‫‫کیٹیگری‬ :
08 August 2017 - 16:59
News ID: 429382
فونت
حجت الاسلام والمسلمین انصاریان :
قرآن کریم کے مفسر نے اس بیان کے ساتھ کہ قرآن کریم ایک مدون و مرتب شدہ قانون ہے اور انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ہے کہا : قرآن تمام فکری و روحی و ذہنی بیماری کا علاج کرتا ہے اور بہت سارے دردوں کا بھی معالجہ کرتا ہے ۔
حجت الاسلام والمسلمین انصاریان

رسا نیوز ایجنسی کے اصفہان رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حوزہ علمیہ کے مشہور و معروف استاد و قرآن کریم کے مفسر حجت الاسلام والمسلمین شیخ حسین انصاریان نے گذشتہ شب اصفہان شہر کے جہار باغ خواجو روڈ پر بیت الاحزان انجمن کے زیر اہتمام منعقدہ تقریب میں معصومین علیہم السلام کی روایت میں زائرین کی خصوصیت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : امام رضا علیہ السلام کے زائرین یقینی طور سے جہنم کی آگ سے محفوظ رہے نگے ۔

انہوں نے اپنی گفت و گو میں انسان کے ارتقائی مراحل میں حجت الہی کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے وضاحت کی : پیغمبر اکرم (ص) اور امیرالمومنین (ع) کے مغز میں تمام انسانوں کی طرح چودہ ارب بھوری رنگ کا سیل پایا جاتا ہے لیکن عام انسانوں کے خلاف کہ جن کا ایک تہائی سیل فعال رہتا ہے ، ان لوگوں کے مغز کے تمام بھورے رنگ کا سیل فعال تھا اس مسئلہ کو مغرب ممالک کے ایک پروفیسر جو اس سلسلہ میں کافی مطالعات و تحقیق کی تھی مجھ سے یبان کیا ہے ۔  

حجت الاسلام والمسلمین انصاریان نے بیان کیا : جب پیغمبر اکرم (ص) حالت احتضار میں تھے حضرت علی علیہ السلام کو اپنے پاس آنے کو کہا اور جب حضرت علی علیہ السلام پیغمبر اکرم (ص) کے پاس آئے تو پیغمبر اکرم (ص) نے ان سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اپنے کان کو میرے مونہ کے نزدیک لاو اور بہت ہی مختصر سے وقت میں ان کی بات ختم ہو گئی ، جو لوگ اس واقعہ کو دیکھ رہے تھے امیر المومنین علی علیہ السلام سے سوال کیا پیغمبر اکرم (ص) آپ سے کیا نصیحت فرما رہے تھے تو امیر المومنین (ع) نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر اکرم (ص) نے علم کے ہزار دروازے ہم پر کھول دئے ہیں کہ ہر دروازے میں ہزار باب ہیں ؛ اس مسئلہ سے پتہ چلتا ہے کہ ان کا ذہن کس حد تک فعال تھا ۔  

قرآن کریم کے مفسر نے اپنی گفت وگ و کو جاری رکھتے ہوئے کہا : حضرت علی (ع) کے بے انتہا علم میں سے صرف نہج البلاغہ اور کئی سو روایت ہم لوگوں تک پہوچ سکی ہے کیوںکہ پیغمبر اکرم (ص) کے رحلت کے بعد حضرت علی (ع) کو علم کے نشر کی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔

حوزہ علمیہ میں اخلاق کے استاد نے وضاحت کی : ابن عباس ایک ورایت مین کہتے ہیں کہ ہم قرآن کی تفسیر میں حضرت علی (ع) کے شاگرد ہیں اور انہوں نے ایک مرتبہ بندے سے فرمایا اگر سورہ مبارکہ حمد کی سات آیت کی تفسیر کروں اور یہ تفسیر آپ کے لئے قابل فہم ہو اور آپ میرے بیان کو لکھیں تو ستر اونٹ کی ضرورت ہوگی جو آپ کے لکھے ہوئے کو دوسری جگہ منتقل کرے ؛ بزرگ علمای اسلام حضرت علی (ع) کی معرفت نہیں رکھتے تھے ، تیئیس سال کی عمر میں ان کے اخلاص کا معیار اس حد تک عظیم تھا کہ پیغمبر اکرم (ص) جنگ خندق میں ان کے ایک ضربت کے سلسلہ میں فرماتے ہیں کہ علی (ع) کی ایک ضربت ازل سے ابد تک تمام جن و انس کی تمام عبادتوں سے افضل ہے ۔

انہوں نے اس بیان کے ساتھ کہ قرآن کریم ایک مدون و مرتب شدہ قانون ہے اور انسانی زندگی کو منظم کرنے والا ہے کہا : قرآن تمام فکری و روحی و ذہنی بیماری کا علاج کرتا ہے اور بہت سارے دردوں کا بھی معالجہ کرتا ہے ۔

حجت الاسلام والمسلمین انصاریان نے بیان کیا : امیر المومنین حضرت علی (ع) ایک روایت میں فرماتے ہیں آئندہ میرے بدن کا ٹکڑا خراسان نامی شہر میں دفن ہوگا اور جو شخص بھی اس کی زیارت کرے گا اس حالت میں کہ عارف بہ حق ہوگا تو خداوند عالم اس زائر کے بدن کو جنہم کی آگ سے یقینی طور سے حرام کرے گا ؛ حضرت علی (ع) ابد تک کو دیکھتے تھے یہاں تک کہ روایت میں داعش کے سلسلہ میں بھی وضاحت کی ہے ۔

قرآن کریم کے مفسر نے بیان کیا : شیخ طوسی نقل کرتے ہیں امام جواد علیہ السام سے ایک راوی نے سوال کیا آپ کے والد کی زیارت افضل ہے یا امام حسین علیہ السلام کی زیارت تو انہوں نے فرمایا ، اگر کوئی مدینہ جائے اور چہار امام اور حضرت فاطمہ زهرا (س) کی زیارت کرے اور اس کے بعد نجف جائے اور ہمارے جد امیر المومنین علیہ السلام کی زیارت کرے اور اسی طرح امام حسین علیہ السلام کی زیارت کربلا میں کرے اور کاظمین میں امام کاظم علیہ السلام کی زیارت کرے اور کوئی دوسرا شخص جو صرف خراسان جائے اور ہمارے والد کی زیارت کرے ، جو شخص میرے والد کی زیارت کے لئے جائے وہ افضل ہے ۔

حوزہ علمیہ کے استاد اخلاق نے اپنی گفت و گو کے آخری مرحلہ میں اس بیان کے ساتھ کہ زائر زیارت ہونے والے کی عکاسی ہے بیان کیا : زیارت کا معنی ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا جہاں اہل بیت علیہم السلام کا روضہ ہو نہیں ہے بلکہ امام معصومین علیہم السلام نے ایک روایت میں فرمایا ہے ، زیارت کا معنی زائر کا جس کی زیارت کرنی ہے وہاں حاضر ہونا ہے یعنی انسان کا اخلاق و رفتار و گفتار و عقیدہ و عبادات زیارت جس کی کرنی ہے اس کے مشابہ ہونا چاہیئے تا کہ زائر کے الفاظ اس پر صدق کرے ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۹۵۴/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬