان کے بعد جو چاہیں انجام دیں خاص طور سے عید کے دن ،عام طور سے عید کا مفہوم ہمارے ذہن میں جو ہو تاہے ویسا نہیں ہے بلکہ معصومینؑ نے   حقیقی اور واقعی عید کو بیان کیا ہے کہ حقیقی اور واقعی عید کون سی ہے  اور کس کی ہے ۔

شب عید کی فضیلت 

پیغمبر اکرم (ص )نے فرمایا :"جو شخص عید کی شب عبادت میں بسر کرے اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن قلوب مردہ ہوجائیں گے [1] "

روزفطر کو عید کیوں قرار دیاگیا۔؟

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا :" روز فطر کو اس لئے عید قرار دیاگیا ہے تاکہ مسلمانوں کے لئے محل اجتماع قرار پائے اور سب ایک ساتھ جمع ہو جائیں اور خدا کے لئے باہر آئیں اور خد انے جو نعمتیں ان کوعطا کی ہیں اس کے بدلے میں اس کی تعریف اور بزرگی بیان کریں ، روز فطر ،روزعید ہے ، روز اجتماع ہے ، روزہ کو توڑنے کا دن ہے ، فطرہ کا دن ہے ، دوستی کا دن ہے ، تضرع اور گریہ وزاری کا دن ہے [2] "

حقیقی اور واقعی عید

امام علی ؑ نے ایک عید کے موقع پہ فرمایا :" یہ عید صرف ان لوگوں کے لئے ہے جن کا روزہ قبول ہو جائے اور جن کی نماز قابل قدر ہو جائے اور ویسے جس دن بھی پروردگار کی معصیت نہ کی جائے وہی روز ، روز عید ہے[3] " یعنی جس دن انسان سے گناہ  نہ ہو وہ دن اس کے عید کا دن ہے ۔

"سوید ابن غفلہ کا بیان ہے کہ میں عید کے دن امام علیؑ کی  خدمت میں حاضر ہوا میں   نے دیکھا کہ آپ کے سامنے دستر خوان بچھاہو ا ہے اوراس پر تھوڑی سی روٹی  اور ایک ظرف میں خطیفہ (ایک قسم کا  معمولی کھانا جسے آٹےمیں دودھ ملا کر پکاتےہیں اور پھر چمچہ سے  کھاتےہیں )چمچہ کے ساتھ رکھاہوا ہے میں نے کہا اے امیرالمومنینؑ عید کے دن اور یہ غذا ؟ آ پ نے فرمایا کہ یہ عید اس کی ہے جو بخش دیا گیا ہو [4] "

عید کے دن ذکر خدا 

پیغمبراعظم (ص)نے فرمایا :"  اپنی عیدوں کو اللہ اکبر کے ذکر سے زینت دو [5] "

دوسری جگہ پہ آپ نے فرمایا :" عید فطر اور عید قربان کو لاالہٰ الااللہ، واللہ اکبر والحمد للہ اور سبحان اللہ کے ذکر سے زینت دو [6]"

"پیغمبر اکرم(ص) عید کے دن جب گھر سے باہر نکلتے تھے تو جب تک نماز کی جگہ تک نہیں پہونچ جاتے تھے تکبیر کہتے رہتے تھے [7]"

عیدفطر  انعام کا دن ہے  

جناب جابر نے امام باقر ؑ سے نقل کیا ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)نے فرمایا :" شوال کے پہلے دن کی صبح میں ایک منادی آواز دیتا ہے ۔ اے مومنوں اپنا انعام لینے کے لئے صبح کرو، اور پھر آپ نے فرمایا ۔ اے جابر خدا کا انعام بادشاہوں کے انعام کی طرح نہیں ہے ، پھر فرمایا کہ عید فطر انعام کا دن ہے [8] "

عید کے دن امام علی(ع) کا خطبہ 

امام صادق   ؑنے فرمایا کہ امام  علی علیہ السلام نے عید کے دن ایک خطبہ دیا اور فرمایا :" اے لوگوں یہ دن تمہاراایسا دن ہے جس میں نیک عمل انجام دینے والے اجروثواب  پائیں گے اوربرے عمل انجام دینے والے نقصان اور گھاٹا  اٹھائیں گے اور یہ دن قیامت کے دن سے کا فی مشابہت رکھتاہے ، پس جب تم عید کی نماز کےلئے اپنے گھروں سے نکلوتو اس دن کو ضرور یاد کرو جب اپنے پروردگارکی بارگاہ میں کھڑے ہوگے اور جب اپنے گھروں کو واپس آنے لگو تو اس دن کو یاد کرو جب اپنے جنت  یا جہنم کے گھروں میں پلٹوگے ، اے خداکے بندوں سب سے کم اور معمولی جو  چیز روزہ دار مرد اور عورت کے لئے ہے وہ یہ ہے کہ ماہ رمضان کے آخری دن  ایک فرشتہ ان لوگو ں کو آواز دیتاہے، اے خداکے بندوں تمہارے لئے خوشخبری ہے کہ خداوند عالم نے تمہارے پچھلے گناہوں کو بخش دیاہے ، پس   محتاط رہو کہ  اس کے بعد کیا کروگے اور کون سا فعل انجام دوگے[9] "

امام سجاد(ع) کی دعا

امام سجادؑ خدا کی بارگاہ میں عرض کرتے ہیں:" خدایا ہم تیری بارگاہ میں آج کے یوم الفطر میں جسے تو نے صاحبان ایمان کے لئے روز عید ومسرت قرار دیا ہے اور اپنے اہل ملت کے جمع ہونے کا سامان فراہم کیا ہے ۔ ہر اس گناہ سے توبہ کر رہے ہیں جس کا ارتکاب کیا ہے یا جو برائی ہم سے سرزد ہوئی ہے یا جو براخیال ہمارے دلوں میں پایا جاتاہے ، اوریہ توبہ ایسی ہے جس میں  دوبارہ گناہ کی طرف پلٹ کر جانے کا کوئی خیال نہیں ہے اور نہ ہی  دوبارہ خطاکرنے کا کوئی ارادہ ہے  ، یہ ہماری توبہ ہر طرح کے شک و ریب سے پاک ہے ،لہذا اسے قبول کر لے اورہم سے راضی ہو جا اور پھر ہمیں اسی توبہ  پر ثبات قدم بھی عنایت فرما [10] "

عید کے دن بہترین دعا 

عید کے دن ہمارے لئے بہترین دعا یہی ہے جس کو  مصباح المتہجد میں شیخ طوسی نے  اور دوسروں نےبھی نقل کیاہے  جس کو   ہم قنوت میں پڑھتے ہیں کہ۔ میرے معبود ہمیں ہر اس خیر میں داخل کر دے جس میں تونے محمداور آل محمدعلیہم السلام کو داخل کیاہے اور ہر اس برائی سے نکا ل دے جس سے تونے محمد اور آل محمد     علیہم السلام کو نکالا ہے[11] "

معصومینؑ کے اقوال کو  پڑھنے کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ، عید صرف نئے کپڑوں کے پہن لینے کا دن   نہیں ہے  ،صرف خوشیاں منانے کا دن  نہیں ہے اور نہ ہی  ایسا ہے کہ ہم شب عید اور روزعید  جو چاہیں انجام دیں سب معاف ہے ، بلکہ عید انعام کا دن ہے ، خدا کو زیادہ سے زیادہ سے یا د کرنے کا دن ہے ،   گناہوں سے بچنے کا  دن ہے ،   توبہ اور  استغفار کا دن ہے ، آخرت اور قیامت کو یاد کرنے کا دن ہے ،  پیارومحبت اور صلح و آ شتی کا دن ہے ، صلہ رحم کا دن ہے ، عید کے دن تو ہم کو اور احتیاط کرنا چاہیئے اور گناہوں سے بچنا چاہیئے اس لئےکہ پورے ایک مہینہ ہم نے عبادت و بندگی میں  گزارے اور ہماری پوری کوشش یہی ہونا چاہئیے کہ یہ ہمیشہ اسی طریقہ سے باقی رہے ، اس لئےکہ نیک عمل انجام دینا آسا ن ہے لیکن اسے ویسے ہی  باقی رکھنا مشکل ہوتاہے  اور ہم پورے یقین سے کہہ بھی نہیں سکتے کہ ہم نے ماہ مبارک میں جتنی عبادتیں انجام دیں اور جنتے روزے رکھے سب قبول ہوگئے ، جب ایساہے تو پھر ہمیں چاہئیے کہ عید کے دن اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کرتے ہوئے خدا سے سچے دل سے توبہ کریں اور بخشش و مغفرت طلب کریں ۔

لہذا عید کے دن ہم شوق سے نئے کپڑے پہنیں ، خوشیاں منائیں ، لیکن ایک بات ضروریاد رکھیں کہ ہمارا کوئی بھی فعل اور عمل شریعت کے خلاف نہ ہو عید کی شب  اورعید کے دن ہم ایسا کوئی فعل انجام نہ دیں جو اہل بیت  ؑکی سیرت کے خلاف ہو جو امام زمانہ ؑ کی ناراضگی کا سبب بنے ۔

آخرمیں خداوند عالم سے  یہی دعاہے کہ خدا محمدﷺ  وآل محمدعلیہم السلام  کے صدقہ میں ہمیں توفیق عنایت فرمائے کہ ہم  اس طریقہ سے عید منائیں جو اہل بیت ؑ کی خوشنودی کا سبب بنے اور خداہمیں ہر اس خیر میں داخل کردے جس میں اس نے محمد ﷺاور آل محمد(ع) کو داخل کیاہے اورہر  اس برائی سے نکال دے جس سے اس نے محمدﷺ اور آل محمد(ع)کو نکالا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ:

[1] ۔ ثواب الاعمال، ص،۷۶، ناشر۔ دارالشریف ا لرضی للنشر، قم

[2] ۔ من لا یحضرہ الفقیہ ، ج، ۱، ص، ۵۲۲،ناشر۔ دفتر انتشارات اسلامی ، قم

[3] ۔ نہج البلاغہ ، حکمت ، ۴۲۸

[4] ۔ بحار الانوار، ج،۴۰،ص، ۳۲۶، ناشر۔ دار احیاء التراث العربی ، بیروت

[5] ۔ کنزالعمال ، ج،۸،ص، ۵۴۶، ح۔۲۴۰۹۴                                                                                                       

[6] ۔ کنزالعمال، ح ۔ ۲۴۰۹۵

[7] ۔ کنزل العمال، ج، ۷، ص، ۸۹، ح ۔ ۱۸۱۰۴

[8] ۔ کافی، ج، ۴،ص، ۱۶۸،ناشر۔ دارالکتب الاسلامیہ، تہران

[9] ۔ بحارالانوار، ج، ۸۷،ص،۳۶۲،ناشر، داراحیاء التراث العربی ، بیروت

[10] ۔ صحیفہ سجادیہ ، دعا،۴۵

[11] ۔ مصباح المتہجد، ج ، ۲،ص، ۶۵۴،ناشر۔ موسسہ فقہ الشیعہ ، بیروت

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬