08 March 2014 - 15:04
News ID: 6507
فونت
۸ مارچ عالمی یوم نسواں کے موقع پر؛
رسا نیوز ایجنسی - خواتین انسانی معاشرے کا ایک لازمی اور قابل احترام کردار ہیں۔ کاروبار معاشرت میں مرد اور عورت ایک گاڑی کے دو پہیے ہیں۔ کتنے آسان پیرائے میں یہ بات سمجھا دی گئی کہ جس سے نہ کسی کی اہمیت کم ہوئی اور نہ ہی ضرورت سے زائد بڑھ گئی ۔
يوم خواتين پر قم مين رضاکار خواتين سپاهي کا جلوس


ڈاکٹر ساجد خاکوانی


قرآن مجید نے اکثر انبیاء علیھم السلام کے ساتھ ان کے رشتوں کا بھی ذکر کیا ہے اور ان میں سے کچھ مردانہ رشتوں کے بارے میں تو بتایا گیا کہ وہ اپنے غلط عقائد  کے باعث ان پرﷲ تعالی کی ناراضگی نازل ہوئی لیکن نبیوں سے منسوب کوئی نسوانی رشتہ ایسا نہیں ملتا جواﷲ تعالی کے غضب کا شکار ہوا ہو، بلکہ ایک برگزیدہ نبی کو گود لینے کے عوض فرعون جیسے دشمن خدا کی بیوی بھی دولت ایمان سے مالا مال کر دی گئی ۔


حج جیسی عالی شان عبادت جو زندگی بھر میں صرف ایک دفعہ فرض کی گئی ہے، صرف خواتین کے لیے اسکے مناسک مسجد حرام جیسی عبادت گاہ کی بجائے میدانوں میں رکھے گئے تاکہ اگر ایک طویل سفر کے بعد خواتین حجاز مقدس پہنچیں اور انکے ایام مخصوصہ شروع ہو جائیں تو وہ حج سے محروم نہ رہیں۔ اگر یہی مناسک حج مسجد میں رکھے جاتے تو ظاہر میں ان ایام میں خواتین مسجد میں داخل نہ ہوسکتیں اور طویل سفر اور خطیر اخراجات کے باوجود حج سے محروم رہ جاتیں۔ ﷲ تعالی کا عورتوں پر یہ خاص احسان ہے کہ انہیں کی خاطر حج جیسی عبادت میدانوں میں اداکرنے کا حکم دیا۔


جنت جیسا مقام اس کائنات میں نہیں ہے جسے ﷲ تعالی نے تمام نعمتوں کا مرکز بنایاہے، حضرت آدم علیہ السلام کو جب تخلیق کے بعد جنت میں رہائش عطا کی گئی تو عورت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ جنت جیسے مقام پر بھی حضرت آدم تنہائی کا شکار ہوئے اور بغیر عورت کے ان کا دل نہ لگا۔ بائبل نے واضع طور پر بیان کیا کہ عورت کے باعث جنت سے آدم و حوا کا اخراج ہوا لیکن قرآن مجید نے جو صیغہ استعمال کیا ہے اس میں دونوں کا ذکر ہے کہ شیطان نے دونوں کو بہکایا۔ سورۃ بقرہ میں اس واقعہ کی تفصیلات موجود ہیں جہاں قرآن نے عورت کا دفاع کیا اور حضرت آدم کو بھی اس سہو و نسیان میں برابر کا شریک کیا۔


عمرہ سارا سال جاری رہتا ہے اور کم و بیش ساڑھے چار ہزار سالوں سے جاری ہے۔ اس زمین کے سینے پر اور اس نیلی چھت کے نیچے اپنی نوعیت کی واحد عبادت ہے جو اتنے طویل عرصے سے جاری ہے ۔ اس عمرہ کی عبادت میں دو ہی بڑے بڑے مناسک ہیں، طواف اورسعی بین الصفا و المروہ، ان میں سے سعی بین الصفا والمرہ  یعنی کم و بیش 50%عبادت ایک خاتون کی یاد میں کی جاتی ہے۔ ﷲ تعالی کو اس مامتا کا اپنے بیٹے کے لئے پانی کی تلاش میں یوں بے قرار ہوجانا اور دوپہاڑوں کے درمیان دوڑ پڑنا اس قدر پسند آیا کہ تا قیامت اسی طرح ہی لوگ بھاگیں گے تو انکاعمرہ قبول ہوگا۔


صفا مروہ کے درمیان ایک مقام نشیب کا تھا جہاں سے حضرت اسماعیل نظر نہ آتے تھے، وہاں بی بی پاک زیادہ تیز دوڑیں اور پھر جب بیٹا نظر آنے لگتا تو آہستہ ہوجاتیں، صدیوں سے اس نشیبی مقام کو نشان زد کر دیاگیا ہے جہاں حجاج اس مامتا کی یاد میں تیز دوڑتے ہیں اور پھر نسبتا اسی طرح آہستہ ہوجاتے ہیں جس طرح وہ مقدس خاتون آہستہ ہو گئی تھیں۔


ایک انسانی معاشرے میں کسی فرد کے کتنے ہی رشتے ہوتے ہیں جو نسبا اور سببا اس سے وابسطہ ہوتے ہیں ،ان رشتوں میں اتنی مٹھاس پوشیدہ ہوتی ہے کہ جب کسی کو کسی غیر کے ہاں اسی طرح کی آسودگی حاصل ہو تو وہ اسے بھی انہیں رشتوں میں سے کسی کانام دے دیتاہے۔ کوئی بزرگ بہت اچھا لگے تو اسے چچا کہ دیتا ہے کوئی خاتون بہت محبت کرے تو اسے خاکہ کہ کر پکارنے لگتا ہے وغیرہ۔


مذاہب میں بھی یہ سلسلہ یوں موجود ہے کہ عیسائیوں نے حضرت عیسی کو ﷲ تعالی کا بیٹا بنا لیا، اوراپنے مذہبی پروہتوں کو ’’فادریعنی باپ‘‘ اورجو خواتین اپنے آپ کومذہب کے نام پر وقف کردیں ان کو ’’سسٹریعنی بہن‘‘کہ کر پکارنے لگے۔ 


اس پس منظر میں خاتم النبیین کے ہاں سے جو رشتہ امت کو میسر آیا وہ بھی عالم نسوانیت سے ہی تعلق رکھتا ہے یعنی آپ نے اپنی بیویوں کو امت کی ماؤں کا درجہ دیا۔ اس سے خواتین کی اہمیت دو چند ہوجاتی ہے کیونکہ اور کوئی رشتہ نبی نے اپنے ہاں سے امت کو نہیں دیا۔


پورے اسلامی لٹریچر میں ﷲ تعالی کے لیے کوئی مثال موجود نہیں ہے، کہیں نہیں کہا گیا کہ ﷲ تعالی فلاں پہلوان سے زیادہ طاقتور ہے یا فلاں بادشاہ سے بڑا بادشاہ ہے یا فلاں دولت مند سے زیادہ بڑے خزانوں کا مالک ہے ۔ بس ایک مقام پر ﷲ تعالی کی رحمت کوایک انسانی رشتے سے بڑھا کر بیان کیا گیا ہے کہ ﷲ تعالی ’’ماں‘‘ سے ستر گنا زیادہ پیار کرتا ہے ۔ گویا ﷲ تعالی نے جو کسی کا محتاج نہیں ہے پھر بھی اپنی محبت انسانوں کے ذہنوں میں بٹھانے کے لیے ماں کا استعارہ استعمال کیا۔


ماں کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ حکم ملنے پر باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بیٹے کی گردن پر چھری چلا دی لیکن ماں نے جبریل سے کہا کہ جاؤ پہلے ﷲ تعالی پوچھ آؤکہ میرے بیٹے حضرت موسی علیہ السلام کو کچھ ہوگا تو نہیں؟؟ جبریل آسمانوں سے ہوکر واپس آیا اور کہا کہ ﷲ تعالی فرماتا ہے آپ اپنے بیٹے کو پانی میں بہا دیں اسے کچھ نہیں ہوگا۔ اگرچہ دونوں بیٹوں کو کچھ نہیں ہوا لیکن مامتاکا فرق تو سامنے آگیا کہ اﷲ تعالی کی تسلی کے باوجود پھر بھی بیٹی سے کہا کہ اس صندوق کے ساتھ ساتھ جاؤ اور میرے بیٹے کاخیال رکھو۔ اس ماں کے سینے میں دل بھی تو اسی ﷲ تعالی کا ہی رکھاہواتھا ۔


قرآن مجید سے اس بات کے واضع ثبوت ملتے ہیں کہ ﷲ تعالی نے خواتین کی طرف وحی کی جب جبریل نے حضرت ام موسی سے کہا کہ اپنے بیٹے کو پانی میں بہادیں اور جبریل نے ہی بی بی پاک مریم کو بیٹے کی خوشخبری دی۔ قرآن مجید نے سورۃ نور میں ’’مومنات الغافلات‘‘کا لفظ استعمال کیا ہے یعنی بھولی بھالی عورتیں لیکن اس طرح کے پیاربھرے الفاظ مردوں کے لیے کہیں استعمال نہیں کے۔ آپ  نے اپنی ایک حدیث میں ماں کے لیے تین درجے اور باپ کے لیے حقوق کا ایک درجہ ارشاد فرمایا۔ ایک بار جب ماں کے نافرمان کے لیے دعا کی خاطرآپ نے ہاتھ بلند کیے تو جبریل نے فوراَ آکر کہا کہ ﷲ تعالی کہتا ہے اپنے ہاتھ نیچے کرلیں جب تک اسکی ماں اسے معاف نہیں کرے گی میں اسے معاف نہیں کروں گا۔


اسلامی احکامات شریعت میں مردوں پر سے فرض کسی صورت ساقط نہیں ہوتے لیکن ایام مخصوصہ میں عورت کے لیے یہ رعایت موجود ہے۔ اسلام نے عورت پر احسان خاص کیا کہ معاش، جہاد،عدالت ، سیاست، کچہری، تھانہ اور دنیا کے وہ تمام جھنبیلے جن سے نسوانیت کا وقار مجروح ہوتا ہے ان سے اسے بری الذمہ قراردے دیا ہے۔


اور طب، تعلیم، ولادت و رضاعت، خانہ داری، خاندان اور مرد کی غیرموجودگی میں نگہداشت سمیت وہ تمام فرائض عورت کو سونپ دئے ہیں جو عورت کی فطرت کا حصہ ہیں یا اسکی فطرت کے قریب تر ہیں۔ عورت کو اتنا کچھ نوازنے کے بعد حجاب، نقاب، اختلاط مرد و زن سے پرہیز، چادر و چاردیواری اور شرم و حیا جیسی پابندیاں بھی اس پر لاگو کیں تاکہ عورت معاشرے کی آلودگیوں سے محفوظ و مامون ہو اپنے فرائض فطری اداکر سکے ۔


عورت کی عظمت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ سب سے پہلے اسلام لانے والی بھی خاتون حضرت خدیجہ سب سے پہلے شہید ہونے والی بھی خاتون حضرت سمیہ آپ  نے جس انسان کی گود میں سر رکھ کر داعی اجل کو لبیک کہا وہ بھی خاتون ۔حضرت فاطمہ ، آپ کی سب سے پہلی تجارتی حصہ دار بھی ایک خاتون حضرت خدیجہ اورآپ  کو سب سے زیادہ عزیز اور پیاری بھی ایک خاتون حضرت فاطمہ۔


آپ نے بیٹیوں کی پیدائش پر نہ صرف یہ کہ جنت کی بشارت دی بلکہ اچھی طرح پرورش کرنے والے کو جنت میں اپنا پڑوسی ہونے کا مژدہ سنایا۔ محسن نسوانیت نے بیٹی کو ﷲ تعالی رحمت قراردیا، جس مسلمان کے ہاں بیٹی جنم لیتی اس کے ہاں مبارک باد کے خود تشریف لے جاتے تھی،اور بیٹیاں ہی تھیں جنہیں سب سے پہلے اسلام نے زندہ درگور ہونے سے بچایا۔ روزمحشر بھی ﷲ تعالی لڑکی سے ہی پوچھے گا کہ آخر تجھے کس جرم میں زندہ درگورکیا گیا ۔


عورت کو جہیز کے پیمانے میں تولنا یا اسے شوہر کی چتا کے ساتھ ستی کردینا، عورت کو کمانے کی مشین بنا لینا یا اسے حوس نفس کی تسکین کا ذریعہ سمجھنا، اسکی مسکراہٹوں کوکاروباری مقاصد کے لیے استعمال کرنا یا اسے مذہب کے نام پر بنیادی انسانی حقوق سے ہی محروم کردینا ، یا اسے گھر سے نکال کر محفل کی زینت بنانا یا اسے پازیپ پہنا کراپنی آنکھوں کی ٹھنڈک کا اہتمام کرنا یا اسے پردہ سکرین پرلاکر اسکی نسوانیت کی توہین کرنا یا اسے سڑکوں پر اور سیاست میں گھسیٹ کرایوان ہائے اقتدارسمیت اسکی صلاحیتوں کو اسکی فطرت کے خلاف استعمال کرنا گویاعورتوں کا ، خواتین کا، صنف نازک کا اور نوخیزو ناتواں بچیوں کا بدترین استحصال کرنے کے مترادف ہے۔ ایسے سیکولرلوگ قانون کے نہیں بلکہ انسانی تاریخ کے اور آنے والی نسلوں کے بدترین دشمن اور اپنے مناصب کے بدترین خائن اور عالم نسوانیت کے حقیقی مجرم ہیں جو حقوق نسواں کے نام پر استحصال نسواں کرتے چلے جارہے ہیں ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬