مسلم لیگ (ن) نے چوہدری نثار کو ایک طلاق دی ہے یا ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دے دی ہیں اور نون لیگ کے قائد کے نزدیک ایک نشست کی تین طلاقیں نافذ ہو جاتی ہیں۔ چوہدری نثار کی ”حرکتیں“ ایسی ہی تھیں کہ آخر کار نوبت طلاق تک پہنچنا ہی تھی۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کا مزاج ہی ایسا ہے کہ سو فیصد، بلا شرط و قید فرماں برداری کے بغیر ان کی رفاقت پائیدار نہیں رہ سکتی۔ ایسی مثالیں ماضی میں بھی موجود ہیں۔ جاگتی آنکھیں اور سنتے کان پہلے بھی دیکھ اور سن چکے ہیں۔ معروف ٹی وی اینکر طارق عزیز کو میاں صاحب نے ایم این اے کا ٹکٹ دیا۔ وہ کامیاب ہوگئے۔ انہوں نے سمجھا کہ وہ ایک ”جمہوری پارٹی“ کا نہایت اہم حصہ بن گئے ہیں اور ”اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے۔“ پھر کیا ہوا، انہوں نے ایک روز سر بزم جمہوری پارٹی کے اجلاس میں میاں صاحب سے اختلاف رائے کا اظہار کر دیا۔ نتیجہ کیا نکلا۔ ایم این اے کی نشست سے استعفٰی دینا پڑا اور جہاں سے روانہ ہوئے تھے، وہیں عزت و وقار سے واپس آگئے۔ انہیں بتایا گیا کہ تمھاری حیثیت ایک فلمی اداکار اور ٹی وی اینکر سے زیادہ کچھ نہیں۔ ایم این اے بن کر تمہیں غلط فہمی ہوگئی ہے کہ تم سیاسی راہنما اور سیاسی دانشور بن گئے ہو۔ طارق عزیز نے سیاست سے ایسی توبہ کی کہ پھر وادی سیاست کی طرف آنے کے لئے کسی سے راستہ تک نہ پوچھا۔
چلیں طارق عزیز تو کوئی سیاسی پس منظر نہ رکھتے تھے۔ مالی لحاظ سے بھی سیاست دان کی سی پسلی نہ رکھتے تھے، لیکن میاں خورشید محمود قصوری تو بڑے باپ کے بیٹے تھے۔ محمود قصوری کا سیاست میں بڑا نام تھا۔ وہ ذوالفقار علی بھٹو کی کابینہ میں وزیر قانون رہ چکے تھے۔ خورشید قصوری نے شاید اسی ”غلط فہمی“ کی بنا پر ایک روز ”وہی غلطی“ کی، جو طارق عزیز سے سرزد ہوچکی تھی۔ انہوں نے جمہوری پارٹی کے ”بادشاہ سلامت“ سے اختلاف رائے کر دیا۔ پھر ان کے ساتھ پارٹی میں جو سلوک ہوا، وہ ابھی تک بہت سے حافظوں میں محفوظ ہوگا۔ البتہ خورشید قصوری بدلہ لے سکتے تھے، سو انہوں نے لے لیا۔ جنرل پرویز مشرف نے نواز شریف کی بساط سیاست لپیٹی تو خورشید قصوری نے ان کی حمایت کی، ان کی قربت اختیار کی اور ان کے وزیر خارجہ بن گئے۔ ایسی ہی اور بھی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں اور آئندہ بھی ایسی کئی مثالیں وجود میں آنے والی ہیں۔ عام انتخابات میں پارٹی ٹکٹس کی تقسیم کے موقع پر نئی مثالیں سامنے آئیں گی۔ شاید ہمارے ظفر علی شاہ صاحب ”محرومین“ کی فہرست میں قرار پائیں کیونکہ وہ آج کل نون لیگ کی قیادت سے ”بے مزہ“ سے ہیں۔ اس بے مزگی کا باقاعدہ آغاز اس وقت ہوا، جب وہ بلدیاتی انتخابات میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بہت سوں کا تاثر یہ ہے کہ نون لیگ نے ان کی حمایت نہیں کی اور انہیں ہرانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی گئی تھی، کیونکہ انھوں نے کامیابی کی صورت میں اسلام آباد کا میئر بننے کا اعلان کر رکھا تھا، لیکن مسلم لیگ کی قیادت نے یہ سہرا کسی اور کے سر سجانا تھا۔ اللہ بہتر جانتا ہے، تاہم شاہ صاحب ”بے مزہ“ سے بڑھ کر ”بدمزہ“ سے لگتے ہیں۔
رہ گئی بات چوہدری نثار علی کی۔ وہ اپنے بارے میں ویسے تو کل (یکم مارچ 2018ء) کی ایک اعلان کردہ پریس کانفرنس میں کچھ اعلان کریں گے، تاہم ہماری رائے یہ ہے کہ اب وہ نون لیگ میں ”مس فٹ“ ہوچکے ہیں اور مولوی صاحبان کی غیر سیاسی اصطلاح کے مطابق انہیں تین طلاقیں ہوچکی ہیں اور طلاق دینے والے کے نقطہ نظر کے مطابق اب یہ طلاق بائن ہے، جو نافذ ہوچکی ہے۔ فیصلہ تو طرفین ہی نے کرنا ہے، لیکن اگر کوئی گنجائش ہوتی تو مجلس عاملہ کے گذشتہ روز کے اجلاس میں انہیں ہر صورت ہونا چاہیے تھا۔ ان کے دیرینہ دوست میاں شہباز شریف کو قائم مقام دولہا بنایا جا رہا تھا۔ وہ تھوڑی سی ضد کرتے تو چوہدری نثار اس محفل میں ضرور ہوتے۔ کہا جاتا ہے کہ نون لیگ کے متعدد سیاسی راہنماﺅں نے میاں نواز شریف سے باصرار گزارش کی کہ چوہدری نثار کو دعوت دی جائے، لیکن ان کی ایک ہی نہ تھی، جو آخر تک رہی۔ اس ”کار خیر“ کے لئے سب سے موزوں میاں شہباز شریف تھے، لیکن انہوں نے یہ کیا کیا کہ ”جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں۔" جن حلقوں نے ابھی تک نواز شریف کی خوشنودی حاصل کی ہے اور اس خوشنودی کی برکت سے اہم مناصب اور وزارتیں پائی ہیں، انہیں کیا غم اگر چوہدری نثار نون لیگ کا حصہ نہ رہیں، ان کی بلا سے، وہ تو دل ہی دل میں کہ رہے ہوں گے ”خس کم جہاں پاک۔“ نون لیگ کے وہ لاﺅڈ سپیکرز جو ابھی تک اختلاف رائے جو جمہوری پارٹیوں کا ”حسن“ کہہ رہے تھے، طلاق کے بائن ہونے کا اعلان ہوتے ہی دیکھیے گا ”حسن“ کس طرح سے قبح اور یا قباحت میں تبدیل ہوتا ہے۔ وہ دن دور نہیں، اللہ کرے ایسا نہ ہو، بہرحال ”ہاتھ کنگن کو آرسی کیا ہے۔" کیا اب بھی میاں شہباز شریف اپنے دیرینہ دوست کو پارٹی میں باقی رکھ سکیں گے۔ وقت بہت جلد اس کا جواب دے گا، لیکن چچا بھتیجی کی گذشتہ روز کی تصویر چوہدری نثار کے لئے کوئی اچھا پیغام نہیں رکھتی۔ اس سارے مسئلے میں اہم سوال یہ ہے کہ چوہدری نثار کا آئندہ سیاسی لائحہ عمل کیا ہوگا۔ آیئے اس سوال کے جواب کے لئے کچھ انتظار کر لیتے ہیں۔/۸۹۸/ ف۹۷۰