01 December 2014 - 14:06
News ID: 7536
فونت
رسا نیوز ایجنسی - اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ظاہری اسباب کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ خرابی یہاں ہے اور وہ اسے درست کرنے کی کوشش میں مصروف ہوجاتا ہے مگر خرابی دور نہیں ہوتی ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خرابی کی اصل جڑ کہیں اور ہوتی ہے اور جب تک اصل جڑکی اصلاح نہ کی جائے خرابی کی اصلاح نہیں ہوسکتی۔ آج یہی معاملہ ہماری قوم کے ساتھ بھی ہے۔ قوم کے اندر آج اتحاد کی کمی ہے۔ مسلکی طور پر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی حدود کو بھی ہوا دی جارہی ہے اور قوم کو تقسیم پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ لوگ آپس کے اخت
عبد اللہ رضا


عبد اللہ رضا ایم فل اسکالر نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز اسلام آباد


ایک شخص بائیسکل پر سفر کر رہا تھا۔ اچانک اس کا بریک جام ہوگیا۔ وہ اتر کر سائکل ساز کے پاس گیا۔ مسافر کا خیال تھا کہ جس مقام پر اس کا بریک جام ہوا ہے ۔ سائیکل ساز اسی مقام پر ہاتھ لگا کر اس کو درست کرے گا۔ مگر سائکل ساز نے ہتھوڑی لی اور بالکل دوسرے مقام پر ٹھونکنا شروع کر دیا۔ مسافر ابھی اپنی حیرت کا اظہار بھی نہیں کر پایا تھا کہ مستری نے کہا ’’بس ٹھیک ہے لے جائے، اگلے لمحہ سائیکل اپنے مسافر کو لئے دوبارہ سڑک پر دوڑ رہی تھی۔


یہی معاملہ انسا نی زندگی کا بھی ہے۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ آدمی ظاہری اسباب کو دیکھ کر سمجھ لیتا ہے کہ خرابی یہاں ہے۔ وہ اسی مقام پر ٹھونک پیٹ شروع کر دیتا ہے۔ مگر خرابی دور نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خرابی کی اصل جڑ کہیں اور ہوتی ہے اور جب تک اصل جڑکی اصلاح نہ کی جائے خرابی کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔ آج یہی معاملہ ہماری قوم کے ساتھ بھی ہے۔ قوم کے اندر آج اتحاد کی کمی ہے۔ مسلکی طور پر تقسیم کرنے کے ساتھ ساتھ علاقائی حدود کو بھی ہوا دی جارہی ہے اور قوم کو تقسیم پر تقسیم کرنے کی سازشیں ہو رہی ہیں۔ لوگ آپس کے اختلافات میں غیروں سے مل کر اپنوں ہی کو ہرانے میں سکون محسوس کر رہے ہیں۔ اجتماعی آواز کو مؤثر بنانے کی بجائے مختلف ٹولیوں میں بٹ چکے ہیں اور اپنی اپنی آوازیں نکال رہے ہیں۔


ان سب کو دیکھ کر ایک شخص کے اندر کچھ کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے لیکن چونکہ اس کے اندر بصیرت نہیں ہے۔ اس نے معاملات کو گہرائی سے نہیں دیکھا ۔ اس نے بیماری کا اصل کھوج نہیں لگایا، ظاہری علامات کو دیکھ کر یہ سمجھ لیا ہے کہ بیماری بھی اسی مقام پر ہے اور وہ انہی ظاہری علامات کے موافق سوچنے لگتا ہے ۔ اس کے ذہن میں اجتماع، ریلیاں اور دھرنے کی اصطلاحات آنا شروع ہوجاتی ہیں ۔ اس کو یہ کام نظر آتا ہے کہ قوم کے افراد کو جمع کیا جائے۔ دھواں دھار تقریریں کی جائیں، قراردادیں پاس کی جائیں، دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنوں کو بھی للکارا جائے تو شاید قوم کے اتحاد کی سبیل نکل آئے۔


 یہ شخص یہ سمجھتا ہے کہ میری قوم کے پسنے کی وجہ یہ ہے کہ قوم کہ اندر اتحاد نہیں ہے۔ اور میرے کچھ کرنے سے اتحاد پیدا ہوجائے گا تو یہ اٹھتا ہے اپنے جیسے کچھ ہم فکر دوستوں کو ساتھ ملاتا ہے اپنی ہی قوم میں تفرقہ ڈال کر وحدت کا نعرہ بلند کرتا ہے اور نا سمجھ لوگوں کو بیوقوف بنانے کا سلسلہ شروع کر دیتا ہے۔ اسی طرح کبھی انقلاب اور کبھی ایک نئے ملک کا نعرہ لگایا جاتا ہے اور ملکی معیشت کو کمزور کرنے اور اور ملک کو مزید پستیوں میں دھکیلنے کا سلسلہ شروع کر دیا جاتا ہے۔ یہ سب لوگ بزعم خود تو یہ سمجھ رہے ہیں کہ ہم اس ملک کی اور اس قوم کی خدمت کر رہے ہیں لیکن در حقیقت ان کو پتا ہی نہیں ہے کہ اصل بیماری کہاں ہے اور ہمیں کس جگہ سے ٹھونک بجا کر اس کو ٹھیک کرنا ہوگا۔


اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ وہ قوم جو پہلے کسی حد تک متحد تھی کچھ لوگ اکٹھے تھے ان کو بھی ایک مرکز سے جدا کردیا جاتا ہے۔ آپس میں ہی ان کو لڑا دیا جاتا ہے۔ ریاست کی رٹ کو کمزور کر دیا جاتا ہے۔ ایک مرکزی پلیٹ فارم کو کمزور کرنے کی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں یا پھر چند ہزار لوگوں کی مدد سے ایک آئین اور دستور کی اعلانیہ خلاف ورزی شروع کردی جاتی ہے ملک کی آئین اور دستور کی دھجیاں بکھیری جاتی ہیں اور کوئی پوچھنے والانہیں کوئی بھی سمجھنے والا نہیں ۔


یہ سب کچھ ہو رہا ہوتا ہے لیکن کوئی آدمی اٹھ کر اس نام نہاد لیڈر سے سوال نہیں کرتا کہ یہ آپ کیا کر رہے ہیں ایسا کیوں کر رہے ؟ اور اگر یہ ہی حل ہے تو ابھی تک اس کا ثمر ظاہر ہونا کیوں شروع نہ ہوا ؟ بلکہ لوگ آنکھیں بند کر کے اس کے پیچھے چل رہے ہوتے ہیں اور جس طرف وہ لے کر جا رہا ہے اسی طرف سب جا رہے ہیں۔ مسائل پھر بھی اسی طرح ہی ہیں کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا بلکہ مسائل بڑھتے ہی جارہے ہیں۔اور قوم اور مزید پستیوں کی طرف جا رہا ہے ۔


اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مسئلہ کا حل یہ نہیں ہے کہ جو اس نام نہاد لیڈر نے سمجھا ہے بلکہ مسئلہ کا حل کچھ اور ہے ۔ یہ نام نہاد لیڈر علامتوں پر محنت کر رہا ہے ۔ حالانکہ اصلی سبب یہ ہے کہ ان علامتوں کے سبب کو تلاش کیا جائے اور اس سبب کو ختم کیا جائے۔ قوم کے اتحاد کا حل ہر گز دھرنے اور احتجاجی ریلیاں نہیں ہیں ۔ بلکہ قوم کے اندر اگر اتحاد نہیں ہے تو اس کا سبب کچھ اور ہے ۔ اس کا سبب افراد کی بے اتحادی ہے۔ افراد کی سوچ ہے ۔ افراد میں تفرقہ ہے ۔ ان کے اندر اتحاد کی سوچ ختم ہو چکی ہے۔ دوسروں کے لیے سوچنے سے پہلے وہ اپنے آپ کے لیے سوچ رہے ہیں۔ ایسی حالت میں جتنے چاہے دھرنے دے لیں جتنی چاہے ریلیاں نکال لیں۔ 2،2 ماہ تک سڑکوں پر بیٹھے رہنے سے معاملات نہیں سدھرنے والی۔ ہمیں فرد کی سطح پر اتحاد پیدا کرنا ہوگا۔ اپنے مرکز کو مضبوط کرنا ہوگا۔


وہ غلطیاں جو ہم کر چکے ہیں ان کا ازالہ کرنا ہوگا۔ لوگوں کی سوچ کو بدلنا ہوگا۔ لوگوں کے اندر اس ملک کے لیے اور اپنی قوم کے لیے کچھ کرنے کا جذبہ پیدا کرنا ہوگا۔ سندھی، پنجابی، پٹھان اور بلوچی کی سوچ کو ختم کرنا ہوگا۔ سنی، شیعہ، وہابی، دیوبندی کے فرق کو مٹاکر پاکستانی بن کر سوچنا ہوگا۔ اپنے ذاتی مفادات کو ایک سائیڈ پر رکھ کر قومی مفادات کے متعلق سوچ کو ہوا دینی ہوگی۔ ذات سے پہلے ملک اور قوم کو کو رکھنے کی سوچ کو بیدار کرنا ہوگا۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا ملک ترقی کری، اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہماری قوم دنیا کی ترقی یافتہ قوم بن جائے ، اگر ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہماری آنے والی نسلیں ہم پر الزامات لگانے کی بجائے ہماری شکر گزار ہوںتو ہمیں ابھی سنبھلنا ہوگا۔ اس سے پہلے کہ ہمارے پاس وقت بالکل نہ رہے ہمیں ابھی سے ہی اپنی غلطیوں کو سدھارنا ہوگا۔ ہمیں علامات پر محنت کرنے کی بجائے اس کے اسباب پر محنت کرنا ہوگی۔ اپنی آنے والی نسل کی تعلیم پر توجہ دینا ہوگی۔ اپنی نوجوان نسل کی سوچ کو اسلامی، معاشرتی اور ملک سے محبت کرنے والا بنانا ہوگا ۔


اگر ہم نے یہ سب کام ابھی نہ کیے تو وہ وقت دور نہیں کہ جب ہمارا آنے والا جوان سیکولرازم کی طرف جا رہا ہوگا ، ملک سے پڑھنے کے بعد اور اعلیٰ ڈگری حاصل کرنے کے بعد وہ ملک کی خدمت کی بجائے بیرون ملک شفٹ ہونے کو ترجیح دے گا۔ ملک میں ہر روز دنگے فساد ہو رہے ہوں گے اور ہم دھرنے دے کر بیٹھے ہوں گی۔ خدارا اپنی مارکیٹ بنانے کی بجائے اس ملک کے بارے میں سوچیں ، اپنی قوم کے بارے میں سوچیں ۔


اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اور ہماری آئندہ آنے والی نسلیں کو میٹھا پھل ملے تو ہمیں دنیا کہ اس قانون کو ماننا ہوگا کہ یہاں ’’پھل‘‘ پر محنت کرنے والے کو پھل نہیں ملتا۔ یہاں پھل صرف وہ شخص پاتا ہے جس نے ’’بیج‘‘ پر محنت کرنے کا ثبوت دیا ہو۔ ہمیں بھی اس وقت پر پھل پر اپنا وقت برباد کرنے بجائے بیج پر محنت کرنے کی ضرورت ہی۔ پھل خود بخود میٹھا ہو جائیگا۔ اور نہ صرف میٹھا ہوگا بلکہ کثیر مقدار میں بھی ہو گا۔ تو آئیں اور پھل کی بجائے بیج پر محنت کرنے کا عزم کریں ۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬