29 July 2009 - 17:19
News ID: 69
فونت
لڑائی ، جھگڑا ، فتنہ و فساد کے زمانے میں بہت سے لوگ کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں.
حق نما داستان


 لڑائی ، جھگڑا ، فتنہ و فساد کے زمانے میں بہت سے لوگ کشمکش کا شکار ہو جاتے ہیں ان کے ذہن میں سب سے پہلا سوال جو اٹھتا ہے وہ یہ کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ؟ یہ سوال صرف ہمارے ہی زمانے سے منحصر نہیں ہے بلکہ گذشتہ زمانے میں بھی یہی ہو تا رہا ہے ۔

پیغمبر اسلام کے زمانے میں لوگ بہت ہی کم شبہہ کا شکار ہوتے تھے اور حق و باطل کو آسانی کے ساتھ پہچان لیتے تھے لیکن پیغمبر اسلام کی رحلت کے بعد منافقوں کا کھل کر سامنے آجانے سے بہت سے لوگ شبہہ کا شکار ہو گئے چونکہ باطل نے حق کا لباس پہن لیا تھا اور بہت سے لوگوں کے پاس اپنی کوئی تحیلیل و پہچان کا معیار نہیں تھا اور اسلام کو اشخاص کے ذریعہ سے پہچانتے تھے ایسے ہی لوگ شبہ کا شکار ہوئے اور کبھی عزت کے راستے کو اختیار کیا اور صوفیانہ زندگی بسر کرنے لگے ۔

جنگ جمل میں بھی ایک شخص جو امیر المؤمنین کا طرفدار تھا لیکن طلحہ و زبیر و عائشہ کو مخالف گروہ میں دیکھا چونکہ یہ جانتا تھا کہ یہ لوگ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے یار و خاندان کے لوگ ہیں لہذا یہ سمجھنے لگا کہ ان لوگوں کا مطالبہ حق ہے اور ان کا اعتراض صحیح ہے یہ وہ موقع تھا جب وہ اپنی دلی کیفیت پر قابو نہ رکھ سکا اور امیر المؤمنین سے بیان کر ڈالی ۔ جناب امیر المؤمنین علیہ السلام نے اس کے جواب میں فرمایا : حق و باطل لوگوں و رشتہ داروں سے نہیں پہچانے جاتے بلکہ حق کو حق کی پیروی کرنے والوں سے پہچانو اور باطل کو اس کے پرہیز کرنے والوں سے ( امامی طوسی ، ص ۱۳۴ )  دوسری کتابوں میں یہ بھی آیا ہے کہ تم نے حق کو پہچانا ہی نہیں ہے تاکہ اس کے اہل کو پہچان سکو اور نہ باطل کو پہچانا ہے تاکہ  باطل پرستوں کو پہچان سکو ۔ ( نہج البلاغہ حکمت ۲۶۲ )

 اہل باطل کی تمام تر کوشش یہ ہے کہ حق کو باطل سے ایسا ملا دیا جائے کہ کوئی بھی انسان حق کو پہچان ہی نہ سکے ۔ اسی وجہ سے معاشرہ کے با اثر مخصوص افراد کے اندر وہ قدرت ہونی چاہیے جس کے ذریعہ سے وہ حق و باطل کو الگ کر سکیں ۔ معاشرہ کے خاص افراد اپنی قدرت تجزیہ نگاری سے حق و باطل کو الگ الگ بیان کر سکیں۔ تاکہ لوگ حق کا لباس پہنے باطل پرستوں کی خواہشات کا شکار نہ ہونے پائیں۔

دوسری یہ بات کہ جو کہ قرآن مجید کا حکم ہے ( قل جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقاً ) اس حکم کے مطابق باطل ختم ہونے والا ہے باطل کا انجام نابودی ہے چاہے وہ حق کے لباس میں ظاہر ہو یا حق کو باطل میں ملاوٹ کرنے کے بعد ۔ حق جیسے ہی ظاہر ہوتا ہے باطل اپنا کھوٹا سکہ خود بخود ظاہر کر دے گا کہ ہم باطل ہیں ۔ باطل کی مثال اس سایہ کی طرح ہے جو سورج کے غائب ہونے پر تو لوگوں کو گمراہ کر سکتا ہے لیکن سورج کے نکلنے سے اس کے وجود تک سبھی کو معلوم ہو جاتا ہے کہ اصلی کون ہے اور سایہ کس کا ہے ۔

ایران کے دسویں صدارتی انتخابات میں بھی کچھ لوگوں کے لئے بات مبہم و مشتبہ ہو گئی تھی ۔ بعض لوگ اصلح ، امیدواروں کو پہچانے میں پس و پیش میں تھے ۔ ایک طرف انتخاباتی مہم اور دوسری طرف سے انقلاب اسلامی ایران کے دشمنوں کی یلغار نے ذہنی طور پر لوگوں پر اثر ڈالا تھا انقلاب اسلامی ایران کے دشمنوں کی پوری کوشش یہ تھی کہ انقلاب اسلامی کے انتخابات کو بہت ہی ہلکا دکھایا جائے تاکہ لوگ کم سے کم شریک ہوں اور بین الاقوامی پیمانے پر سب سے یہ کہا جا سکے کہ ایران میں ڈکٹیٹر شپ حاوی ہے ۔ یہ وہ وجوہ تھیں جن کی وجہ سے کچھ لوگ توہمات کا شکار ہو گئے تھے ۔

 اب جب کہ حیرت و شکوک کے سیاہ بادل چھٹ گئے اور کچھ دن کے بعد لوگوں کے سامنے حقیقت ظاہر ہوئی ، حق پرست و باطل پرست گروہ الگ کر دئے گئے اور حقیقی قانون کے طرفدار اور مخالفوں کے چہرے کھل کر سامنے آ  گئے ۔
 
وہ لوگ جو عوام کے حقوق کا دم بھرتے نظر آ رہے تھے اور اپنے آپ کو عوام کا ہمدرد ظاہر کر رہے تھے آج انھیں نے لوگوں کے قتل و غارت کا زمینہ فراہم کیا اور بے گناہوں کا خون بہایا ۔ وہ جو کل تک اپنے آپ کو امام خمینی کا پیرو ظاہر کر رہے تھے آج وہی لوگ قانون کی رعایت کرنے میں اور قانون کے فصل الخطاب ہونے کے مقابلے کھڑے ہو گئے ہیں ۔

اسی وجہ سے شاید امیر المؤمنین علیہ السلام نے فرمایا : حق و باطل کو افراد و اشخاص سے مت پہچانو بلکہ پہلے حق کو پہچان لو پھر حق کے پیرو کار خود بخود سمجھ میں آ جائیں گے ۔ " اعرف الحق تعرف اہلہ " ( مجمع البیان ج ۱ ص ۲۱۱ ) حق کو پہچانو اہل حق و صاحب حق خود بخود پہچان لیا جائے گا ۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬