20 August 2014 - 16:35
News ID: 7163
فونت
رسا نیوز ایجنسی - ایک مستند امریکی جریدے (oreign Policy Journal) کے مطابق امریکہ کے سولہ خفیہ اداروں نے بیاسی صفحات پر مشتمل ایک رپورٹ حکومت کو پیش کی ہے جس کاعنوان ’’بعدازاسرائیل ، مشرق وسطی کی تیاری(reparing for a Post Israel Middle East )‘‘ہے ۔
غاصب اسرائيل


ڈاکٹر ساجد خاکوانی
 

ان خفیہ اداروں میں بدنام زمانہ CIA،EA، SA اور BI بھی شامل ہیں۔ اس رپورٹ کا لب لباب یہ ہے کہ اسرائیل کی  صہیونی ریاست اب امریکی سلامتی اور امریکی معیشیت کے لیے دنیا میں سب سے بڑا خطرہ بن چکی ہے۔ اس رپورٹ پر امریکہ کے اعلی ترین جمہوری و انتظامی و دفاعی ادارے غوروخوض کررہے ہیں۔ رپورٹ میں مشرق وسطی کی علاقائی سیاسی اور معاشی حالات کا تفصیلی تجزیہ کرچکنے کے بعد مذکورہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں۔


اسرائیل سے بڑھ کراس تاریخی حقیقت کو اورکون جانتا ہوگا کہ ہر فرعون اپنے موسی کی پرورش خود کرتاہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے مسلسل امریکی سلامتی کے خلاف ایسے اقدامات کیے جارہے ہیں جن پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیاجاسکتا۔ رپورٹ مرتب کرنے والے خفیہ اداروں نے پوری کرہ ارض پر موجود کل اقوا م عالم کے حوالے سے لکھا ہے کہ پوری دنیا اسرائیل کی ریاست کو دہشت گرداور خونی و قاتل ریاست سمجھتی ہے۔ خفیہ اداروں کی اس رپورٹ میں یہ بھی کہاگیا ہے کہ تمام ممالک کے لوگ اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل نے فلسطینیوں کی سرزمین پر ناجائز اور غاصبانہ قبضہ جما رکھا ہے اوراسرائیل کواس کا کوئی اخلاقی و قانونی جواز حاصل نہیں ہے۔


رپورٹ میں امریکی قیادت کو متنبہ کیاگیا ہے کہ ان حالات میں اسرائیل کے لیے امریکی فوجی و معاشی وسیاسی امداد اور اس کے مقابلے میں اسرائیلی جنگیں اوراسرائیلی ناجائزتصرفاتی اقدامات ،امریکی مفادات سے شدید ٹکراؤرکھتے ہیں۔ رپورٹ میں مثال کے طورپر اسرائیل روزبروز بڑھتے ہوئے ایٹمی اسلحے کی تعداد اورفلسطینی شہری آبادی پر بے پناہ بمباری کے ذریعے انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی کو بھی پیش کیاگیاہے۔ المختصریہ کہ سولہ امریکی خفیہ اداروں کی متفقہ رپورٹ میں اسرائیل کو’’بدمعاش اور مجرم ریاست(ogue, criminal state)‘‘ثابت کردیاگیا ہے۔


امریکہ میں اسرائیلی اورصہیونی گروہ کس قدر منظم، متحرک اورموثرہے، اس کا اندازہ توکیاجاسکتاہے لیکن اس کا ادراک کرنا قطعاَ بھی ناممکن ہے۔ امریکہ کا جوچہرہ دنیا کے سامنے ہے وہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ (SA) ہے جبکہ یہ دکھانے کے دانت ہیں اور اصل چبانے کے دانت ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘ہے اور یہ امریکہ کی اصل حقیقت ہے جو دنیاپر حکمران ہے۔ ’’کارپوریٹ امریکہ‘‘دنیاکے سامنے ’’یونائٹڈاسٹیٹس آف امریکہ‘‘کو تگنی کاناچ نچاتا ہے ۔


اس ’’کارپوریٹ امریکہ ‘‘کی رگ جاں پنجہ یہود میں ہے۔ اس حقیقت کو مزکورہ رپورٹ میں بھی جگہ دی گئی ہے کہ ساٹھ سے زائد تنظیمیں ہیں جو امریکہ جیسی سرزمین پر خود امریکہ کے خلاف اسرائیل کے لیے کام کررہی ہیں اور ان تنظیموں نے ساڑھے سات ہزار امریکی اعلی عہدیداران اور افسران کی خدمات کو خرید رکھاہے۔ چنانچہ اس خفیہ رپورٹ کی نقول فوراَ سے پیشتر اسرائیل میں پہنچا دی گئیں اور اس کام میں امریکہ کے اندر صہیونی لابی کے متحرک ترین افراد امریکی سینیٹرزچارلس اسکومر(harles Schumer)اورجان ایم سی کین(ohn McCain)سرفہرست ہیں ، ان کے بعد امریکی کانگریس کے ارکان ایرک کانٹر(ric Cantor)اورخاتون رکن علینا روزلیتھنن (leana Ros-Lehtinen) بھی اس ملک دشمن سازش میں ملوث ہیں۔


اسرائیل میں اس رپورٹ کے پہنچنے پر متوقع ردعمل کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے ظاہر ہے سچ تو کڑواہی ہوتاہے۔ چنانچہ اسرائیلی وزیراعظم بن یامین نیتن یاہو اس رپورٹ پر بہت سیخ پا ہوئے اور انہوں نے کہا امریکہ میں صہیونی ایجنٹ اس رپورٹ کے مرتب کرنے والوں سے شدید انتقام لیں گے۔ انہوں نے خاص طورپر امریکی افواج کے سربراہ جنرل مارٹن ڈمپیسی(artin Dempsey)اورصدر بارک حسین اوباماکواپنی شدید ترین تنقید کا نشانہ بنایا۔اس پراسرائیلی پارلیمان کے سربراہ نے کہا کہ آخرصدر اوباما ہماری مخالفت کیسے کر سکتا ہے جب کہ ہم یہودیوں نے اس کے لیے سب کچھ کیا تھا ۔


یہودیوں کی دوہزارسالہ تاریخ ہجرت سے ہولوکاسٹ تک اورسیکولرازم کی ریت سے چنی گئی کی ناتمام بنیادوں پر قیام اسرائیل سے مستقبل قریب میں سقوط اسرائیل تک کے حالات کتاب زندہ میں اس آیت کی اظہرمن الشمس تفسیر ہیں کہ ’’  ضُرِبَت عَلَیہِمُ الذِّلَّۃُ أَینَ مَا ثُقِفُوا اِلاَّ بِحَبلٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ حَبلٍ مِّنَ النَّاسِ وَ بَآئُ و بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ ضُرِبَت عَلَیہِمُ المَسکَنَۃُ ذٰلِکَ بِأَنَّہُم کَانُوا یَکفُرُونَ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَ یَقتُلُونَ الاَنبِیَآئَ بِغَیرِ حَقٍّ ذٰلِکَ بَمَا عَصَوا وَّ کَانَوا یَعتَدُونَ ۔ ترجمہ : یہ (یہود) جہاں کہیں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی ، کہیں ﷲ تعالی کے ذمہ یا انسانوں کے ذمے پناہ مل گئی تویہ اور بات ہے۔ یہ ﷲ تعالی کے غضب میں گھر چکے ہیں ان پر محتاجی و مغلوبی مسلط کر دی گئی ہے اور یہ سب کچھ صرف اس وجہ سے ہوا کہ یہ ﷲ تعالی کی آیات سے کفرکرتے رہے اور انہوں نے پیغمبروں کو ناحق قتل کیا یہ ان کی نافرمانیوں اور زیادتیوں کا انجام ہے ۔ (سورۃ آل عمران، آیت12)۔


آج یہ نوشتہ دیوار ہے کہ سلطنت  اسرائیل کی عمارت منہدم ہونے کو ہے۔ ’’ہم تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘ کے مصداق جہاں اہل نظر امریکہ کی کشتی سے چھلانگیں لگاتے ہوئے چوہوں کو دیکھ رہے ہیں وہاں اسرائیل کا قائم رہنا چہ معنی دارد؟؟؟ امریکہ کی کئی ریاستوں میں علیحدگی کی تحریکیں چل رہی ہیں اور امریکی معیشیت اپنی تاریخ کے بدترین بحران سے دوچار ہے ان حالات میں وہ اسرائیل کو کیونکرسہارادے سکتا ہے؟؟؟۔


مشرق وسطی کے نقشے میں اسرائیل کی ریاست کھجورکی ایک گٹھلی کی مانند ہے جس کی چوڑائی بعض مقامات پراکیلے ہندسوں جتنے کلومیٹرکے برابر رہ جاتی ہے۔ قیام اسرائیل کے بعد سے سیکولرازم نے فلسطین کے یہاں ڈیرے ڈالے رکھے اور سیکولراورکیمونسٹ نظریات رکھنے والی قیادت نے فلسطینی مسلمانوں کے بندبھاؤلگائے اور انہیں اپنی ذاتی مفادات کی خاطر عالمی منڈیوں میں ساہوکاروں کے ہاتھ فروخت کیا اوردولت ورشہرت کی بلندیوں کو چھوتے رہے ۔ لیکن آفرین اس قوم پر جس نے بہت جلد اپنے رب کو اورخود اپنی حقیقت کو پہچان لیا اور دیندار، جرات مند اور صالح قیادت کاانتخاب کیا۔ اس انتخاب کے بعد سے اسرائیل کے دن گنے جانے لگے اوراب نوبت یہاں تک پہنچی ہے کہ اسرائیل کے علاقے کے علاقے نفوس انسانی سے خالی ہوتے جارہے ہیں ۔ وہ اسرائیل جو ایک مدت پہلے تک اپنے شہریوں کے لیے نئی بستیاں بسانے کے لیے فلسطینیوں کی زمینوں پر غاصبانہ فکر میں تھا آج قانون سازی کے ذریعے اپنے شہریوں کو نقل مکانی سے روکنے پر مجبور ہے۔


اسرائیل اپنے قیام کے بعد سے مسلسل سکڑتاچلا جارہا ہے، تاریخ کے تھپیڑے فلسطینی مسلمانوں کے جذبہ قتال کی شکل میں اسرائیل کی ریاست کو ہر طرف سے کاٹ کاٹ فلسطین میں دریا برد کرتے رہے اور آج کا اسرائیل 1948ء کے اسرائیل کے سامنے کٹا پھٹا اورپانچ چھ گناچھوٹا اسرائیل ہے۔ کہانی کا یہ تسلسل بہت جلد اسرائیل کو نابود کر دے گا ۔


اسرائیل کا قیام دورغلامی کا نقطہ عروج (کلائیمکس) تھا، خلافت عثمانیہ کے خاتمے سے شرپسندوں کے حوصلے اس تک بڑھے کہ امت مسلمہ کے سینے پریہ ناسور مسلط ہوا۔ دورغلامی اگر چہ بیت چکا اور امت مسلمہ نے آزادی کا سانس لیا لیکن امت کاحکمران طبقہ ابھی بھی اپنی بادشاہتوں اورجرنیلیوں کے لیے سامراجی طاغوت کا مرہون منت ہے۔ مغربی استعماراور ظالمانہ وسرمایادارانہ نظام کی بدترین گرفت نے ابھی بھی امت کے ہاتھ ان بادشاہوں اورجرنیلوںکی ہتھکڑیوں سے باندھ رکھے ہیں،لیکن آخر کب تک؟؟؟۔


اسرائیل جن ممالک کے حکمرانوں کی آشیرواد سے فلسطینی مسلمانوں پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑتا ہے ، آج ان ممالک کے حکمران اپناعرصہ اقتدارتنگ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ مصر میں تو لولی لنگڑی اوراندھی بہری جمہوریت کے باوجود راسخ العقیدہ مسلمان برسراقتدارآگئے تھی، شاید نہیں یقیناَ انہیں کے ہاتھوں چونکہ اسرائیل کے تابوت پر آخری کیل پیوست ہونی تھی اس لیے شکست خوردہ افواج کے ذہنی پسماندہ اوریورپی غلامی کے مارے ہوئے اخلاق باختہ سیکولرجرنیل اس ملک پر مسلط کر دیے گئے ۔ ترکی نے ایک طویل جدوجہد کے بعد سیکولرجرنیلوں سے نجات حاصل کر لی ہے، اسرائیل کے بالکل جوار میں تیزآگ کی بھٹی بھڑک چکی ہے اور مسلمانوں کو شیعہ اور سنی میں تقسیم کرنے والے اسرائیل کی سرحدوں پرشیعہ اور سنی مل کر اس فسطائی ریاست کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں مصروف قتال ہیں۔


مشرق وسطی سے ملحق افریقی علاقوں کا مسلمان بھی جاگ چکا ہے ، گویا ایک عرصے تک مایوسیوں کی فضاؤں کوباد صبا کے ٹھنڈے ٹھنڈے جھوکوں نے معطر کر دیا ہے۔ مشرق و مغرب میں امریکہ اور نیٹو کے پاؤں اکھڑتے ہی اسرائیل ہوا میں بھک کیے اڑ جائے گا اور یہ وقت کوئی بہت زیادہ دور نہیں ہے اور پھر مسلمانوں کے غدار حکمرانوں کے ساتھ وہی سلوک ہوگا جو غزوہ احزاب کے بعد بنی قریظہ کا ہوا تھا۔ امت مسلمہ ایک بارپھر متحد ہوگی بقول امام خمینی(رہ) کے اسلامی ملکوں کی سرحدیں شیطان کی لگائی گئی حد بندیاں ہیں ، امت مسلمہ کے موجودہ حکمران ان سرحدوں کے ساتھ ماضی کی کتب میں عبرت کانشان بن جائیں گے اورغزہ کے مسلمانوں پر جب پوری دنیارو رہی ہے سوائے مسلمان بادشاہوں اورجرنیلوں کے جنہیں موت جیسی خاموشی نے گھیر لیا ہے ، جب ان حکمرانوں پرموت کا سکوت طاری ہوگا تو کل امت کے چہرے کھل اٹھیں گے، فَاعتَبِرُوا یٰٓاُولِی الاَبصَارِ  ۔ ترجمہ: پس عبرت حاصل کرو اے نظر والو » ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬