اس حقیقت سے انکار نھیں کیا جاسکتا کہ آج مسلمانوں کا وہ درخشاں دور ختم ھوگیا جن پر انہیں ناز تھا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ کل یورپ کے گھٹتے ھوئے ماحول میں علم و حکمت کے چراغ روشن کرنے والے آج اپنے گھروں سے تاریکی کو دور کرنے
ایک طرف حکومت کی مشینری کی کوشش تھی کہ امام علیہ السلام کے سامنے ایسی رکاوٹیں کھڑی کر دے کہ امام سے شیعوں کا تعلق محدود ہو جائے تاکہ شیعوں کی رگ حیات کو کاٹا جا سکے، انہیں اچھی طرح معلوم تھا کہ شیعوں کی رگ حیات امامت سے انکا تعلق ہے .
ایک 15 سالہ لڑکی نے اپنے باپ کو قتل کر دیا، پولیس نے تھانے میں جب لڑکی سے پوچھا کہ تم نے اپنے باپ کو گولی کیوں ماری؟ تو اسکا جواب دیا کہ "اس کا باپ اسے اسکے بوائے فرینڈ سے نہیں ملنے دیتا تھا ۔"
جب مغربی ممالک کی عوام اسلام اور مسلمانوں کے خلاف اپنے ذرائع ابلاغ کے وسیع اور موثر پروپیگنڈے کا شکار ہوتی ہے تو اس کا نتیجہ مسلمانوں کے خلاف شدت پسندانہ اقدامات کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے جس کی تازہ ترین مثال ہمیں نیوزی لینڈ میں دکھائی دی ہے۔
حضرت امام علی نقی علیہ السلام نے ارشادفرمایا کہ ہمارے علماء،غیبت قائم آل محمدکے زمانے میں محافظ دین اور رہبرعلم و یقین ہوں گے ان کی مثال شیعوں کے لیے بالکل ویسی ہی ہوگی جیسی کشتی کے لیے ناخداکی ہوتی ہے ۔
امام علی نقی الھادی علیہ السلام فرماتے ہیں حسد انسان کی نیکیوں کو ختم کرے دیتا ہے اور بغض و دشمنی کا سبب بنتا ہے ۔
اسلام نے خواتین کے حقوق اور عظمت کو اجاگر کیا ہے، لیکن آج کی مغرب زدہ عورتیں اپنی عزت کو خود چند نعروں کے عوض کھلے بازاروں میں تاراج کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ اسلامی تعلیمات نے عورت کو معاشرے کا عظیم فرد قرار دیا ہے ۔
امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں حسد انسان کے بدن کو فرسودہ اور مریض کرتا ہے ۔
اسلامی متون میں ماہ رجب کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے اور اس مہینہ کو قربت خدا کے لئے بہترین و مناسب وقت جانا گیا ہے اور اس مہینہ کے سلسلہ میں اہلبیت علہیم السلام نے بھی بہت تاکید کی ہے اور اس ماہ میں گناہوں کی مغفرت و قربت خدا کے لئے بے شمار اعمال بیان ہوئے ہیں ۔
کالم نگار نے نہایت بہتان تراشی سے کام لیا،دوسرے ملکوں کے شیعہ طلباء کی ایران میں دینی تعلیم کے دوران برین واشنگ کی جاتی ہے اور وہ واپس جا کر انقلاب کا نمائندہ بنتا ہے، جہاں گذشتہ چالیس سال میں ہزاروں شیعہ دینی طلباء ایران سے تعلیم حاصل کرکے آچکے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر کا پاک سرزمین پر بیٹھ کر ایک برادر اسلامی ملک کے بارے میں اسرائیلی اور امریکی لہجہ میں گفتگو کرنا اور ہمارا خاموشی سے بیٹھ کر اس پر آئیں بائیں شائیں کرنا اس سوچے سمجھے منصوبے کا ایک ہلکا سا اظہار ہے۔
اگرچہ انقلاب اسلامی کی کامیابی کے دن کے بعد سے ملت غیور ایران کا ہر اجتماع استعماری طاقتوں پر خوف طاری کرتا رہا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی قوم اور نظام انقلاب کے ہر اقدام پر کڑی نظر رکھتی۔
ایران میں ایک بہت بڑی عوامی تحریک"جمہوری اسلامی" کے نام پر زور و شور سے چل رہی تھی جس کی قیادت شیعہ مرجع تقلید امام خمینی کر رہے تھے۔
حضرت فاطمہ زہرا علیہا السلام کی شخصیت اور کردار ہر طبقے کی عورتوں کے لئے مشعل راہ اور وسیلۂ ہدایت ہے۔
ایام فاطمیہ میں بی بی دو عالم کی مصبیتوں کو یاد کرنے، آپکے فراق میں غم منانے کے سوا اس بات پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ آپکی عملی سیرت کیا تھی ؟
حضرت زہرا سلام اللہ علیہا، شمع امامت کا وہ پروانہ تھیں جنہوں نے امامت اور ولایت کے عشق اور محبت میں اپنے آپ کو جلا دیا اور ہم کو یہ بتا دیا کہ دیکھو امامِ برحق کعبہ کی طرح ہے ۔
حضرت فاطمہ الزھرا(س) اپنی مختصر سی عمر میں سیدۃ النساء العالمین کے درجہ پر فائز ہیں۔ یعنی آپ تاریخ کی تمام بزرگ اور مقدس خواتین سے افضل ہیں ۔
علماء کرام یہ بات سمجھنا ہوگی کہ عزاداری ہماری قوت ہے، اسکا اہم حصہ مجالس امام حسینؑ ہیں، عوام اس کے تحفظ کیلئے جان قربان کرنے کیلئے تیار رہتے ہیں ۔
مرد کا جہاد اس کی تلوار ہے ، نیزہ ہے ، تیر ہے اور عورت کا جہاد اس کی زبان ہے ، اس کی گفتار ہے اور اس کا دل نشین لہجہ ہے۔
گذشتہ برس کے آخری چند ماہ میں اسرائیلی حکام کی عرب حکام کیساتھ ہونیوالی ملاقاتیں کافی اہم رہی اور اس بات کی دلیل ہیں کہ 1948ء کے بعد سے جس طرح سے عرب ممالک کے حکمرانوں نے اسرائیل کو ناجائز تصور کیا تھا، اب شاید اس تصور سے منحرف ہو رہے ہیں۔