15 October 2012 - 12:57
News ID: 4676
فونت
درس تفسير قران :
رسا نيوزايجنسي - حضرت آيت الله جوادي آملي نے تفسير قران کريم کے درس ميں کہا: معرفت خدا کے کمترين مرتبہ پر فائز افراد کو بھي اگر قيامت پر يقين ہو تو وہ اپني رفتار و گفتار ميں احتياط سے کام ليں گے اور اپني فعاليتوں ميں ذمہ داري کا احساس کريں گے ?
آيت الله جوادي آملي


رسا نيوزايجنسي کے رپورٹر کي رپورٹ کے مطابق، مراجع تقليد قم ميں سے حضرت آيت الله عبدالله جوادي آملي نے اپنے سلسلہ وار تفسير قران کريم کے درس ميں جو مسجد اعظم حرم مطھر حضرت معصومہ قم سلام اللہ عليھا ميں طلاب و افاضل حوزہ کي شرکت ميں منعقد ہوا سورہ مبارکہ قصص کي تفسير کي ?

حوزہ علميہ قم ميں تفسير قران کريم کے اس نامور استاد نے کہا: اس حصہ ميں حضرت موسي (ع) اور فرعون کے واقعہ ميں، فرعون جو حقائق کے اثبات ميں جز تجربہ اور محسوسات کے علاوہ کسي اور راستہ کا معتقد نہ تھا، وہ اگر کسي چيز کو نہ ديکھتا تو ھرگز اسے نہ مانتا، اور فرعون کے پاس معرفت کا واحد راستہ تجربہ اور حس تھا، ميناروں اور تحقياتي مراکز کي تعمير بھي تحصيل علم کے لئے نہ تھي بلکہ ابتدائي شناخت کي غرض سے تھي ?

انہوں نے مزيد کہا: مختصر سے مختصر معرفت خدا کي رکھنے والا بھي اگر قيامت پر ايمان رکھے تو اپني رفتار و گفتار ميں احتياط سے کام لے گا اور اپني فعاليتوں ميں ذمہ داري کا احساس کرے گا، خداوند متعال نے قران کريم کي سوره مبارکہ «ص» ميں فرمايا کہ تمام مشکلات کي جڑ «بِما نَسوا يَومَ الحِساب» روز قيامت کا بھول جانا ہے، کيوں کہ جو انسان قيامت کو بھول جائے گا وہ خود کو ذمہدار محسوس نہيں کرے گا اور اس کے نتيجہ ميں خود کو ا?زاد چھوڑ دے گا، ا?زاد لوگوں کے پاس عملي خواہشات موجود ہيں اور وہ علمي مشکلات سے روبرو نہيں ہيں ، وہ چاھتے ہيں کہ ا?زاد رہيں تاکہ فسق و فجوراور برائياں انجام دے سکيں جيسا کہ قران کريم نے فرمايا « بَل يُريدُ الاِنسانُ لِيَفجُرَ أمامَه » کہ اگر کوئي ان پر لگام نہ کَسِے تو جو دل ميں ائے گا وہ کريں گے ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير قران کريم کے اس نامور استاد نے ايت شريفہ« وَاسْتَکْبَرَ هُوَ وَجُنُودُهُ فِي الْأَرْضِ بِغَيْرِ الْحَقِّ وَظَنُّوا أَنَّهُمْ إِلَيْنَا لَا يُرْجَعُونَ » کي جانب اشارہ کيا اور کہا: خداوند متعال کا فرمان ہے کہ ھم نے ايک مدت تک انہيں مہلت دينے کے بعد انہيں دريا ميں ڈال ديا اور اس بات کے اثبات کے لئے کہ ان کي کوئي حيثت نہيں ہے بلکہ تمام کے تمام خدا کے قبضہ قدرت ميں ہيں اور ھرگز تصور نہ کريں کہ انکا کنٹرول خدا کے لئے مشکل ہے ? جيسا کہ خدا قيامت کے دن پوري زمين کو اس طرح برابر کردے گا جس ميں پستي يا بلندي نہ رہ جائے گي « فَيَذَرُهَا قَاعًا صَفْصَفًا، لَّا تَرَى فِيهَا عِوَجًا وَلَا أَمْتًا » اور کوئي بھي جگہ ان لوگوں کے چھپنے کي نہ ہوگي اس کے علاوہ اس دن سب کي انکھيں بھي تيز بين ہوں گي ?

قران کريم کے اس نامور مفسر نے ايت شريفہ « وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ لَا يُنصَرُونَ » کي جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا: خداوند متعال نے فرعون اور فرعون جيسے لوگوں کو رھبران کفر کے لقب سے ياد کيا ہے ، اور فرمايا کہ يہ لوگ سب سے پہلے مکروہات کا شکار ہوئے اور پھر انہوں نے گناہان صغيرہ انجام دئے اور پھر گناہان کبيرہ اور اس جيسے اعمال کے مرتکب ہوئے اور خداوند متعال نے بھي اسي کے جرم ميں انہيں سزائيں دي اور کہا کہ ھم نے انہيں رھبران کفر ميں شمار کيا ہے ، يعني اگر خدا کسي کو سزا دينا چاھتا ہے تو نہ تنھا اسے گمراہ کرديتا ہے بلکہ اسے رھبران کفر و نفاق ميں سے قرار ديتا ہے ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے مزيد کہا: خداوند متعال نے انسانوں کے لئے ايک چراغ ان کے اندر قرار ديا اور دوسرا چراغ ان کے باہر قرار ديا تا کہ ان چراغوں کے ذريعہ اپني منزل پاسکيں، اس نے عقل اور فطرت کو انسانوں کے اندر کا چراغ اور نبوت و امامت کو باھر کا چراغ رکھا تاکہ وہ ھدايت پاسکيں ? نبي اور امام دو کام کرتے ہيں، انسانوں کي ھدايت کرتے ہيں اور انسانوں کے ہاتھوں کے چراغ ہيں جيسا کہ رسول اسلام نے فرمايا: «ان الحسين(ع) مصباح الهدي» حسين چراغ ھدايت ہيں يعني معصوم امام چرغ ھدايت ہے، اور دوسرا کام يہ ہے کہ انسانوں کے اندر کے چراغ کي لَو بڑھا ديتے ہيں « يثير لهم دفائن العقول » يعني نبي اور امام انسانوں کے ہاتھوں کا بھي چراغ ہيں اور انسانوں کے اندر کے چراغ کي لَو بڑھا کر اسے خاموش ہونے سے محفوظ رکھتے ہيں ?

انہوں نے بيان کيا: اگر اس کے بعد بھي انسان گمراہ ہوجائے تو خداوند متعال اسے مہلتيں ديتا ہے اور توبہ کا راستہ اس کے لئے کھول ديتا ہے ، اور اگر پھر بھي کسي نے ان تمام رحمتوں کے دروازوں کو اپنے لئے بند کرليا اور ايسي جگہ پہونچ جائے کہ قابل ھدايت نہ ہو تو خداوند متعال ان سے ھدايتوں کي صلاحيتيں سلب کرليتا ہے ، جيسا کہ فرمايا « يُضِلُّ بِهِ کَثِيرًا وَيَهْدِي بِهِ کَثِيرًا وَمَا يُضِلُّ بِهِ إِلَّا الْفَاسِقِينَ » وہ گمراہي جو فاسقين سے مخصوص ہے اس کے معني انہيں گمراہ کرنے کے نہيں ہيں اور عقل و احساس ذمہ داري بھي ان سے نہيں چھيني جاتي ، کيوں کہ انبياء اور اولياء الھي اور علماء اخري لمحہ حيات تک ان لوگوں کي ھدايت ميں مصروف رہتے ہيں، بلکہ وہ توفيق و ھدايت و رحمت جو ابھي تک ان کے لئے تھي وہ سلب کرلي جاتي ہيں اور انہيں ان کے حال پر چھوڑ ديا جاتا ہے ?

مدرسين حوزه علميہ قم کونسل کے رکن نے بيان کيا: خداوند متعال نے سوره مبارکہ فاطر ميں فرمايا « مَّا يَفْتَحِ اللَّـهُ لِلنَّاسِ مِن رَّحْمَةٍ فَلَا مُمْسِکَ لَهَا وَمَا يُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَهُ...» خدا کا کام رحمتوں کے دروازے کھولنا يا رحمتوں کا نازل کرنا ہے، وہ يا عنايتيں کرتا ہے يا نہيں کرتا ہے ، اگر اس نے اپني رحمت کا دروازہ کھول ديا ہے تو کوئي اسے بند نہيں کرسکتا اور اس نے بند کر رکھا ہے تو کوئي اسے کھول نہيں سکتا ، لھذا گمراہي کے معني يہ نہيں ہيں کہ وہ کسي کو ظلمت يا تاريکي کے دريا ميں ڈال دے گا يا گناہوں کے سمندر ميں غرق کردے گا بلکہ اس کا مفھوم يہ ہے کہ تمام وہ رحمتيں جو ابھي تک اسے اپنے سايہ ميں لئے ہوئي تھيں اب وہ سايہ ختم ہوگيا ، ورنہ ھرگز مقصد يہ نہيں ہے کہ اس نے کفار کو امامت کفار کے حوالے کوئي چيز حوالے کيا ہے ، « وَجَعَلْنَاهُمْ أَئِمَّةً يَدْعُونَ إِلَى النَّارِ » بلکہ خدا نے انہيں ان کے حال پر چھوڑ ديا ہے ?

حضرت آيت الله جوادي آملي نے کہا: يہ کہ پيغمبر اسلام صلي الله عليه و آله وسلم مسلسل کہتے تھے « الهي لا تکلني إلي نفسي طرفة عين أبدا » خدايا مجھ سے ايک لمحہ کو بھي اپني نظر نہ موڑ، کے معني بھي يہي ہيں کيوں کہ اگر خدا نے ايک لمحہ کو انسانوں کو ان کے حال پر چھوڑ ديا تو نہ تنہا وہ بہک جائيں گے بلکہ دوسروں کو بھي بہکا ديں گے، اور يہي کفر کي امامت ہے ?

انہوں نے کہا: اگر انسان کو اس کے حال پر چھوڑ ديا جائے تو اعمال کے حصہ ميں نفس اماره و شهوت و غضب اور وهم و خيال و شک افکار کے حصہ ميں انسان کے لئے کچھ بھي نہ چھوڑيں گے ، کيوں کہ امامت حَقہ اور رھبري خدا کا عھدہ ہے اور يہ خدا کا عہدہ اتنا زيادہ با عظمت و جلالت ہے کہ گناہ گار واھل ستم چاھے ماضي ميں ستمکار اور گناہگار رہے ہوں اسے ھرگز نہيں پا سکتے جيسا کہ قران کريم ميں ا?يا ہے«لا ينال عهدي الظالمين» ، امامت کوئي پڑھنے پڑھانے کي چيز نہيں ہے جسے حوزہ اور يونيورسٹي ميں پڑھ کر حاصل کيا جاسکے، يا اپني کوششوں کے ذريعہ حاصل کيا جاسکے ? خداوند متعال نے يہ نہيں کہا کہ کوئي بغير ميري مرضي کے امامت نہيں پہونچ سکتا بلکہ يہ کہا کہ امامت پہونچے گي مگر ھر کسي کو نہيں پہونچے گي ، «عهدي» عربي گرامر کے حوالے سے «ينال» کا فاعل ہے ، يعني بلبلوں کي خوش الحاني ھر جگہ سننے کو نہيں ا?تي ، اگر گلستان کا ايک حصہ گندہ يا گرم ہو تو ھرگز بلبلوں کي سہاني صدائيں سننے کو نہيں ملتي ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير قران کريم کے اس نامور استاد نے ياد دہاني: ا?يت « يدعون إلي النار» کي تفسير ميں کہا گيا ہے «يدعون إلي المعاصي اللتي يوجب ارتکابها دخول النار» يعني انہيں گناہوں کي جانب دعوت ديتے ہيں جو جہنم ميں داخل ہونے کا سبب ہے ?

آيت الله جوادي آملي نے يہ کہتے ہوئے کہ جھنم کي لکڑياں جنگلوں سے نہيں ائيں گي بلکہ ظالمين خود جھنم ميں لکڑيوں کا کام کريں گے کہا: ايت کا يہ ظاھري ترجمہ صحيح ہے جيسا کہ اگے پڑھيں گے کہ گناہوں کا باطن ا?گ ہے ، اورا?گ « نارالله الموقدة تطلع علي الافئدة » ہے ، انسانوں کے اندر موجود ا?گ انہيں جلا کر راکھ کردے گي قرا?ن اسي حقيقت کا بيان گر ہے، جيسا کہ فرمايا « وَأَمَّا الْقَاسِطُونَ فَکَانُوا لِجَهَنَّمَ حَطَبًا » قران نے ائمہ کفر کو « وقودالنار » يعني « ما توقد به النار » جھنم کا ايندھن بتايا ہے اور قران نے فرمايا « فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِي وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ » يعني جب ا?گ لوگوں کو جلانے کے لئے تيار ہوجائے گي تو گناہگاروں کي شکل و شمائل ميں موجود لکڑيوں کو اس ميں ڈال ديا جائے گا « ثُمَّ فِي النَّارِ يُسْجَرُونَ » ?

حوزہ علميہ قم ميں درس تفسير قران کريم کے اس نامور استاد نے جھنم کے سلسلے ميں کہا: جھنم دنيا ميں نہيں ہے مگر اپني جگہ اس وقت بھي موجود ہے، اس وقت جنت و جھنم دونوں ہي موجود ہيں ، جيسا کہ امام رضا عليه السلام نے فرمايا : جو کہے کہ جنت اور جھنم کي خلقت نہيں ہوئي ہے تو وہ مجھ ميں سے نہيں ہے اور جيسا کہ حضرت اميرالمومنين علي عليه السلام نے خطبہ ھمام ميں کہا: «هم و الجنة کمن قد رآها» و «هم و النار کمن قد رآها» اور يا دوسرے مقام پر حضرت(ع) نے کہا: « لو کشف الغطا ما ازددت يقينا » يعني جنت و جھنم موجود ہيں جسے کچھ با بصيرت لوگ ديکھتے بھي ہيں ?

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬