02 November 2014 - 00:38
News ID: 7436
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بھی، جس دور میں بھی، جس خطے میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہئے۔
امام حسين عليہ السلام فسٹيويل حجت الاسلام و المسلمين ساجد علي نقوي

 

تحریر: حجت الاسلام و المسلمین ساجد علی نقوی


تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی، جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بھی فساد کے خاتمے کی جدوجہد ہوئی اور جب بھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوں اور تمام تحریکوں نے حسین علیہ السلام اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔ تعلیمات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیرعادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے فرامین، کردار، سیرت، انداز عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکھیں۔


تاریخ کے صفحات پر سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا موقف اور نقطہ نگاہ آج بھی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ رقم ہے۔ چنانچہ جب حاکم مدینہ کی طرف سے یزید کی بیعت کے لئے دباؤ ڈالا گیا تو آپؑ نے فرمایا کہ مسلمانوں کا حکمران یزید جیسا شخص ہو تو ایسے اسلام پر سلام۔ بیعت سے انکار کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھ جیسا شخص یزید جیسے شخص کی بیعت نہیں کر سکتا۔ اس طرح امام عالی مقام علیہ السلام نے اپنا موقف دو ٹوک انداز میں بیان کر دیا اور حکومت، اس کے کردار اور پالیسیوں کو ٹھکرا کر غیر اسلامی اور غیر قانونی قرار دے دیا۔

اھداف:


امام علیہ السلام نے اپنے قیام کے اہداف و مقاصد واضح فرمائے چنانچہ اپنے بھائی محمد ابن حنفیہ کو ایک وصیت نامے میں امام عالی مقام علیہ السلام نے اس طرح ارشاد فرمایا، میرے اس قیام، میری جدوجہد کا اصل مقصد اور میری اس تحریک اور اقدام کا اصل ہدف صرف امت کی اصلاح ہے، میرا عزم امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ اس فصیح و بلیغ بیان میں آپؑ نے اپنے اہداف و مقاصد اور اسلام کے تحفظ اور دین کی بقاء کے لئے اپنے خدا اور اپنے نانا سید الرسل صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے ودیعت کی گئی ذمہ داریوں کا مکمل احاطہ فرما دیا ہے۔ اصلاح کو ہدف قرار دینا، بذات خود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ فساد موجود ہے، انتشار و افتراق برپا ہے اور بگاڑ ہویدا ہے۔ لہذا ان برائیوں کے خاتمے کے لئے اصلاح کی ضرورت درپیش ہے۔

 

یزیدی معاشرے کی منظر کشی :


آپؑ نے اپنے خطوط و خطبات میں قیام کی وجوہات واضح کرنے کے لئے کئی مرتبہ اس دور کی صورت حال، کیفیت، امت کی حالت زار اور حالات کی ابتری کی نقشہ کشی اور منظر کشی فرمائی۔ چنانچہ امام علیہ السلام جب مکہ تشریف لائے تو بصرہ کے قبائل کے سرداروں کو ایک خط لکھا، جس میں امام ؑ نے تحریر فرمایا کہ میں ابھی اپنے نمائندے کو اس خط کے ساتھ آپ کی طرف بھیج رہا ہوں، میں آپ کو کتاب خدا اور سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف دعوت دیتا ہوں، چونکہ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ سنت پیغمبر اکرم ؐ ختم ہو چکی ہے اور بدعتیں زندہ ہو گئی ہیں اگر آپ میری بات کو سنیں گے، تو میں آپ کو سیدھے راستے کی طرف ہدایت کروں گا۔ سفر عراق کے دوران مقام بیضہ پر لشکر حر کو خطبہ میں ارشاد فرمایا، اے لوگو! یہ (حکمران) اطاعت خدا کو ترک کر چکے ہیں اور شیطان کی پیروی کو اپنا نصب العین بنا چکے ہیں، یہ ظلم و فساد کو اسلامی معاشرے میں رواج دے رہے ہیں، خدا کے قوانین کو معطل کر رہے ہیں اور مال فے کو انہوں نے اپنے لئے مختص کر لیا ہے، خدا کے حلال و حرام اور اومر و نواہی کو بدل چکے ہیں، میں اس معاشرے کی ہدایت و رہبری کے لئے اور ان سے سب فتنوں، فسادکاریوں اور مفسدوں کے خلاف، کہ جنہوں نے میرے نانا کے دین کو تبدیل کر دیا ہے، قیام کرنے میں دوسروں سے زیادہ اہل ہوں۔

 

اس خطبے میں کی گئی منظر کشی سے واضح ہوتا ہے کہ یزیدی دور میں حکمران، احکام شریعت الٰہی اور سنت رسول ؐ میں دیئے گئے زندگی گزارنے کے طور طریقوں کو بھلا کر گمراہی اور گناہ کی زندگی اختیار کر چکے تھے۔ عدل اجتماعی سے گریز کرتے ہوئے مستقل طور پر بےعدلی اور ناانصافی کو اسلامی معاشرے کا حصہ بنایا جا رہا تھا۔ خدا نے انسان اور معاشرے کی بھلائی کے لئے شریعت کی شکل میں جو قوانین اور پابندیاں عائد کیں ان سے عملاً برات کر کے اپنے خود ساختہ قوانین رائج کئے جا رہے تھے، قومی خزانے کو لوٹا جا رہا تھا اور کرپشن اور حرام خوری حکمرانوں کی عادت بن چکی تھی، جس سے معاشی ناہمواری، غربت، افلاس اور جہالت کو فروغ مل رہا تھا۔ حکمران خود بھی اور رعایا بھی حلال و حرام کی تمیز نہیں کر رہے تھے۔ بلکہ حرام امور کو حلال تصور کر کے انجام دے رہے تھے، خدا کے احکامات کی تابعداری کرنے کی بجائے نافرمانی کر رہے تھے اور جن کاموں سے خدا تعالی نے منع فرمایا تھا ان سے باز نہیں آ رہے تھے۔

 

سفر عراق میں ذی حسم کے مقام پر خطبہ میں ارشاد فرمایا وہ جو ہونے والا ہے وہ آپ دیکھ رہے ہیں، زمانے کے حالات بالکل تبدیل ہو چکے ہیں۔ برائیاں ظاہر ہو چکی ہیں، نیکیاں اور فضیلتیں، بہت تھوڑی رہ گئی ہیں جیسے کسی برتن کی تہہ میں چند قطرے، لوگ ذلت و پستی کی زندگی گزار رہے ہیں، زندگی کا منظر پتھریلی چراگاہ کی طرح ہے جس میں گھاس کم ہے، زندگی دشواریوں میں تبدیل ہو چکی ہے، کیا آپ نہیں دیکھ رہے کہ حق پر عمل نہیں ہو رہا اور باطل سے دوری اختیار نہیں کی جا رہی، ان حالات میں ایک ایماندار شخص کو چاہیئے کہ اپنے پروردگار کے دیدار کا طالب و مشتاق رہے اور اس قدر ذلت بار حالات میں حسین ابن علی موت کو سعادت اور ظالموں کے ساتھ زندگی گزارنے کو بوجھ سمجھتے ہیں۔ امام علیہ السلام نے مزید ارشاد فرمایا، لوگ دنیا کے بندے ہیں دین ان کی زبانوں پر صرف لقلقہ لسانی تک ہے، جب تک ان کی زندگی پررونق رہتی ہے اس وقت تک دین کے ساتھ رہتے ہیں اور جب امتحان و آزمائش کا وقت آتا ہے تو دیندار بہت کم رہ جاتے ہیں۔

 

حالات کی تصویر کشی کرتے ہوئے مختلف مقامات پر آپؑ نے ارشاد فرمایا کہ اس وقت ہم ایسے حالات سے گزر رہے ہیں کہ سنت رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ختم ہو چکی ہے اور اس کی جگہ بدعت نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں، تم کتنے بدبخت اور سرکش افراد ہو کہ جنہوں نے قرآن کو پس پشت کر لیا اور تم لوگوں نے شیطان کو دماغ میں بسا لیا ہے، تم لوگ بڑے جنایت کار ہو، کتاب خدا میں تحریف کرنے والے، سنت خدا کو فراموش کرنے اور اسے ختم کرنے والے ہو، تم پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے فرزندوں کو مار ڈالتے ہو، تم اوصیاء کو اذیت دینے والے اور تم ایسے پیشواؤں کے پیروکار ہو جو قرآن مجید کا تمسخر اڑاتے ہیں۔ اسلام میں تحریف ہو جانے کا خطرہ ہی نہیں بلکہ اسلام کے نابود ہونے کا خطرہ لاحق ہو چکا ہے، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے قانون کو ختم کیا جا رہا ہے اور اس کی جگہ بدعتیں زندہ کی جا رہی ہیں۔

 

ان تمام بیانات میں سید الشہداء نے کھل کر اور دو ٹوک انداز میں واضح کیا کہ یزیدی حکومت کی طرف سے بدعتوں کو فروغ دینے اور سنت رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خاتمے کا سلسلہ اب فوری طور پر روکنا ضروری ہے، اسلام کے زندگی بخش قوانین کو نظر انداز کرنے اور باطل کے خلاف آواز اٹھانے کی ضرورت ہے، قرآن اور قرآنی احکام کے رو سے انسان کا قتل، ظلم و ناانصافی، انسانی حقوق کی پامالی، شہری آزادیوں کا سلب کیا جانا، غربت، افلاس اور جہالت کا فروغ، کرپشن اور بدامنی کا راج، عدل اجتماعی سے انحراف، استحصال اور اس طرح کے دیگر امور حرام ہیں، لیکن یزید اور اس کے کارندے بلا دریغ یہ حرام امور نہ فقط انجام دے رہے تھے، بلکہ انہیں حلال ثابت کرنے کی بھرپور کوششیں جاری تھیں۔

 

امامت و رھبری:


ایسی صورت حال میں امت کی رہبری و رہنمائی فرمانا، امت کو ہدایت کا راستہ دکھانا، امت کو فساد اور شر سے بچانا، امت کو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے فریضے سے آگاہ کرنا اور امت کو صحیح اور سچے نظام حکومت اور نظام حیات کی طرف متوجہ کرنا صرف اور صرف آپؑ ہی کی ذمہ داری تھی۔ جبھی تو آپؑ نے فرمایا تھا کہ امام وہ ہے جو کتاب و سنت پر عمل پیرا ہو، اسلامی معاشرہ کی رہبری اور اس ظلم و فساد اور ان ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف جدوجہد کرنے کے لئے میں (حسین ؑ ) دوسروں کی نسبت زیادہ سزاوار ہوں۔ یہ ایسی حکومت ہے جس نے قرآنی احکام، سنت اور قوانین پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں تغیر و تحریف کو اپنا شیوہ بنا لیا ہے، لہذٰا اس کے خلاف جدوجہد کرنا میرا دینی فریضہ ہے، میری ذمہ داری ہے کہ میں تمام برائیوں کو جڑ سے اکھاڑ دوں اور قرآن اور اسلام کے فراموش شدہ حیات آفرین احکام کو دوبارہ اس معاشرے میں رواج دوں۔ ظلم و ستم اور اسلامی قوانین میں تبدیلی کو روکوں، ان حالات میں ظلم و فساد کے خلاف جدوجہد ضروری ہے، یعنی اگر اس جدوجہد میں امت کے پاک ترین افراد کا خون بھی بہہ جائے تو فقط یہ کہ دشمن اس سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا، بلکہ اس کے بہترین نتائج ظاہر ہوں گے اور اسلام پھلے پھولے گا، اب مومن کو چاہیئے کہ وہ اللہ تعالی سے ملاقات کی رغبت کرے اور میں تو موت کو اپنے لئے سعادت اور ظالموں کے ساتھ جینے کو بوجھ سمجھتا ہوں۔

 

فقط اصلاح امت:


امام عالی مقام علیہ السلام کے ان ارشادات نے واضح کر دیا کہ آپؑ کی جدوجہد، آپؑ کا سفر، آپؑ کا قیام، آپؑ کی شہادت اور پھر آپؑ کے خانوادے کے پابہ زنجیر طویل سفر کا مقصد ذات، مفادات، شہرت، دولت، فقط حکومت یا نمود و نمائش نہیں تھا، بلکہ صرف اور صرف اصلاح امت اور فلاح امت تھا۔ اس جدوجہد نے اس اصول کی بنیاد ڈال دی ہے کہ جب بھی، جس دور میں بھی، جس خطے میں بھی اور جن حالات میں بھی اس قسم کی صورت حال درپیش ہو تو عظیم مقاصد اور اجتماعی مفادات کے لئے کسی قربانی سے دریغ نہیں کرنا چاہیے۔ تاریخ شاہد ہے کہ 10 محرم 61 ھ کے بعد جب بھی حریت کی تاریخ رقم ہوئی، جب بھی ظلم کے خلاف قیام کا مرحلہ آیا، جب بھی فساد کے خاتمے کی جدوجہد ہوئی اور جب بھی جبر سے مسلط رہنے والی حکومتوں کی مزاحمت کی بات نکلی تو سب حریت پسندوں اور تمام تحریکوں نے حسین علیہ السلام اور کربلا سے ضرور استفادہ کیا۔ تعلیمات اور سیرت امام حسین علیہ السلام کی روشنی میں اصلاح امت کا سلسلہ ماضی میں بھی جاری رہا اور اب بھی جاری ہے۔ برائیوں اور مفاسد کو دور کرنے اور دنیا کو ایک ہمہ گیر عادلانہ نظام فراہم کرنے کے لئے ضروری ہے کہ سب سے پہلے اصلاح امت کا بنیادی فریضہ انجام دیا جائے۔ یہ فریضہ انجام دینے والوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ امام حسین علیہ السلام کے فرامین، کردار، سیرت، انداز عمل اور جدوجہد سے استفادہ کریں۔ اصلاح امت کی اہمیت کا احساس کرتے ہوئے اپنے مسلکی، فروعی، ذاتی اور جماعتی مفادات کو بالائے طاق رکھ کر اتحاد امت، وحدت امت اور اصلاح امت کا مشن جاری رکھیں۔

 

سچ جو میدان کربلا میں کہے، سچ کے لئے جفائیں سہے، غسل اپنے لہو سے کر کے بھی، سرخرو اور سربلند رہے، صرف اس کو حسینؑ کہتے ہیں۔۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬