13 July 2020 - 11:52
News ID: 443161
فونت
ملت تشیع کی موثر قوتیں، دشمنان تشیع اور دشمنان اہلبیت کا ناطقہ بند کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ منظم سازش کے تحت ملت کو "ڈی ٹریک" کر دیا گیا ہے۔

تحریر: ابو فجر لاہوری

پاکستان میں ملتِ تشیع کے درمیان ایک نئے فتنے نے سر اُٹھا لیا ہے اور اس صورتحال سے ایسا لگ رہا ہے کہ سب کچھ منظم طریقے سے "نامعلوم قوتیں" کروا رہی ہیں۔ کیونکہ حال ہی میں مولوی اشرف جلالی نے پہلے حضرت ابو طالب علیہ السلام اور پھر شانِ سیدہؑ میں گستاخی کی۔ حضرت ابو طالب علیہ السلام کے معاملے پر تو اتنا زیادہ ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم دخترِ رسول، سیدہِ کائنات کی شان میں ہونیوالی گستاخی نے پوری قوم کو بیدار کر دیا، اہل تشیع کیساتھ ساتھ اہلسنت نے بھی شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔ اشرف جلالی کیخلاف ملک بھر میں مظاہرے ہوئے، اسمبلیوں میں مذمتی قراردادیں منظور ہوئیں، مقدمات درج ہوئے اور اشرف جلالی کا نام بھی فورتھ شیڈول میں ڈال دیا گیا۔ اس جلالی فتنے میں ابھی غم و غصہ کم نہیں ہوا تھا کہ ایک اور فتنے نے سر اُٹھا لیا اور ملت تشیع کی توجہ اشرف جلالی سے ہٹ کر اس فتنے کی جانب ہوگئی۔

اس فتنے میں دو گروہ برسرپیکار ہیں۔ ایک مرکزِ ولایت کے نام سے لاہور کے علاقہ علامہ اقبال ٹاون میں تحریک ولایت شروع ہوئی۔ اس تحریک کے رہنما ابوذر بخاری نام ایک شخص ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا گروہ ہے، جو ولایتِ علی علیہ السلام کا نعرہ لیکر میدان میں اُترا ہے۔ 6 جولائی کو ان کا دوسرا سالانہ کنونشن ہونا تھا، مگر لاہور کی ضلعی انتظامیہ نے انہیں کورونا وائرس کے باعث کنونشن کرنے کی اجازت نہیں دی۔ اس گروہ نے ماتمی انجمنوں، علماء بیزار طبقے اور ذاکرین کو اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ ذاکرین کی اکثریت نے ان سے اعلان لاتعلقی کر دیا۔ ذاکرین نے 6 جولائی سے قبل ہی اپنے اپنے بیانات جاری کئے، جن میں واضح کیا کہ اس گروہ کے عقائد اور نظریات سے وہ متفق نہیں اور ان سے اعلانِ لاتعلقی کرتے ہیں۔ یوں ماتمی انجمنوں کو جب پتہ چلا کہ ان کا ایجنڈا کچھ اور ہے تو وہ بھی الگ ہوگئے۔ ماتمیوں کی بھی اکثریت اس گروہ سے دور ہوچکی ہے۔

فتنہ کہاں سے پیدا ہوا؟؟
غالی و نصیری عقائد کے حامل اس گروہ کے نظریات یہ ہیں کہ یہ علمائے کرام اور مراجع عظام کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابوذر بخاری کے بقول تقلید صرف امام زماںؑ کی ہی ہوسکتی ہے، اس لئے جب تک امام زمانہ علیہ السلام غیبت میں ہیں، تقلید ساقط ہے۔ یہ گروہ دینی مراکز قم و نجف سمیت دیگر مدارس کو بھی تسلیم نہیں کرتا، مراجع عظام کے نہ صرف مخالف ہیں، بلکہ ان کی توہین بھی کرتے ہیں۔ اس گروہ کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ان کے تانے بانے برطانوی خفیہ ایجنسی ایم آئی سکس کیساتھ ملتے ہیں۔ تاہم اس الزام کے حوالے سے اس گروہ نے کبھی انکار یا تائید نہیں کی۔ البتہ یہ حقیقت ہے کہ ابوذر بخاری کے عزیز و اقارب برطانیہ میں ضرور موجود ہیں۔ جن کی وجہ سے یہ الزام درست ہی معلوم ہوتا ہے۔ مبصرین کہتے ہیں چونکہ ان کا نشانہ براہ راست نظام ولایت فقیہ ہے اور یہ کھلے عام مراجع عظام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں، اس لئے یہ طاغوت کا عالمی ایجنڈا ہے، یہ ان کی اپنی رائے نہیں بلکہ ان کو دیا گیا ایجنڈا ہے، جس پر یہ عمل پیرا ہے۔ ملت تشیع کے شدید ردعمل کے باعث اس گروہ کی سرگرمیاں فی الحال محدود ہوگئی ہیں، تاہم مستقبل میں ان کے عزائم کیا ہیں، یہ آنیوالے وقت میں واضح ہو جائے گا۔

اس فتنے کے مقابلے میں تشیع کا ردعمل

اس گروہ نے پچھلے دنوں لاہور میں سول سیکرٹریٹ کے سامنے بظاہر اشرف جلالی کیخلاف ریلی نکالی۔ اس ریلی میں صرف ایک مطالبہ کیا گیا کہ اشرف جلالی نے شان سیدہ میں گستاخی کی ہے، اس لئے اس کیخلاف لاہور کے تھانہ سمن آباد میں درج ہونیوالے مقدمہ میں دفعہ 295 سی کا اضافہ کیا جائے۔ اس مطالبہ کے سوا اشرف جلالی کیخلاف کچھ نہیں کہا گیا، البتہ اس ریلی سے خطاب میں مقررین مراجع عظام اور علمائے کرام کو کڑی تنقید کا نشانہ بڑھ چڑھ کر بنایا۔ دوسرے لفظوں میں اس ریلی کے مقررین نے مراجع عظام کو کھلے عام گالیاں دیں۔

مجلس وحدت مسلمین کا ردعمل

اس فتنے کے ردعمل میں مجلس وحدت مسلمین کے صوبائی صدر علامہ عبدالخالق اسدی کا کہنا ہے کہ یہ نصیری و غالی فتنہ چند افراد کی حرکت ہے، ان کو اہمیت نہ دی جائے تو یہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اگر اس کو اہمیت دیں گے تو ان کی مفت میں مشہوری ہو جائے گی۔ علامہ اسدی کہتے ہیں کہ یہ بھٹکے ہوئے نوجوان ہیں، انہیں پیار سے سمجھایا جائے تو سمجھ جائیں گے۔ ان کو ہماری محبت کی ضرورت ہے۔ ہماری نفرت اِن کو مزید بگاڑ دے گی اور اس کے نتائج اچھے نہیں ہوں گے۔ اس لئے ان کیخلاف شدید ردعمل دینے کے بجائے انہیں پیار سے سمجھایا جانا چاہیئے۔ دلیل کیساتھ ان کیساتھ گفتگو کی جائے تو یہ راہ راست پر آسکتے ہیں۔

علامہ سید جواد نقوی کا ردعمل

ایم ڈبلیو ایم کے موقف کے برعکس تحریکِ بیداریِ اُمت مصطفیٰ کا موقف زیادہ شدید ہے۔ جامعہ عروۃ الوثقیٰ کے پرنسپل اور تحریکِ بیداریِ اُمت مصطفیٰ کے سربراہ علامہ سید جواد نقوی کہتے ہیں کہ یہ فتنہ خطرناک ہے۔ یہ مقامی فتنہ نہیں بلکہ ان کے تانے بانے ایم آئی سکس کیساتھ ملتے ہیں۔ اس لئے انہیں پیار کی زبان سمجھ نہیں آئے گی۔ علامہ جواد نقوی نے یہ بھی کہا کہ 80ء کی دہائی میں جب تکفیریت کا فتنہ سر اُٹھا رہا تھا اور زور و شور سے ملتِ تشیع کی تکفیر کی جا رہی تھی، تو اُس وقت بھی جب ہم نے علماء سے پوچھا کہ یہ فتنہ سر اُٹھا رہا ہے، اس کا سدباب کیا جائے۔ تو علماء نے چشم پوشی کی، اور کہا "یہ خود بھونک بھانک کر چپ کر جائیں گے۔" علامہ جواد نقوی کے مطابق تکفیری فتنے کو اس وقت روک لیا جاتا تو اتنے خطرناک نتائج نہ ملتے کہ ملت تشیع کے قیمتی ترین افراد کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی، اہم ڈاکٹرز، پروفیسرز، سیاستدان، بیوروکریٹس، علمائے کرام، ذاکرین عظام کو چن چن کر مار دیا گیا۔ وہ جو کہتے تھے کہ یہ خود بھونک بھانک کر چپ کر جائیں گے، انہوں نے بیرون ملک جا کر سیاسی پناہیں حاصل کرلیں۔

علامہ جواد نقوی کہتے ہیں کہ تکفیری فتنے کے بعد اب اِس نئے فتنے نے سر اُٹھانا شروع کر دیا ہے۔ علامہ جواد نقوی کے بقول یہ فتنہ، ماضی کے تکفیری فتنے سے زیادہ خطرناک ہے۔ کیونکہ تکفیری فتنہ میں ہمارے مخالف فرقہ کو استعمال کیا گیا تھا جبکہ اِس نئے فتنے میں ہمارے اندر سے لوگوں کو چنا گیا ہے۔ یہ فتنہ زیادہ خطرناک ہے۔ اس لئے اس کی سرکوبی میں کسی غفلت کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔ علامہ جواد نقوی اس بات پر بھی خوش ہیں کہ ان کے جوانان نے اس فتنے کو کچلنے میں اہم کردار ادا کیا اور 6 جولائی کو لاہور میں ہونیوالے کنونشن کا انعقاد رکوا دیا گیا۔ کیونکہ علامہ جواد نقوی نے "تحریک تحفظ تشیع پاکستان" کے پلیٹ فارم سے "دفاعِ ولایتِ فقیہ ریلی" کا اعلان کر رکھا تھا، جس میں تحریک بیداری اُمت مصطفیٰ، مجلس وحدت مسلمین، شیعہ علماء کونسل اور امامیہ سٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنان نے مشترکہ طور پر شریک ہونا تھا۔ اس ریلی کے انعقاد کا فیصلہ "اتحادِ اُمت فورم" کے پلیٹ فارم سے کیا گیا۔ اتحادِ اُمت فورم میں تمام اہل تشیع جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔

شیعہ علماء کونسل کا ردعمل

شیعہ علماء کونسل شمالی پنجاب کے صدر علامہ سبطین حیدر سبزواری نے بھی شدید الفاظ میں اس نصیری فتنے کی مذمت کی ہے۔ وہ اس گروہ کیساتھ ساتھ علامہ سید جواد نقوی پر بھی برس پڑے۔ علامہ سبطین سبزواری کا کہنا تھا کہ یہ نصیری فتنہ اور علامہ جواد نقوی دونوں ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں اور ملت جعفریہ کیلئے دونوں خطرناک ہیں۔ دونوں نے لاہور میں ہی اپنے اپنے مورچے بنا رکھے ہیں اور انہیں مورچوں میں بیٹھ کر فتنہ سازی کرتے ہیں اور اس کا نقصان ملت جعفریہ کو ہوتا ہے۔ علامہ سبطین سبزواری نے غالی گروہ کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ آپ لوگوں کی شناخت کیا ہے؟ آپ لوگ یہ نظریاتی فیڈ بیک لیتے کہاں سے ہیں؟؟ جب آپ علمائے کرام کے مخالف ہو، مراجع عظام کو گالیاں بکتے ہو تو پھر تمہارا نظریاتی قبلہ کون سا ہے۔؟

علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ یہ جو مجتہدین کے پتلے جلانے کی بات کرتے ہیں، وہ یاد رکھیں کہ ولایت فقیہ کے محافظین زندہ ہیں اور آپ لوگ ذرا یہ پتلے جلا کر تو دیکھیں، پھر آپ کو پتہ چلے گا کہ اس کا ردعمل کیسا ہوتا ہے۔ علامہ سبطین سبزواری نے کہا کہ یہ چند بے دین اور دین بیزار افراد کا گروہ ہے، جس سے ذاکرین و علماء اپنی برات کا اظہار کرچکے ہیں، پوری ملتِ جعفریہ ان سے لاتعلق ہوچکی ہے، پھر یہ بتائیں تو سہی کہ یہ کہاں سے ہیں؟ ان کے مدراس کون سے ہیں، ان کے علماء کون سے ہیں۔؟ انہوں نے دوٹوک انداز میں غالی گروہ کے سرکردگان کا پیغام دیا کہ اس فتنے سے باز آجائیں، ورنہ ایسا ردعمل دیا جائے گا کہ آپ کی نسلیں بھی یاد رکھیں گے۔

علامہ جواد نقوی کی دفاعِ ولایتِ فقیہ میں ولائی تنظیموں پر بھی تنقید

علامہ سید جواد نقوی نے پاکستان میں ولی فقیہ کی محبت کا دم بھرنے والی تمام تنظیموں کو کڑی نتقید کا نشانہ بنایا۔ علامہ جواد نقوی نے کسی بھی تنظیم یا شخصیت کا نام لئے بغیر کہا کہ ولی فقیہ کے نمائندگان کہاں ہیں، وہ نوجوان کہاں ہیں، جو بڑے بڑے بینر لگا کر رہبر معظم کا یہ فرمان نمایاں کرکے لکھتے ہیں کہ وہ رہبر کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں۔ ولایت فقیہ کے یہ پیرو کہاں ہیں، کیوں اس غالی گروہ کی زبان بند نہیں کر رہے، جو رہبر معظم کی شان میں کھلے عام گستاخی کر رہا ہے۔ علامہ جواد نقوی کے اس خطاب کے بعد پاکستان کی مذہبی تنظیمی سیاست میں ایک پھونچال کی کیفیت ہے۔ آئی ایس او پاکستان کی مجلسِ نظارت اور آئی ایس او کے سابق مرکزی صدرور میدان میں آگئے اور علامہ سید جواد نقوی کی اس تنقید کا شدید ردعمل دیدیا۔ آئی ایس او کی جانب سے ردعمل آنے پر تحریکِ بیداریِ اُمت مصطفیٰ کے رہنما نے کہا کہ یہ ایک حقیقت ہے کہ آئی ایس او کے جوانوں نے پاکستان میں انقلاب کے حوالے سے بہت سی خدمات انجام دی ہیں کہ جو قابل قدر اور ناقابل فراموش ہیں۔

رہنما نے کہا کہ آئی ایس او نے انقلاب اور ولایت کے نام کو زندہ رکھا ہے، آئی ایس او کا ملت کے جوانوں کی تربیت میں بھی اہم کردار رہا ہے۔ اس حقیقت کا کوئی بھی انکار نہیں کرتا، اب آتے ہیں، اس بات کی طرف کہ جو سید جواد نقوی صاحب نے آئی ایس او کے جوانوں کے بارے میں کہی ہے۔ کیا سید جواد نقوی صاحب ان کی توہین کرنا چاہتے تھے؟ یا پھر انھوں نے جو بات کی ہے، وہ اپنی ذمہ داری کو متوجہ کرنا ہے۔؟ انہوں نے کہا کہ آئی ایس او کے جوان جو اپنے آپ کو رہبر معظم انقلاب کے قریب سمجھتے ہیں، جب پاکستان میں علناً رہبر کی توہین ہو رہی ہے تو آپ متعھد جوان کیوں خاموش ہیں۔؟ اگر کوئی بزرگ اپنی اولاد کو ذمہ داری کی طرف متوجہ کرے تو یہ توہین نہیں ہوتی بلکہ اس پر خوش ہونا چاہیئے کہ ہمیں متوجہ کیا گیا ہے۔ یہی سید جواد نقوی ہیں کہ جو آئی ایس او کو ہدایت کا دروازہ کہتے ہیں۔ اس موقع پر سابقین نے واویلا مچایا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ ہم سے زیادہ آئی ایس او کا کوئی ہمدرد نہیں۔ ہمیں حد سے زیادہ خوشی ہوتی کہ اسی طرح سابق مرکزی صدور اور مجلس نظارت دفاع رہبر معظم انقلاب اسلامی کیلئے ہنگامی اجلاس کرکے اعلامیہ جاری کرتی۔

محاذ آرائی کا راہ حل

ملتِ تشیع کی موثر قوتیں، دشمنان تشیع اور دشمنان اہلبیت کا ناطقہ بند کرنے کے بجائے آپس میں دست و گریبان ہیں۔ ایسے لگ رہا ہے کہ منظم سازش کے تحت ملت کو "ڈی ٹریک" کر دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے، کوئی کسی کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے تو کوئی کسی کا دفاع کر رہا ہے، جبکہ اس ساری محاذ آرائی میں اصل وظیفہ فراموش ہوگیا ہے۔ مجلس وحدت مسلمین ہو یا شیعہ علماء کونسل، تحریک بیداری امت مصطفیٰ ہو یا آئی ایس او، تحریک تحفظ تشیع ہو یا دینی مدارس، یہ سارے عوامل ملت جعفریہ کا حصہ ہیں۔ یہ جسد واحد کے عضو ہیں۔ اُن کیلئے "اتحادِ اُمت فورم" قائم ہوا اور تمام جماعتوں نے وحدت کیلئے مثبت کردار ادا کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، لیکن ملت جعفریہ کی قوت سے خائف قوتیں نہیں چاہتیں کہ یہ ملت متحد ہو، شائد اسی لئے منظم منصوبہ بندی کے تحت ایک نیا فتنہ پیدا کر دیا گیا ہے۔ اس فتنے کا شکار ہونے کے بجائے ملت کے زعماء، علماء اور قائدین کو وحدت اُمت کیلئے کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔

آغا جواد ہوں یا علامہ راجہ ناصر، علامہ ساجد نقوی ہوں یا ملت کے نوجوان، سب ملت کا سرمایہ ہیں، ملت کے دست و بازو ہیں۔ جب سب ایک ہیں، تو کیوں نہ مل بیٹھ کر ہی اس باہمی غلط فہمیوں کا راہ حل نکال لیا جائے، سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم سے ایک دوسرے پر تنقید اور الزام تراشی تو مسئلے کا حل نہیں، بلکہ اس سے تو معاملات زیادہ خراب ہوتے ہیں۔ شیعہ علماء کونسل کو بھی کشادہ دلی کا مظاہرہ کرنا چاہیئے اور مل کر غالیت و نصیرت کے فتنے کا قلع قمع کرنا چاہیئے، نظام ولایت فقیہ کیخلاف بہت بڑی سازش تیار کی گئی ہے، اس سازش کو ناکام بنانے کیلئے ولائیوں کو متحد ہونا ہوگا اور یہ پیروانِ ولایت فقیہ ہی متحد نہ ہوئے تو "ڈیوائیڈ اینڈ رول" تو طاغوت کا اولین اصول ہے، ہم نے وحدت کی رسی کو نہ تھاما تو ہم طاغوت کی غلامی میں چلے جائیں گے اور غلاموں کی کوئی زندگی ہوتی ہے، نہ عزت و غیرت۔ ہمارا باہمی اتحاد ہی ہماری غیرت ہے، ہماری عزت ہے اور عزت پر کوئی غیرتمند سمجھوتہ نہیں کرتا۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬