21 August 2014 - 17:52
News ID: 7166
فونت
رسا نیوزایجنسی - امام جعفر صادق (ع) کی شخصیت کا ایک گوشہ اپ کی علمی سرگرمیاں اور فعالیتیں ہیں ، حضرت نے اپنے زمانہ حیات میں بنی عباس اور بنی امیہ کی آپسی جنگ کے سبب سیاسی حالات سے مکمل استفادہ کرتے ہوئے علم کے مختلف میدانوں میں، عقلی اور نقلی علوم میں چار ھزار سے زیادہ شاگرد تربیت کئے ۔
امام جعفر صادق (ع)


سید اشھد حسین نقوی:


انسانوں کی ذاتی ضرورت میں سے ایک، زندگی میں آیڈیل کا ہونا ہے، یہ صفت انسان کی ترقی و تنزلی اور نابودی میں بہت زیادہ اثر انداز ہے، اسی بناء پرھرکوئی اپنے لئے مناسب آیڈیل کی تلاش میں بیحد کوششیں کرتا ہے ۔


قرآن کریم، نے پیغمبر اکرم ـ صلّی الله علیه و آله وسلم ـ کو «اُسوه حسنه» یعنی آپ کو انسانی حیات کا بہترین آیڈیل قرار دیا، آپ کے بعد معصوم ائمہ علیهم السّلام میں سے ھر ایک، انسانوں کے لئے بہترین آیڈیل ہیں، اخلاقیات و معرفت کے لعل و گوھر کی تلاش میں نکلے افراد پر ضروری ہے کہ ان بزرگواروں کی شخصیت کو بہتر سے بہتر پہچانیں، اور ھم بھی اسی مقصد سے یہاں پر حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی زندگی کے بعض اھم گوشے کی جانب اشارہ کررہے ہیں ۔


صادق آل محمد ـ صلّی الله علیه و آله وسلم ـ اس زمانہ میں زندگی بسر کی جس عصر میں علم کا دور و دورہ تھا ، مختلف علوم ؛ تفسیر، حدیث، ‌فقہ،‌ کلام، طب، فلسفہ، نجوم وغیرہ کا جزیرہ عرب پر بول بالا تھا، اس کے علاوہ عصر امام ششم امام صادق ـ علیه السّلام ـ کو نظریات کے ٹکراو اور مختلف مذاھب و فرقوں کے پیدا ہونے کا زمانہ بھی کہا جاتا ہے ۔ اس زمانہ میں معتزلہ، جبریہ، مُرجئہ، غُلات، زنادقہ جیسے فرقے وجود میں آئے، اور ھر ایک اپنے نظریات نشر کرنے میں مصروف تھے ، یہ مسئلہ اسلامی معاشرے کو حقیقی اسلام تک رسائی میں آڑے بن سکتا تھا اور لوگوں کی گمراہی کا سبب ہوسکتا تھا، مگر آفتاب علم حضرت امام جعفر صادق ـ علیه السّلام ـ کچھ اس طرح دیگر نظریات پر غالب آیا کہ دوست و دشمن سب کے سب اس نور کی تمازت میں دب کر اور انگشت بدنداں رہ گئے، حضرت نے علم و ثقافت اور تبلیغ کے میدان میں بیحد کوششیں کیں، جس کے بعض نمونہ ذکر کئے جارہے ہیں ۔


مایہ ناز شاگردوں کی تربیت


شیعوں کے چھٹے امام حضرت جعفر صادق ـ علیه السّلام ـ نے ملے ہوئے وقت سے بخوبی استفادہ کرتے ہوئے اسلامی معاشرے کی شدید ضرورتوں کے پیش نظر اپنے والد بزرگوار کی علمی تحریک کی علمبرادری کی، مختلف موضوعات پر مشتمل ایک عظیم درسگاہ قائم کی اورهشام ابن حکم، محمد ابن مسلم، ابان ابن تغلب، هشام ابن سالم جیسے شاگرد تربیت کئے جن کی تعداد چھار ھزار کے قریب بتائی جاتی ہے ۔


ان میں سے بعض افراد نے شگردوں کی تربیت کے علاوہ بہت سارے دیگر علمی آثار کی تخلیق کی ہے، جیسے هشام ابن حکم نے اکتیس جلدوں پر مشتمل کتاب تحریر کی، جابربن حیان نے بھی دوسو سے زیادہ جلدوں پر مشتمل کتاب لکھی جن کی کتابیں قرن وسطی میں یوروپ کی مختلف زبانوں میں ترجمہ کی گئیں ۔
علم معرفت علم کی حقیقت اور دیگر علوم علم کا پیرایا


مکتب سوشیالوجی کے برخلاف جو علم کو بے حیثیت دیکھانے کی کوشش میں ہے اور خالی الذھن خلقت کی تفسیر کرنا چاھتے ہیں حضرت امام جعفر صادق ـ علیه السّلام ـ اسلام کو علمی اقدار کا حامی جانتے ہیں ۔


اسلامی متون میں کلمہ علم و معرفت کے استعمال کے سلسلہ میں تحقیق کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ علم اسلام میں کلی طور سے دو مفھوم کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔ ان میں سے ایک کو علم کی حقیقت اور اصل جانتے ہیں اور دوسرے کو ظاھر اور اس کا پیرایا سمجھتے ہیں ۔


اسلام کے لحاظ سے علم کی ایک حقیقت اور اس کا جوھر ہے و نیز اس کا ظاھر و ڈھانچہ بھی ہے، معروف اور رائج علوم چاھے وہ اسلامی ہوں یا غیر اسلامی ، علم کا ڈھانچہ شمار کئے جاتے ہیں، مگر حقیقت و معرفتِ علم کچھ اور ہی ہے ۔


جہاں کہا جاتا ہے کہ : «خدا ، فرشتے اور دانشور گواہی دیتے ہیں کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے » یا « صاحبان علم آگاہ ہیں کہ جو کچھ بھی ان کے پروردگار کی جانب سے ان پر نازل ہوا ہے حق ہے » یا « خدا کے بندوں میں سے فقط صاحبان علم اُس سے ڈرتے ہیں » حقیقت علم کی گفتگو ہے ۔


اور جہاں کہا جاتا ہے کہ : « خدا نے اسے جان بوجھ کر گمراہ کردیا » یا « جب اُنہیں علم مل گیا تو اُنہوں نے گمراہی کا راستہ اختیار کرلیا » یا « جن لوگوں کو آسمانی کتاب دی گئی ان لوگوں نے آپس میں اختلاف نہیں کیا مگر علم حاصل کرنے کے بعد » یہ علم کا ظاھر ہے۔


یہاں پرسوال یہ اُٹھاتا ہے کہ علم کی حقیقت کیا ہے ۔ اور کس طرح علم کی حقیقت کو اس کے ظاھر سے الگ کیا جاسکتا ہے ۔ اور کس طرح اسے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔


علم کی حقیقت وہ نور ہے جس کی روشنی میں انسان دنیا کی حقیقت کو سمجھ سکتا ہے اور دنیا میں اپنے مقام کو پا سکتا ہے، نورعلم کے مراتب ہیں جس کا بالاترین مرتبہ نہ فقط انسانوں کو ان کے راہ کمال سے آشنا کرسکتا ہے بلکہ اُنہیں اِس راستہ پر چلاکر انسانیت کے اعلی مدارج تک پہونچا سکتا ہے ۔


قران کریم نے واضح طور سے اس نور کے سلسلے میں کہا: « جو مردہ دل تھے اسے زندہ کیا اور اُن کے لئے نور کی کرنیں فراھم کیں تاکہ اس کی روشنی میں لوگوں کے درمیان چل سکیں ، گویا اس کے مانند ہے جو تاریکی میں پھنس گیا ہو اور اس تاریکی سے نکلنے کی توانائی نہ رکھتا ہو » ۔


امام على علیه‏ السلام نے اس نور کے سلسلے میں اور اس نور کی اھم خاصیت، انسانوں کو اعلی ترین مدارج تک پہونچانا بتاتے ہوئے کہا: « عقل زندہ ہے اور نفس مرچکا ہے ، یہاں تک اس کا بڑا پن چھوٹا اور اس کا غیض و غضب ختم ہوچکا ہے ، نور کی شعاعیں نورانیت پھیلا رہی ہیں جس سے شاہ راہ توحید کو دیکھ جاسکتا ہے اور اس کے سایہ میں قدم بڑھا سکتا ہے ، اس عالم میں اس کے لئے ایک بعد دوسرا دروازہ کھلتا جاتا ہے اور وہ جاودانگی کی جانب قدم بڑھاتا ہے ، کیوں کہ اس نے اپنے دل کا استعمال کیا ہے اور اپنے پروردگار کو خوشنود کیا ہے » ۔


وہ آیتیں اور احادیث جو نورانیت کو انسانوں کے صحیح راستہ پر چلنے اور منزل کمال کی جانب قدم اٹھانے کا سبب جانتی ہیں، یا علم کو نور سے تعبیر کرتی ہیں ، یا علم کو خدا پر ایمان اور انبیاء الھی کی رسالت کا لازمہ جانتی ہیں اور نیک صفات اور شایستہ اعمال کا سبب سمجھتی ہیں در حقیقت جوھر علم اور حقیقت علم کی تفسیر کرتی ہیں، یہ نور علم کا مغز اور دیگر تمام علوم اس کا ظاھر شمار کئے جانے کے سبب اس سے وابستہ ہیں ۔

 

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬