30 September 2012 - 17:11
News ID: 4621
فونت
آيت ‌الله جوادي آملي:
رسا نيوزايجنسي - حضرت آيت الله جوادي آملي نے مظلوم کي حمايت اور ظالم سے بے توجہي کو راہ انبياء کا تسلسل اور صراط مستقيم الھي جانا اور کہا: مظلوم کي حمايت فقط اسلامي دنيا ہي سے متعلق نہيں ہے، بلکہ مظلوم اور ظالم چاھے دونوں غير مسلم ہوں، چاھے دونوں مسلمان ہوں يا ايک کافر اور دوسرا مسلمان تمام صورتوں ميں مظلوم کي حمايت لازم اور ظالم کي سرزنش ضروري ہے ?
حضرت آيت الله جوادي آملي

رسا نيوزايجنسي کے رپورٹر کي رپورٹ کے مطابق، مفسر عصر حضرت آيت الله عبد الله جوادي آملي نے ا?ج اپنے سلسلہ وار تفسير قران کريم کے درس ميں جو مسجد اعظم، حرم مطھر حضرت معصومہ قم ميں طلاب وافاضل حوزہ کي شرکت ميں منعقد ہوا سورہ مبارکہ قصص کي تفسير ميں کہا: حضرت موسي عليہ السلام کے بعض مسائل ان کے زمان رسالت سے متعلق ہيں، جو «کذالک نجزي المحسنين» کا مصداق ہيں ، يہ ا?يت دوسروں پر بھي صادق ہے مگر خداوند سبحانھ تبارک و تعالي نے برکتوں کے بالاترين درجہ کو انبياء الھي ميں قرار ديا ہے ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير قران کريم کے استاد نے کہا: قران کريم ميں دربار فرعون ميں حضرت موسي عليہ السلام کے طرز زندگي اور پرورش کے سلسلے ميں کوئي تذکرہ نہيں ہوا ہے، کہ وہ وہاں کس طرح زندگي بسر کرتے تھے اور فرعوں کے گھر کے حالات کيا تھے؟ مگر خداوند متعال نے انکے زمانہ رشد و بلوغ کا تذکرہ کيا ہے کہ اپ سياسي ماحول ، سياست کي برائياں ، ال فرعون کي سماجي اور ثقافتي حيات اور بني اسرائيل کي مظلوميت سے باخبر ہوئے ?

حوزہ علميہ قم کے اس نامور استاد نے ايت «و دخل المدينة علي حين غفلة من أهلها» کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: سلاطين خوش آب و هوا علاقہ ميں محل تعمير کيا کرتے تھے، فرعون کا محل بھي شھر سے باہراور کافي فاصلہ پر تھا ، جس ميں حضرت موسي کليم اللہ کے قدم پہونچے «علي حين غفلة من اهلها» لوگ حضرت موسي عليہ السلام کے انے سے باخبر نہيں تھے، جب شھر ميں سناٹا چھايا تھا تب اپ وہاں پہونچے ، اور اپ فرعون کي جنايتوں «علا في ‌الارض»، «يستضعف طائفة منهم» و «يذبح ابناءهم» سے باخبر ہوئے ?

انہوں نے ايت «فوجد فيها رجلين يقتتلان هذا من شيعته و هذا من عدوه ...» کي تفسير ميں کہا: حضرت موسي عليہ السلام نے شھر ميں پہونچتے ہيں سب سے پہلے دو ادمي کو ديکھا، خدا نے جن کا ضمير«هذا» کے ذريعہ تذکرہ کيا ہے، «هذا» کي ضمير پچھلے واقعہ کو پلٹانے کے لئے ہے ، «فاستغاثه الذي من شيعته علي الذي من عدوه» تو مظلوم بني اسرائيل نے موسي کليم اللہ سے کہا کہ يہ قبطي اکڑباز اور سامراجيت خو ہے ?

مظلوم کي حمايت فقط اسلامي دنيا سے ہي متعلق نہيں

حضرت آيت الله جوادي آملي نے کہا: مظلوم کي حمايت فقط اسلامي دنيا ہي سے متعلق نہيں ہے، بلکہ چاھے مظلوم اور ظالم دونوں غير مسلم ہوں، چاھے دونوں مسلمان ہوں يا ايک کافر اور دوسرا مسلمان تمام صورتوں مظلوم کي حمايت لازم اور ظالم کي سرزنش ضروري ہے، حضرت موسي عليہ السلام نے ظالم کے سينہ پر ايک مکا مارا اور يہ مکا جان ليوا نہيں تھا اور حضرت موسي عليہ السلام نے بھي جان سے مارڈالنے کا ارادہ نہيں کيا تھا ، يہاں نہ فعل قاتل ہے اور نہ مارنے والے کا ارادہ قتل کا ہے ، نتيجتا خطاي محض ہے اور جرم محسوب نہيں کيا جائے گا ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے حضرت موسي عليہ السلام کے قول «هذا من عمل الشيطان» کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: شيطاني عمل يعني قبطيوں اور مظلوم بني اسرائيليوں کے درميان ٹکراو، نہ حضرت موسي عليہ السلام کي مظلوم کي حمايت ، کيوں کہ حضرت موسي عليہ السلام نے خدا سے گفتگو ميں کہا کہ خدايا ميں نے اس پر ظلم نہيں کيا مگر خطا کر کے خود پر ظلم کيا جو خدا کے بندوں کے لئے عيب شمار کيا جاتا ہے، لھذا انہوں نے فرمايا «فاغفرلي» اور يہ دعا مستجاب ہوئي « فغفرله» خدا نے انہيں بخش ديا، جبکہ اگر کسي کا حق ضائع ہوا ہوتا تو حضرت عليہ السلام اس کا حق ادا کرتے اور خدا بھي انہيں ھرگز نہيں بخشتا ?

انہوں نے مزيد کہا: حضرت موسي عليہ السلام نے کہا کہ «رب بما أنعمت علي » يعني خدايا تيري نعمت کي قسم کھا رہا ہوں، «فلن اکون ظهيرا للمجرمين» اس ايت ميں کلمہ« لن » تاکيد کيلئے ہے مگر نفي ابد کيلئے نہيں ہے، جيسا کہ اسي کے مانند ايت «فلن أبرح الارض حتي يأذن لي أبي» ميں بھي ايا ہے ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے ايت «رب بما أنعمت علي فلن أکون ظهيرا للمجرمين» کرتے ہوئے کہا: ھم نمازوں ميں کہتے ہيں کہ «اهدنا الصراط المستقيم، صراط الذين انعمت عليهم» منعم عليه ، نزول نعمت کے مقامات کو سورہ نساء ميں معين کرديا گيا ہے ، اور انبياء اسي گروہ ميں سے ہيں ، يہ ايت بھي حضرت موسي عليہ السلام کو منعِم عليه جانتي ہے ، اور اس کا راستہ يہ ہے کہ ھم ظالم کي حمايت نہ کريں اور اس وقت يہ نماز ہوگي سياسي اور سماجي نماز، يہ نماز وہي نماز ہے جو ھماري تہذيب اور تمدن کا سبب ہے ?

کون سي نماز دين کا ستون ہے؟

انہوں نے مزيد کہا: حضرت موسي(ع) نے اپنے خدا سے عہد کيا کہ «رب بما أنعمت علي فلن اکون ظهيرا للمجرمين» خدايا تيري دي ہوئي نعمت کے شکرانہ پر ميں کسي ظالم اور تبہکار کي حمايت نہ کروں گا ، يہ سخن ايک تہذيب اور تمدن کي تعمير کے لئے کافي ہے ، ھم ھر دن خد ا سے راہ « انعمت عليهم » پر گامزن رھنے کي دعا کرتے ہيں ، اور يہاں سے پتہ چلتا ہے کہ کيوں نماز دين کا ستون ہے ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير قران کريم کے استاد نے کہا: ھميں جس قدر بھي طاقت حاصل ہوجائے ھرگز اسے مجرموں اور ظالموں کي حمايت ميں صرف نہ کريں ، تو يہ نماز ہوگي ستونِ دين ، يہ نماز ہوگي کردار کي تعمير کا سبب، اور يہ نماز ہوگي «تنهي عن‌الفحشاء و المنکر» ?

انہوں نے مجرم کے معني بيان کرتے ہوئے کہا: مجرم کافر سے مخصوص نہيں ہے ، حضرت موسي(ع) نے فرمايا کہ جوکوئي بھي مجرم ہوگا ميں اس کي حمايت نہيں کروں گا، حضرت موسي عليہ السلام دوبارہ فرعون کے محل ميں واپس نہيں لوٹے ?

صبر بہترين فضائل ميں سے ہے

حضرت آيت الله جوادي آملي نے سورہ قصص کي 18 ويں ايت «فأصبح في‌المدينة خائفا يترقب، فاذا الذي استنصر بالامس يستصرخه» کي تفسير ميں صبر کو بہترين فضائل ميں سے بيان کرتے ہوئے کہا: ايک قبطي ايک بار اور بني اسرائيل کو تکليف دينے کي کوشش ميں تھا ، يہ صحيح کہ خداوند متعال مظلوموں کا حامي اور ظالم کي کمين ميں ہے مگر ھر چيز کا ايک راستہ ہے اور صبر يہاں پر مشکل کا حل ہے ، خدا نے سب سے بہتر چيز جس کا ھميں حکم ديا ہے وہ دامن صبر سے متمسک ہونا ہے ، حضرت موسي(ع) نے اسے نصيحت کي «انک لغوي مبين» مگر اس کے باوجود حضرت ظالم کے مقابل ائے ، «فلما أن أراد اين يبطش بالذي هو عدو لهما، قال اتريد ان تقتلني کما قتلت نفس بالامس» اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسي عليہ السلام کے ہاتھوں قبطي کا مارا جانا ايک پيچيدہ معاملہ ہے ، اور «خائفا يترقب» حضرت موسي(ع) کا ماجرا بھي اسي سلسلے ميں ہے ?

انہوں نے مزيد کہا: فيصلہ کيا گيا کہ حضرت موسي عليہ السلام کو گرفتار کرليا جائے ، «و جا من أقصي المدينة رجل يسعي» شھر کے فاصلہ سے ايک ادمي نے خود کو حضرت موسي عليہ السلام تک پہونچايا اور اپ سے کہا کہ اس شھر سے چليں جائيں کيوں يہ لوگ اپ کے قتل کا ارادہ رکھتے ہيں ، شھر کے دور سے خبر کا انا اس بات پر گواہ ہے کہ فرعون کا محل شھر سے کافي فاصلہ پر تھا ، انے والے نے کہا کہ فرعون کے درباريوں نے «يأتمرون بک» اپ کے قتل کا فيصلہ کيا ہے ، «فاخرج اني لک من الناصحين» حضرت موسي عليہ السلام بھي فرعون کے ظلم سے اگاہ ہوچکے تھے ، اور ايسے ماحول ميں دوبارہ فرعون کے محل ميں لوٹ کر نہيں جاسکتے تھے ?
تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬