17 September 2018 - 13:33
News ID: 437138
فونت
۶۰ ہجری کا معاشرہ کتابِ خدا اور سنت رسولؐ سے دور اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کا شکار ہوچکا تھا اور یہی باتیں امام حسین ؑ کے قتل اور واقعہ کربلا کا باعث بنیں۔
امام حسین

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق کربلا اور امام حسین ؑ حقیقت میں خالص اسلام محمدی کے پیروکاروں کی میراث تھی اور آئمہ نے اس میراث کو عزاداری کے خوبصورت پیرائے میں محبانِ اہلبیت ؑ کو امانت کے طور پر دیا تھا، لیکن تاریخ کا طالب علم یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہے کہ اس امانت کو نہ صرف کماحقہ دوسری نسلوں میں منتقل کرنے میں کوتاہی ہوئی ہے بلکہ اس انقلاب کے حقیقی اہداف کو بھی واضح اور شفاف طور پر بیان نہیں کیا گیا۔ ع

لماء اور دانشوروں نے حتی المقدور کوشش ضرور کی، لیکن حقائق فرسودہ روایات اور منحرف نظریات کے پیچھے چھپا دیئے گئے۔ کربلا کے انقلاب کے بعد حضرت زینب ؑ نے اس انقلاب کے پیغام کو اس کے تمام حقائق کے ساتھ کوفہ کے بازاروں اور اموی درباروں میں انتہائی دلیری اور مؤثر انداز میں پیش کیا۔ حضرت زینبؑ سے لے کر مہدیؑ برحق تک یہ سلسلہ جاری ہے اور تاابد جاری رہے گا۔

کربلا کی تحریک کو عزاداری کے پلیٹ فارم سے بیان کرنے کا طریقہ کار ہمیں آئمہ اہلبیت ؑ کی سنت مقدسہ سے ملتا ہے، لیکن وقت کے ساتھ ساتھ عوام الناس نے عزاداری یعنی غم حسینؑ کو اپنا اصل ہدف قرار دیتے ہوئے مقصد حسین ؑ کو پس پشت ڈال دیا۔ ہمارے ہاں واقعہ کربلا کیسے ہوا۔ کربلا کے لق و دق صحرا میں امام حسین ؑ اور ان کے عزیز و اقارب اور با وفا اصحاب کے ساتھ یزیدی لشکر نے کیسے کیسے ظلم انجام دیئے، امام حسین ؑ کا لشکر اور آپ کی ذات والا صفات پر کیسے کیسے ظلم ہوئے، اس کا ہمارے ہاں بہت ذکر ہوا لیکن ہماری مجالس میں اس بات پر کم توجہ دی جاتی ہے کہ واقعہ کربلا یا نواسہ رسول کی شہادت کیوں ہوئی۔ ہاں کربلا کیسے برپا ہوئی، اس پر تو دل کھول کر اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہیں لیکن کربلا کیوں برپا ہوئی، اس پر بہت کم غور و فکر کرتے ہیں۔

آخر وہ کونسی وجوہات ہیں کہ رسول خدا ؐ کی رحلت کے پچاس سال بعد امت محمدی نواسہ رسولؐ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کرنے پر تیار ہو جاتی ہے اور خاندانِ محمدؐ کے ساتھ کوفہ اور شام کے بازاروں میں غلاموں اور اسیروں جیسا توہین آمیز رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔ رسول خداؐ کے تربیت یافتہ اس معاشرے میں ایسی کونسی جوہری تبدیلی آگئی تھی کہ خاندانِ نبوت کے پیاروں کو پیاسا شہید کرکے خوشیاں منائی گئیں اور جشن و سرور کی محافل سجائی گئیں۔ مؤرخین نے اس کی کئی وجوہات بیان کی ہیں جن کا اجمالی ذکر کرتے ہوئے امام حسین ؑ کے خطابات، مکتوبات اور پندونصائح سے ان وجوہات کو تلاش کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔

ماہرین سماجیات کے تجزئیے کی روشنی

قبائلی جاہلیت کی واپسی، بنی ہاشم سے دیرینہ دشمنی، قدرت و اقتدار کی ہوس و خواہش، حقیقی دینی اقدار سے دوری، خواص کی بے راہروی یا غیر جانبداری، اسلام کی من مانی تشریح، اسلامی حکومت میں منافقین کے اثرورسوخ میں اضافہ، خاندانِ علی ؑ سے صدر اسلام کی جنگوں کا انتقام، کینہ پروری، مادیت پرستی کا رجحان، حقیقی اسلامی قوانین سے عدم آگاہی، قرآن و اہلبیتؑ سے دوری، اپنی ذمہ داریوں سے فرار وغیرہ وہ عوامل تھے، جو کربلا کے واقعہ کا باعث بنے۔ ان عوامل میں سے ہر ایک پر تفصیلی بات ہوسکتی ہے لیکن موضوع کو سمیٹتے ہوئے آخر ہمیں خود امام حسین ؑ کی نگاہ میں واقعہ کربلا کے جو عوامل تھے، ان کا ذکر کرتے ہیں۔

امام حسینؑ نے اپنے بھائی محمد حنفیہ کو جو وصیت کی تھی، اس میں آپؑ نے واضح طور پر اپنے قیام کا مقصد اصلاح امت قرار دیا ہے۔ یعنی امت محمدی میں ایسا بگاڑ اور انحراف آگیا تھا، جس کی اصلاح ضروری ہے۔ اس بگاڑ کے بارے میں امام حسینؑ نے دو خطوط میں اشارہ کیا ہے، جو آپ ؑ نے بصرہ اور کوفہ کے قبائل کے نام تحریر فرمائے تھے۔ اہل بصرہ کے نام خط میں آپ لکھتے ہیں ’’میرا نمائندہ میرا یہ خط لے کر تمہارے پاس آیا ہے اور میں تم لوگوں کو کتابِ خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف دعوت دیتا ہوں۔ بے شک سنت رسول اللہؐ کو زندہ درگور کر دیا گیا ہے اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کو زندہ کر دیا گیا ہے، اگر تم میری دعوت پر لبیک کہتے ہوئے میری پیروی کرو تو میں تم کو راہِ راست کی ہدایت کروں گا۔" اس خط سے واضح ہو رہا ہے کہ 60 ہجری کا معاشرہ کتابِ خدا اور سنت رسولؐ سے دور اور زمانہ جاہلیت کی بدعتوں کا شکار ہوچکا تھا اور یہی باتیں امام حسین ؑ کے قتل اور واقعہ کربلا کا باعث بنیں۔

امام حسینؑ نے کوفہ کے قبائل کے نام جو خط مرقوم فرمایا تھا، اس میں آپ ارشاد فرماتے ہیں۔ "امام صرف وہی ہے جو کتابِ الہٰی کے مطابق حکومت کرے، عدل و انصاف کو قائم کرے۔ ملک، معاشرے اور قانون کی حق کی طرف رہنمائی کرے اور خود صراطِ مستقیم اور راہِ خدا پر گامزن رہ کر اپنے نفس کی حفاظت کرے۔" اس خط میں بھی امام حسین ؑ اقتدار میں موجود حکمرانوں کو آئینہ دکھا رہے ہیں اور عوام کو بھی متوجہ کر رہے ہیں کہ اسلامی حکومت اور اسلامی حاکم کے فرائض اور ذمہ داریاں کیا ہیں۔ اس دور کا حکمران چونکہ ان صفات سے تہی دست ہوچکا تھا، اس کے لئے ایسے کسی شخص کا وجود ہرگز قابلِ قبول نہیں تھا، جو اس کی حکمرانی کے راستے میں رکاوٹ بنے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ تمام قوتیں جو امام حسینؑ سے خطرہ محسوس کرتی تھیں، وہ آپ کے خلاف مل کر صف آراء ہوگئیں اور نتیجہ کربلا کے دلخراش سانحے کی صورت میں وقوع پذیر ہوا۔

امام حسینؑ نے کربلا جاتے ہوئے ’’بیضہ‘‘ کے مقام پر ایک تاریخی خطبہ دیا اور اپنے ساتھ شریک عوام کو بلواسطہ یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ تم پر کون سے لوگ مسلط ہیں اور ان کی وجہ سے معاشرہ کس طرح کے انحراف کا شکار ہے اور اگر تم نے اس انحراف کو نہ روکا تو تم بھی ان حکمرانوں کے ساتھ محشور ہوگے۔ بیضہ وہ مقام ہے جہاں حر ابنِ یزید ریاحی کا لشکر بھی آپ کا راستہ روکنے کیلئے آپؑ کے قریب آگیا تھا۔ آپ نے اس لشکر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا: ’’اے لوگو! رسول خدا ؐ کا فرمان ہے کہ جو شخص کسی جابر و ظالم حاکم کو دیکھے، جو حرام خدا کو حلال جانتا ہو، قانون خدا کو توڑنے والا ہو، سنت رسول ؐ کا مخالف ہو اور مخلوقِ خدا میں گناہ و سرکشی سے حکومت کرنے والا ہو تو پھر وہ اپنے قول و فعل سے اس کے خلاف حکمت عملی اختیار نہ کرے تو خداوندِ عالم اس سکوت و جمود اور خاموشی اختیار کرنے والے شخص کا ٹھکانہ اُس ظالم سلطان کے ساتھ قرار دے گا۔"

اس خطبہ میں جہاں دشمن کے لشکر کو یزید کے خلاف قیام کی دعوت ہے، وہاں اُس دور کے حکمرانوں کی صفات بھی بیان کی جا رہی ہیں۔ جب ایسے حاکم برسرِ اقتدار ہوں تو اپنے اقتدار کو بچانے کیلئے نواسہ رسول اور خاندانِ نبوت کے افراد کو قتل کرنے میں ذرا برابر تاخیر نہیں کرسکتے۔ اس طرح کے حکمرانوں اور حواریوں کا ہوسِ اقتدار کربلا جیسے تکلیف دہ واقعہ کا ذمہ دار بنتا ہے۔ اقتدار کا نشہ ہر طرح کے خیر و شر کی تمیز کو یکسر بھلا دیتا ہے۔ تاریخ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ اقتدار کیلئے بیٹے نے باپ کو اور باپ نے بیٹے کو قتل کرنے سے دریغ نہ کیا اور یزید کیلئے اقتدار سب سے زیادہ عزیز شے تھی۔ اُس نے کربلا میں نواسہ رسول ؐ کے خلاف ظلم و جور کا جو بازار گرم کیا، اُسکے پیچھے اقتدار کی شہوت سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔

واقعہ کربلا کے عوامل میں کئی کتابیں تحریر کی جاسکتی ہیں، لیکن ہم آخر میں صرف اتنا کہتے ہیں کہ انحراف ایک رات میں نہیں آتا۔ کوئی بھی مؤمن شخص باطل راستے پر آنے کیلئے کئی مراحل سے گزرتا ہے۔ یہ مراحل سماجی، سیاسی، اقتصادی، فوجی، نفسیاتی اور انواعِ اقسام کے ہوسکتے ہیں، لیکن اس پر سب متفق ہیں کہ کوئی ایک رات میں یزید نہیں بن سکتا اور نہ ہی عمر ابنِ سعد اور شمر و خولی جیسا انسان نما درندہ بن سکتا ہے۔ معاشرے کے اتار چڑھاؤ بلکہ زندگی کی تلخ و شیریں آزمائشیں اس کی سوچ کو بدلتی ہیں، وہ پہلے مرحلے میں اپنے عقائد اور افکار و نظریات کے بارے میں شک و تردید کا شکار ہوتا تھا، جب عقائد میں اپنی حقیقی راہ کو گم کر بیٹھتا ہے تو پھر اس کی سوچ کا انداز بدلنے لگتا ہے۔ سوچ کے انداز میں تبدیلی اس کے رفتار و کردار اور رہن سہن پر اثر انداز ہوتی ہے، جس کا نتیجہ انسانی آئیڈیل یا مثالی نمونوں میں تبدیلی کی صورت میں وقوع پذیر ہوتا ہے۔ انسان جب اپنے مثالی نمونوں اور آئیڈیالوجی سے دور ہونا شروع ہو تو اسے یزید اور امام حسین ؑ صرف دو شہزادے نظر آنے لگتے ہیں، جو اقتدار کے لئے برسرِ پیکار ہیں۔

انسان اپنی آئیڈیالوجی کو یک دم نہیں چھوڑتا بلکہ مصلحتوں کے نام سے یا دوسرے ہتھکنڈوں سے اس آئیڈیالوجی میں تحریف کی جاتی ہے۔ تحریف کا سلسلہ شروع میں متوازی ہوتا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انحراف اور حقیقی راستے میں 180 درجے کا فرق آجاتا ہے۔ رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای اس بارے میں فرماتے ہیں۔ ’’انحراف کی دو قسمیں ہیں، ایک انحراف یہ ہے کہ لوگ بدعنوان اور باطل راستے پر گامزن ہو جائیں، اکثر اوقات ایسا ہی ہوتا ہے، لیکن لوگوں کے منحرف ہونے سے اسلامی تعلیمات ختم نہیں ہوتیں۔ دوسری قسم کا انحراف یہ ہے کہ لوگوں کے منحرف ہونے کے ساتھ ساتھ حکومت بھی فاسد اور خراب ہو جائے اور علماء کرام اور خطباء حضرات بھی انحراف کا شکار ہو جائیں، ایسی صورت حال میں ان منحرف لوگوں سے صحیح و سالم دین کی توقع نہیں رکھی جا سکتی، کیونکہ ایسے لوگ قرآن مجید اور اسلامی تعلیمات میں انحراف کرتے ہوئے اچھے کو برا اور برے کو اچھا، منکر کو معروف اور معروف کو منکر بنا کر پیش کرتے ہیں۔ اسلامی تعلیمات کو اسلام کے بتائے ہوئے راستے سے 180 درجہ الٹا پیش کرتے ہیں۔‘‘

60 ہجری کا معاشرہ اس حالت کو پہنچ گیا تھا، جس کی طرف رہبرِ انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے اشارہ فرمایا۔ ایسے معاشرے میں جب کوئی حق کی آواز اٹھاتا ہے تو اس کے خلاف 61 ہجری جیسی کربلا کی صورتحال پیش آتی ہے۔ لیکن جب علماء، خطباء، دین کی پہچان سمجھی جانے والی شخصیات مختلف حیلے بہانوں سے منحرف ہو جائیں اور اسلام کے آسمانی و الہٰی نظام کے نفاذ کی بجائے سیکولر نظام کی تقویت میں مصروف ہو جائیں تو نواسہ رسول امام حسین ؑ کے پیروکاروں کے لئے امام حسین ؑ کے خط اور راستے کو اپنانا واجب ہو جاتا ہے، چاہے اس کے لئے کربلا جیسی قربانیاں ہی کیوں نہ دینا پڑیں۔/۹۸۹/ف۹۵۵/

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬