22 June 2020 - 16:49
News ID: 442993
فونت
شہر قم تمام مذہبی شہروں اور مقدس مقامات کے درمیان درخشندہ ستارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ وہ شہر ہے جو فضلیت ،فقاہت ،ولایت،شہامت اور شہادت کے اعتبار سے دیگر شہروں اور ملکوں سے ممتاز ہے۔

 

(تحریر: محمد رضا (مبلغ جامعہ امامیہ)

شہر قم تمام مذہبی شہروں اور مقدس مقامات کے درمیان درخشندہ ستارہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ بیہ وہ شہر ہے جو فضلیت ،فقاہت ،ولایت،شہامت اور شہادت کے اعتبار سے دیگر شہروں اور ملکوں سے ممتاز ہے۔

 

قم:ایک طیب وطاہر اور اہل تشیع کا شہر ہے ۔جہاں کے لوگوں نے صدیوںسے اپنے دل کو محبت اہل بیت سے آباد رکھا۔

قم :وہ شہر ہے کہ جس کی زیارت روح کو صاف وشفاف کرتی ہے اور جہاں کے حوزات علمیہ عقل انسانی کے بند دریچوں کو وا کرتے ہیں اور جہاں کے لوگ ایک عرصے سے امام کے نائب رہے ہیں۔

قم:وہ شہر ہے جس کا مبارک نام صدیوںسے زباں زدہ خاص وعام ہے۔

قم:وہ شہر ہے جو آسمان پر رسول و آل رسول کے نزدیک ایک خاص اہمیت کا حامل ہے جس کے بارے میں مولا علی علیہ السلام نے فرمایا:شہروں میں سب سے سالم اور پرامن شہر قم ہے جس نے ولایت علی ؑ واولاد علیؑ کو قبول کرنے میں پہل کی اور جس کی آغوش میں بے شمار پر افتخار چیزیں پائی جاتی ہیں۔

قم:وہ شہر ہے جس نے زکریا،اشعری،عمران،صدوق،علی بن بابویہ،ملا صدرا،حائری،بروجردی ،امام خمینی ،امام خامنہ ای اور بے شمار شخصیات کو جنم دیکر انہیں زیور علم وادب سے مزین کرکے زمانے کے حوالہ کیا۔

قم:وہ شہر ہے جہاں امام زمانہ ؑسے منسوب مسجد جمکران موجود ہے جو دنیا کے گوشہ گوشہ سے آنے والا عاشقان امام کے لئے متبرک اور سرچشمۂ ہدایت ہے۔

قم:وہ شہر ہے جہاں حوزۂ علمیہ موجود ہے جس کے اوپر امام زمانہ کی خاص عنایت ہے اور جس کی بنیاد مرحوم آیۃ اللہ العظمیٰ حاج شیخ عبد الکریم الحائری یزدیؒ کے مبارک ہاتھوں سے ۳۰۱ ھ میں رکھی گئی اور اس حوزہ کی برکت اتنی ہوئی کہ اس زمانے میں ایسے ایسے عالم دین وجود میں آئے کہ وہ صدیوں تک امام کی نیابت کر سکتے ہیں اور ان کے امور کو قیامت تک زندہ رکھ سکتے ہیں۔

قم:وہ شہر جوحضرت معصومہ سلام اللہ علیہا ساتویں امام کی دختر اور آٹھویں امام کی خواہر کے مبارک وجود سے منسوب ہے۔

وہ فاطمہ معصومہ جنہوں نے ایک ذی قعدہ ۱۷۳ ھ قمری کو امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے خانۂ مبارک کو اپنے وجود نورانی سے منور کردیا۔

آپ اسی طرح اپنے والد محترم کی مہر ومحبت کے زیر سایہ پروان چڑھتی رہیں۔ اور ۲۸ سال کی عمر میںیعنی ۲۰۱ ھ کہ جب امام رضا علیہ السلام ۲۰۰ ھ میں مامون عباسی کی وجہ سے خراسان آئے تو آپ بھی ایران کےلئے روانہ ہوگئیں تاکہ بھائی کے زیر سایہ زندگی گذارسکیں اور ان سے ایک لمحہ کے لئے بھی دور نہ رہیں۔جس وقت آپ شہرستان ساوہ نامی مقام پر پہونچیں ۔بیمار ہوگئیں ۔تو آپ نے لوگوں سے یہ پوچھا کہ یہاں سے قم کتنی دورہے؟ اس لئے کہ آپ نے اپنے اجداد سے شہر قم کی بے پناہ فضیلتوں کو سن رکھا تھا نیز یہ بھی سنا تھا آپ کی آرامگاہ اسی قم میں ہوگی۔آپ نے لوگوں سے درخواست کی کہ انہیں قم پہونچا دیا جائے ۔

جب معصومہ شہر قم کے لئے روانہ ہوئیں ادھر سعد کی خاندان کو آپ کے آنے کی خبر ہوچکی تھی لہٰذا لوگوں کا ہجوم آپ کے استقبال کے لئے امنڈ پڑا ۔ان لوگوں نے آپ سے درخواست کی کہ آپ ان کے گھر بطور مہمان ٹھہریں۔

موسیٰ بن خزرج نے آپ کے ناقہ کی لجام تھامی اور اور اپنے گھر لے گئے ۔یہ وہی جگہ ہے جہاں آپ نماز یں پڑھا کرتی تھیں جس کو بیت النور کے نام سے جانا جاتا ہے اور جہاں مدرسہ (ستیہ)واقع ہے ۔آپ سولہ دن بیمار رہنے کے بعد ۱۲ ربیع الثانی ۲۰۱ ؁ھ میں اس دنیا سےرخصت ہوگئیں۔

مرحوم محدث قمی سفینۃ البحار میں تحریر فرماتے ہیں:جس وقت معصومہ نے وفات پائی اور ان کو غسل وکفن دیا جاچکا ۔سعد کے خاندان والے آپ کی تدفین سے متعلق مترد د تھے کہ آخر کون آْپ کو دفن کرےگا اورکہاں دفن کیا جائے؟تو دوگھوڑ سوار آئے اور معصومہ کے جنازے کے قریب گئے ۔ان کے جنازہ پر نماز پڑھکر سرداب میں گئے اور وہیں پر آپ کو دفن کردیا ۔قبر سے باہر آئے اور سوار ہوکر چلے گئے ۔کسی کو پتہ نہیں چلا کہ وہ دونوں افراد کون تھے۔

معصومۂ قم اور شہر قم سے متعلق بہت سی احادیث موجود ہیں جن سے دونوں کی فضیلتیں عیاں ہوتی ہیں۔جس طرح ابن الرضا امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے اپنی عمۂ محترم کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا:من زار عمتی بقم فلہ الجنۃ۔جو بھی قم میں میری پھوپھی کی زیارت کرے گا اس پر جنت واجب ہوجائیگی۔۱ 

اس کے علاوہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:عَنِ الصَّادِقِ ع قَالَ: إِنَّ لِلَّهِ حَرَماً وَ هُوَ مَكَّةُ وَ لِرَسُولِهِ حَرَماً وَ هُوَ الْمَدِينَةُ وَ لِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ حَرَماً وَ هُوَ الْكُوفَةُ وَ لَنَا حَرَماً وَ هُوَ قُمُّ وَ سَتُدْفَنُ فِيهِ امْرَأَةٌ مِنْ وُلْدِي تُسَمَّى فَاطِمَةَ مَنْ زَارَهَا وَجَبَتْ لَهُ الْجَنَّةُ ۔۲

جس طرح اللہ کا حرم مکہ ،رسول کا حرم مدینہ،مولائے کائنات کاحرم کوفہ ہے اسی طرح ہماراحرم قم ہے ۔عنقریب وہاں میری اولاد میں سے ایک خاتون دفن کی جائیں گی جس کانام فاطمہ ہوگاجس نے ان کیزیارت کی اس کے لئے جنت واجب کردی جائےگی۔(یہ حدیث مادر امام موسیٰ کے حاملہ ہونے سے پہلے ارشاد فرمائی تھی۔

اہل قم کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ :چھٹے امام نے فرمایا:وبإسناده عن عفان البصري، عن أبي عبد الله عليه السلام قال: قال لي:أتدري لم سمي قم؟ قلت: الله ورسوله وأنت أعلم. قال: إنما سمي قم لان أهله يجتمعون مع قائم آل محمد - صلوات الله عليه - ويقومون معه ويستقيمون عليه وينصرونه.۳

عفان بن بصری سےا مام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:کہ کیا تم جانتے ہو کہ قم کو قم کیوں کہا جاتا ہے؟عفان نے کہا اللہ اور اسکا رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں۔امام نے فرمایا:کہ قم کو قم اس لئے کہا جاتا ہے چونکہ وہاں کے لوگ قائم آل محمد کے ساتھ قیام کریں گے اورا ن کے ساتھ ثبات قدمی کا مظاہرہ کریں گے اور ان کی مدد کریں گے۔

ان کے علاوہ ائمہ معصومین کے علاوہ بہت سی احادیث موجود ہیں جن میں آپ نے معصومۂ قم اور شہر قم کی فضیلت کو بیان کیا ہے ۔معصومین ؑ نے شہر قم کو کبھی امن وامان اور تمام تر آفتوں سے پاک ومنزہ شہر کہا تو کبھی علم وحلم اور صاحبان عقل کے شہر سے یاد فرمایا۔کبھی اہل قم کے لئے فرمایا:لولا القمیون لضاع الدین۔اگر قم والے نہ ہوتے تو دین برباد ہوجاتا۔اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ قم کی تاریخ بڑی قدیمی تاریخ ہے۔

آخر میں دعا ہے کہ پروردگارہم سب کو امام علی رضا ؑ اور معصومہ کے روضے کی زیارت نصیب فرما اور ان کے فرامین پر عمل پیرا ہونے کی توفیق مرحمت فرما۔ آمین رب العالمین ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

حوالہ: 

۱- سفینۃ البحار ۔ج۲ص۳۶۷)
۲- بحارالأنوار ج : ۹۹ ص : ۲۶۶
۳- بحار الأنوار - العلامة المجلسي - ج ٥٧ - الصفحة ٢١٦

/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬