21 June 2018 - 13:51
News ID: 436332
فونت
لازم ہے کہ کسی صورت یہ ناقابل تردید حقیقت فراموش نہ کریں کہ مسلمان و عرب ممالک کے ان مسائل کو ایجاد کرنیوالے اور انکی کمک کرنیوالے بظاہر یہ سب الگ الگ ملک یا حکمران نظر آرہے ہیں، مگر یہ سب حقیقتاً ایک ہی ہیں۔ جی ہاں! دشمن ایک ہی ہے، نام امریکہ، برطانیہ و فرانس ہو یا اسرائیل یا پھر آل سعود و اماراتی شیوخ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن فیصلہ دنیا کے غیرت مند انسانوں اور خاص طور مسلمانوں اور عربوں نے کرنا ہے کہ اس ’’ایک‘‘ دشمن کیخلاف وہ کب ایک ہونگے۔؟
صنعا یمن

تحریر: عرفان علی

بہت سی خبریں ہیں جو عام انسانوں تک پہنچائی نہیں جاتیں، کیونکہ ذرائع ابلاغ کے مالکان اور انہیں مالی مدد فراہم کرنے والوں کی اپنی ترجیحات ہیں۔ یہ مسئلہ صرف غیر مسلم انسانوں تک محدود نہیں۔ مسلمان ممالک اور خاص طور پر پاکستان کے ذرائع ابلاغ بھی اسی ذہنیت کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ خالص مذہبی مقدس مہینے رمضان المبارک کے پروگراموں کو فیشن ایبل خواتین یا مرد فنکاروں کی میزبانی میں دے دینا، نیلام گھر بنا دینا یا پھر مذہبی منافرت پھیلانے کے لئے استعمال کرنا، یہ بھی کوئی کم ’’کارنامہ‘‘ تو نہیں! چلیں ان کو انکے حال پر چھوڑتے ہوئے ان تمام انسانوں سے جو خود کو حقوق انسانی کا علمبردار کہتے ہیں، یا وہ جو خود کو مسلمان اور عرب سمجھتے ہیں، ان سے بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ حقوق انسانی کو اور کتنا پامال کیا جائے، انسانیت دشمن، اسلام دشمن اور عرب دشمن اب اور کتنا کھل کر سامنے آئے کہ آپ کی طرف سے کوئی فائدہ مند اور نتیجہ خیز منطقی ردعمل صادر ہوسکے؟! منگل 19 جون 2018ء کو تقریباً پچاس صہیونی آبادکار مقبوضہ بیت المقدس میں باب مغاربہ کے راستے مسجد اقصیٰ کی حرمت پامال کرنے دندناتے آئے۔ جعلی ریاست اسرائیل کی افواج اور پولیس کی سرپرستی و حفاظت میں اشتعال انگیزی کی اور چلے گئے۔ کہیں کوئی خبر؟ کہیں کوئی تنقید، تشویش و مذمت۔؟

پاکستان کا وہ دفتر خارجہ اور تنظیمیں جو یمن کی بحری، بری و فضائی ناکہ بندی کرکے یمنی عوام پر بلاجواز یکطرفہ جنگ مسلط کرنے والی سعودی و اتحادی افواج کی جارحیت کے خلاف اپنے مادر وطن کا دفاع کرنے والی یمنی افواج اور رضاکاروں کو باغی کہہ کر مذمت کرتے رہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ سعودی ذرائع سے ذرا مقبوضہ بیت المقدس سمیت پورے مقبوضہ فلسطین کے تازہ ترین حالات سے بھی آگاہی حاصل کریں، ایک مذمت اسرائیلی جارحیت کی بھی کر دیں، اس خاموشی و بے حسی پر سعودی عرب کے کردار پر بھی کم از کم ایک آف دی ریکارڈ بیان ’’ذرائع‘‘ کی رٹ لگانے والے صحافیوں کے توسط سے ہی پیش کر دیں اور انگریزی نہ سہی اردو میں ہی کر دیں، تاکہ کم از کم وہ پاکستانی ہی مطمئن ہو جائیں، جنہیں اپنے مادر وطن پر ناز ہے کہ وہ عالم اسلام کی سب سے بڑی طاقت ہے! آن دی ریکارڈ سعودی مخالف بیان کے لئے جتنی ہمت و جرات درکار ہے، اس کی عدم موجودگی کی وجہ سے ہی آف دی ریکارڈ بیان کی تجویز دی ہے، ورنہ سعودی و اتحادی افواج اور اب انکے ساتھ ساتھ امریکی، فرانسیسی و اسرائیلی افواج بھی یمن پر ہر طرف سے حملہ آور ہیں، بموں اور میزائلوں، مارٹر گولوں اور گولیوں کی بارش کر رہی ہیں، یمن کے مسلمانوں و عربوں کو بے جرم و خطا مار رہی ہیں، کاروباری، صحت اور تعلیمی مراکز سمیت انفراسٹرکچر تباہ کر رہی ہیں، لیکن حکومت پاکستان کو اس میں ایک آزاد و خود مختار ملک کی خود مختاری کی کوئی خلاف ورزی نظر نہیں آرہی، نہیں معلوم کیوں۔ شام کے حالات پر ’’ہائے گھوڑا‘‘ کرنے والی عجیب و غریب مخلوق کو بھی یمن کا یہ مظلوم و بے یار و مددگار مسلمان یاد نہیں۔ غزہ کے محاصرے سے زیادہ سخت ناکہ بندی تو یمن کی کی گئی ہے، لیکن کوئی یمن کے غیرت مند فرزندوں کی لفظی حمایت پر بھی آمادہ نہیں۔

چلیں چھوڑیں، یمن بے چارہ تو زیدی حوثی و شافعی اور ان کے اتحادیوں کا ملک ٹھہرا، یہاں آپ کا مسلک آڑے آرہا ہوگا، مقبوضہ بیت المقدس، غزہ و مغربی کنارے میں تو مسلکی اختلاف کا بھی کوئی چکر نہیں ہے، وہاں کے آپ کے ہم مسلک مظلوم مسلمانوں پر جارحیت کرنے والے، انکے حقوق کو پامال کرنے والے اسرائیل اور اسرائیل کے عالمی سرپرست امریکہ اور اس کے اتحادی سعودی و اماراتی حکمرانوں کے خلاف بھی آپ چپ سادھے بیٹھے ہیں، کہیں تو چپ کا روزہ توڑیں۔ کہیں تو انسانیت، مسلمانیت اور عربیت کا مظاہرہ کریں، لیکن ایسا کچھ بھی ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اقوام متحدہ کی وہ جنرل اسمبلی جس کی قرارداد کی کوئی قانونی حیثیت ہی نہیں اور جس پر عمل کرنے کا کوئی پابند ہی نہیں، وہاں سے ایک مذمتی قرارداد کو منظور کر لینے سے فلسطینیوں کو آزادی نہیں مل گئی، نہ غزہ کا محاصرہ ختم ہوا، نہ ہی امریکہ نے مقبوضہ یروشلم سے اپنا سفارتخانہ دوبارہ تل ابیب پہنچا کر تل ابیب ہی کو پہلے کی طرح اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے لگا۔ نام نہاد عالمی برادری کے ان کاغذی چونچلوں سے نہ تو فلسطینیوں کو کچھ ملا ہے اور نہ ہی یمنیوں کو۔ وہ آج بھی جارحیت کا شکار ہیں۔ یمن کو نہ سہی لیکن فلسطین کو اسرائیل کے آگے سرنگوں کروانے کے لئے آنے والے امریکی صدر کے داماد جاریڈ کشنر اور دوسرے معتمد گرین جیسن بلیٹ کے موجودہ دورہ مشرق وسطیٰ کے خلاف ہی عالم اسلام کا یہ مخصوص طبقہ صدائے احتجاج بلند کر دیتا، اس پر بھی خاموشی کیوں ہے۔؟

کھلے دشمنوں اور ارد گرد خائنوں کے لشکروں کے پیش نظر دنیا کے مظلوم اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ انہیں اپنی جنگ خود ہی لڑنا پڑے گی۔ جب جب ملتیں اس نتیجے پر پہنچیں اور دشمنوں کے خلاف قیام کیا، انہیں کامیابی ملی۔ لبنان میں قابضین کو اقوام متحدہ، عرب لیگ، او آئی سی وغیرہ نے نکال باہر نہیں کیا تھا اور نہ ہی ملت ایران نے امریکی سامراج کے اثر و نفوذ سے نجات ان اداروں کے توسط سے حاصل کی، یہ وہ سبق ہے، جس کو غیرتمندوں نے ازبر کر لیا ہے۔ جو کوئی ان دشمنوں کے دوستوں اور مددگاروں کو اپنا دوست اور مددگار سمجھنے کی غلطی کر بیٹھا تو تاریخ میں ملا عمر، صدام و قذافی کی طرح عبرت ناک مثال بن گیا۔ اپنوں کو بھی کام نکلنے کے بعد نہیں چھوڑا، کیونکہ نہ تخت چھوڑے نہ تاج، یہ ہے امریکی سامراج اور اسکے اتحادی۔ جنگیں جھوٹے پروپیگنڈا سے جیتنے کا وقت بھی تمام ہوا۔ پروپیگنڈا یہ ہے کہ حدیدہ پر سعودی و اماراتی افواج کی قیادت میں لڑنے والوں کے کنٹرول میں آچکا ہے، لیکن جس ایئرپورٹ پر انکا قبضہ ہے تو اس پر بمباری کس غم میں کر رہے ہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ یمن کا دفاع کرنے والی غیرت مند فوج اور اس کی مدد کرنے والے رضاکار (حرکت انصاراللہ و دیگر) نے اس پورے صوبے حدیدہ میں غیر ملکی افواج اور انکی قیادت میں پراکسی وار (یعنی نیابتی جنگ) لڑنے والوں سے مقابلے کے لئے اپنی پانچ فیصد افرادی قوت کو مقرر کیا ہے۔ اگر صنعاء سمیت یمن کے بیشتر حصوں پر حکومت کرنے والے یہ یمنی یعنی انکی فوج اور حوثی تحریک یاحرکت انصاراللہ اور انکے اتحادی اگر کمزور ہوتے تو کیا صرف پانچ فیصد افرادی قوت اس اہم محاذ پر استعمال کرتے۔؟

حدیدہ ایئرپورٹ تو پہلے سے ہی تباہ کیا جا چکا تھا اور اس تباہ شدہ ایئرپورٹ سے کوئی بھی فریق اپنی کامیابی کا اعلان نہیں کرسکتا، کیونکہ اصل محاذ حدیدہ بندرگاہ سمیت پوری مغربی سمندری پٹی ہے، جس کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔ لیکن بندرگاہ سے زیادہ یمن کے دارالحکومت صنعاء کا کنٹرول اہمیت کا حامل ہے اور وہاں سعودی نیابتی کرداروں کے مخالف انقلابی یمنیوں کا کنٹرول ہے۔ یمن کی جس حکومت کو سعودی و امریکی قبول کرتے ہیں، وہ صنعاء و حدیدہ پر کنٹرول نہیں رکھتے اور جس حکومت و انتظامی ڈھانچے کو اس وقت مھدی المشاط صدر (رئیس المجلس السیاسی الاعلیٰ)، ڈاکٹر عبدالعزیز حبتور وزیراعظم، یحییٰ علی الراعی اسپیکر پارلیمنٹ اور عبدالسلام صالح ھشوال نائب اسپیکر پارلیمنٹ کی حیثیت سے چلا رہے ہیں، لیکن یہ غیر ملکیوں کو قبول نہیں ہے، کیونکہ سعودی عرب نے پہلے علی عبداللہ صالح اور اس کے بعد منصور ہادی عبد ربہ کے ذریعے یمن پر حکومت کی اور اب یہ مزے ختم ہو چکے ہیں۔ سعودی عرب چاہتا ہے کہ جس طرح لبنان میں سعودی عرب کا شہری سعد حریری وزیراعظم بنتا ہے اور جب نامزد ہوتا ہے تو فوری طور ریاض کی فلائٹ پکڑ کر شاہ آل سعود کی قدم بوسی کے لئے حاضری بھرتا ہے۔ جب اسے آل سعود کہتے ہیں تو وزارت عظمیٰ سے سعودی عرب میں بیٹھ کر مستعفی ہونے کا اعلان کرتا ہے۔ اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ یمن کا نیا حکمران بھی سعد حریری کی طرح ہو کہ ڈکٹیشن لینے بنفس نفیس سعودی بادشاہ یا ولی عہد کی خدمت میں حاضری دے۔ منصور ہادی عبد ربہ کو بھی سعودی عرب کی سرپرستی میں ہی زندگی گزارنا اچھا لگتا ہے۔

تازہ ترین خبر یہ ہے کہ یمن کے عوامی انقلاب کے قائد سید عبدالملک حوثی نے بدھ کے روز واضح کیا ہے کہ غیر ملکی افواج نے حدیدہ بندرگاہ (سمیت مغربی ساحلی پٹی) پر کنٹرول کے لئے حملے چھ روز قبل شروع نہیں کئے بلکہ یہ غیر ملکی حملے دو سال سے زائد عرصے سے جاری ہیں۔ انہوں نے کہا کہ وہ حدیدہ بندرگاہ پر اقوام متحدہ کے نگرانی، تیکنیکی اور لاجسٹک کردار کو خوش آمدید کہتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اقوام متحدہ جھوٹا ہے اور غلط اور بے بنیاد بہانوں کو جواز کے طور پر پیش کرتا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ باب المندب سے لے کر اس مغربی ساحلی پٹی پر گذشتہ بتیس ماہ سے غیر ملکی افواج کے حملے جاری تھے، البتہ اتنا اسلحہ، پیسہ اور افرادی قوت استعمال کرنے اور مقامی خائنوں کی سہولت کاری کے باوجود وہ اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ سعودی، اماراتی، امریکی و اسرائیلی افواج نے اس جنگ میں اپنے بڑے افسران گنوائے ہیں اور اگلا مرحلہ جارحیت کرنے والوں کے لئے زیادہ دردناک اور زیادہ نقصان دہ ہوگا۔ انکے مطابق مغربی سمندری پٹی کا ایک بڑا حصہ اب بھی آزاد ہے اور یمن کے انقلابی عوام کے کنٹرول میں ہے۔ سید عبدالملک الحوثی نے کہا کہ حدیدہ بندرگاہ پر آنے والے ہر بحری جہاز کا جبوتی میں اقوام متحدہ اور سعودی و اتحادی افواج میں معائنہ کیا جاتا ہے، اس لئے جارح افواج کا یہ الزام بھی جھوٹ پر مبنی ہے کہ حدیدہ بندرگاہ پر ایران سے اسلحہ آتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بغیر کسی جواز کے جارح افواج کی جانب سے روز مرہ کے استعمال اور دیگر ضروری استعمال کی چار سو اشیاء یمن لانے پر پابندی لگا رکھی ہے اور ان جارح افواج کی جانب سے امدادی کارروائی کرنے والے ادراوں پر بھی بمباری کی جا رہی ہے، انہیں بھی تباہ کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے یمن میں انسانی امداد کی کارروائیاں شدید متاثر ہیں اور یہ حملے انکے لئے خطرہ ہیں۔

انکا کہنا تھا کہ مغربی سمندری پٹی میں جارح غیر ملکی افواج اور انکے سہولت کاروں کی حالت دگرگوں ہے، وہ محاصرے میں ہیں اور ہر لمحہ (انقلابیوں کے جوابی حملوں کا) ہدف بن رہے ہیں۔ زمینی راستے سے اگر وہ داخل ہونے کی کوشش کریں گے تو وہاں بھی ان کا مقابلہ کیا جائے گا۔ یمنی انقلاب کے قائد نے کہا کہ یمن کی غیر متزلزل قوت ارادی ختم نہیں ہوگی۔ یمن کی صورتحال وہ نہیں، جو سعودی و اماراتی یا مغربی ذرائع ابلاغ کے توسط سے بتائی جا رہی ہے، بلکہ یمن میں تاحال یمنی عوامی انقلاب کے حامیوں کا پلڑہ بھاری دکھائی دیتا ہے۔ یمن افغانستان، عراق و لیبیا کی طرح سقوط نہیں کر گیا بلکہ یمن کے عوام نے ایک نئی مثال دنیا کے سامنے پیش کی کہ کٹھ پتلی حکمرانوں سے نجات حاصل کرلی اور غیر ملکی افواج سے بھی اللہ کے آسرے پر لڑ رہی ہے۔ تاحال یمن کی انقلابی قیادت قومی مفاہمت کے لئے آمادہ ہے، لیکن اقوام متحدہ مکمل طور جانبداری کا مظاہرہ کر رہا ہے، جس کی وجہ سے یمن میں نہ تو جنگ بندی ہو رہی ہے اور نہ ہی سیاسی مفاہمت۔ ضد اور ہٹ دھرمی انقلابی عوام کے غیر ملکی مخالفین اور انکے مقامی طفیلیوں کی طرف سے ہے، جو انقلابی قیادت کو کسی طور مستقبل کے سیاسی سیٹ اپ میں شریک اقتدار نہیں دیکھنا چاہتے۔

سعودی، اماراتی، امریکی و اسرائیلی آقاؤں نے مقامی طفیلیوں کو یہ سبق رٹایا ہے کہ کسی طور مفاہمت نہ کریں۔ جنگ کی طوالت خود دنیا کی بڑی طاقتوں کے کھوکھلے پن کو ظاہر کر رہی ہے۔ یمن میں انسانیت کے خلاف جرائم و جنگی جرائم کا ارتکاب کرنے والے غیر ملکی جارحین اور انکے سہولت کار یمن کے انقلابی عوام پر آشکار ہوچکے ہیں، لیکن یمن کے ان مظلوم انقلابیوں کا سوال یہ ہے کہ اسرائیل کے سرپرست و مددگار امریکہ کے اتحادی سعودی و اماراتی فوجی اتحاد کے خلاف عالم اسلام کیوں خاموش ہے۔ آج مشرق وسطیٰ و افریقہ میں مسلمانوں کے حالات یہ سمجھنے کے لئے کافی ہیں کہ لبیا، فلسطین، شام، لبنان و عراق تا یمن، دشمن ایک ہی ہے۔ جی ہاں! عالم اسلام کو داخلی خانہ جنگی، تکفیریت و غیر ملکی جارحیت کا نشانہ بنانے والوں کا ہدف ایک ہی ہے کہ کسی صورت اسرائیل کا کوئی مخالف ملک یا گروہ طاقتور نہ رہے، کوئی اسرائیل کو نقصان پہنچانے کا سوچ بھی نہ سکے اور سب کو اپنی جان کے لالے پڑے ہوں۔ اس لئے پورے عالم اسلام کو ہی مصروف کر دیا گیا ہے کہ وہ اپنے مسائل میں ہی الجھے رہیں۔ لازم ہے کہ کسی صورت یہ ناقابل تردید حقیقت فراموش نہ کریں کہ مسلمان و عرب ممالک کے ان مسائل کو ایجاد کرنے والے اور انکی کمک کرنے والے بظاہر یہ سب الگ الگ ملک یا حکمران نظر آرہے ہیں، مگر یہ سب حقیقتاً ایک ہی ہیں۔ جی ہاں! دشمن ایک ہی ہے، نام امریکہ، برطانیہ و فرانس ہو یا اسرائیل یا پھر آل سعود و اماراتی شیوخ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن فیصلہ دنیا کے غیرت مند انسانوں اور خاص طور مسلمانوں اور عربوں نے کرنا ہے کہ اس ’’ایک‘‘ دشمن کے خلاف وہ کب ایک ہوں گے۔؟ /۹۸۸/ ن۹۴۰

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬