17 April 2014 - 10:45
News ID: 6655
فونت
رسا نیوز ایجنسی - بحیرہ روم کے مشرقی کنارے پر واقع سرزمین شام عرب کی تاریخ میں اپنی ایک جداگانہ شناخت رکھتی ہے ۔ اس کے شمال میں ترکی ہے، مشرق اور جنوب مشرق میں سلطنت عراق ہے، جنوب میں اردن ہے اور جنوب مغرب میں لبنان اور اسرائیل کی ریاستیں قائم ہیں۔ ۔
شام

 

تحریر: ڈاکٹر ساجد خاکوانی
 

ملک شام کا کل رقبہ ساڑھے اکہتر ہزار مربع میل ہے، اس رقبہ میں جولان کی وہ پہاڑیاں بھی شامل ہیں جن پر 1967ء سے اسرائیل کی ناجائز ریاست نے قبضہ کیاہواہے۔ دمشق جیسا قدیم تہذیب کا حامل شہر اس ملک کا دارالحکومت ہے، یہ اس ملک کا سب سے بڑا شہر ہونے کے ساتھ ساتھ صنعتی ، تعلیمی اور ثقافتی مرکز بھی ہے۔ ملک شام کی سرزمین پہاڑوں اوروسیع صحراؤں کامجموعہ ہے، علوم جغرافیہ والے اسکے صحرا کو ’’صحرائے شام‘‘ بھی کہتے ہیں۔ ترکی سے شروع ہونے والا ایک دریا ملک شام میں داخل ہوتا ہے جو یہاں کے لئے قدرتی پانی کا واحد بڑا ذریعہ ہے، 973میں حکومت نے اس دریا پر بند باندھ کر ’’اسدجھیل‘‘کے نام سے پانی کا ایک بہت بڑا ذخیرہ بنالیا جسے اب متعدد مقاصد کے لئے استعمال کیاجاتاہے۔ پہاڑی علاقوں میں چھوڑی بڑی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جوعلاقے کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں۔ یہاں کا موسم خشک اورگرم ہے، پہاڑی علاقوں کی چوٹیوں پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم، بارشوں کی سالانہ اوسط بھی تیس سے چالیس انچ سالانہ سے زیادہ نہیں۔ سال میں ایک دو دفعہ ریت کے ایسے طوفان بھی اٹھتے ہیں کہ آسمان سیاہ ہوجاتا ہے۔ 962 میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد سے اب تک تیل ہی ملک شام کی سب سے نقد آور صنعت ہے ۔


ملک شام ایک عرصہ تک یونانیوں اوررومیوں کے زیرتسلط رہا جس کے اثرات وباقیات آج تک بھی کچھ دیہی علاقوں میں موجود ہیں، پھر اسلام سے روشناس ہوا اور 32ھ میں خالد بن ولید نے دمشق فتح کیا۔


آغاز اسلام کی بہت ہی دلچسپ تاریخ ملک شام کے گلیوں اور بازاروں میں رقم ہوتی رہے۔ چار سوسالوں تک یہاں عثمانی ترکوں کی حکومت بھی رہی لیکن اس سارے عرصے میں ملک شام پر عرب ثقافت کی برتری قائم رہی اور قدیم و جدید مل کر بھی ملک شام کی عربی شناخت کو ختم تو کیا اسے کمزور بھی نہ کر سکی۔


عربوں کے علاوہ کردوں کے بھی بہت سے قبائل یہاں آباد ہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کرد بھی اب آہستہ آہستہ عربی تمدن کو ہی اختیارکر چکے ہیں، نسلی پہچان اگرچہ انکی جدا ہی ہے۔ عربی یہاں کی سب سے بڑی بولی جانے والی زبان ہے لیکن کرد زبان اور ترکی زبان کے بولنے والے لوگ بھی سرحدی علاقوں کے ساتھ ساتھ پائے جاتے ہیں۔


کم و بیش پونے دو کروڑ کی آبادی اس ملک کی سرحدوں کے اندر رہائش پزیر ہے اورآبادی میں شرح خواندگی کا تناسب 83% ہے۔ یہاں کی اکثریت بلکہ بہت بڑی اکثریت مسلمان ہے اور اسی وجہ سے ملک شام کو اسلامی ملکوں میں شمار کیاجاتا ہے ، کم و بیش 10%عیسائی بھی یہاں رہتے ہیں اور چند ہزار یہود کی تعداد بھی یہاں پر موجود ہے۔ آبادی کا نصف شہروں میں اور نصف ہی دیہاتوں میں آباد ہے۔ 948 کے بعد اسی ہزار فلسطینی ہجرت کر کے تو ملک شام میں آن آباد ہوئے تھے اور 1967میں جولان کی پہاڑیوں کے مفتوح ہوجانے کے بعد یہاں کی بہت بڑی آبادی ملک کے دوسرے حصوں میں سدھارگئی۔ 958میں کیمونزم کے معاشی نظام کو یہاں اپنا لیاگیا جس کے باعث ملکی آبادی کی بہت بڑی تعداد دوسرے عرب ممالک میں جانے پر مجبور ہو گئی شاید اس لئے کہ محمد عربی کی امت کے ملک پر کوئی دوسرا نظام کیسے پنپ سکتا ہے ، تب سے ملک کے بڑے بڑے کاروبار اور صنعتیں جن میں بجلی کی پیداواراور ریلوے بھی شامل ہے حکومت کی ملکیت ہی ہے تاہم بہت چھوٹی سطح پر نجی اداروں کو بھی کاروبار کی اجازت میسرہے۔


1973ء میں یہاں ایک آئین منظور کیا گیا جس کے مطابق ملک شام عرب کا ایک اہم حصہ ہے، آئین میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضمانت فراہم کی گئی ہے لیکن حافظ الاسد کے زمانے سے ہی بنیادی حقوق معطل چلے آرہے ہیں۔


آئین کے مطابق ملک شام کی عرب سوشلسٹ پارٹی کی قیادت ملک کے لیے صدر کا تقرر کرتی ہے اور صدر اپنی معاونت کے لیے وزراکا تعین کرتا ہے۔ حافظ الاسد یہاں کے صدر تھے ان کی اچانک وفات کے بعد ان کے صاحبزادے بشارالاسد کو تخت نشین کردیا گیا ۔


ملک میں دوصوبے بھی ہیں اوران کے گورنرز بھی تعینات کَے جاتے ہیں لیکن اختیارات کا ارتکاز مرکز پر ہی ہوتا ہے اورمرکز سے مراد صدر کی ذات با برکات ہی ہے، ملک شام کے بالترتیب تین ادارے ہیں ،سب سے بڑا دادارہ نیشنل کمانڈ، پھر ریجنل کمانڈ اور تیسرا ادارہ پیپلزکونسل ۔


ملک شام میں آٹھ سال کی عمر میں تعلیم لازمی ہوجاتی ہے ۔ اسکول کے بچوں کو حکومت کی طرف سے کتب مفت میں مہیا کی جاتی ہیں۔ پرائمری تعلیم کا دورانیہ چھ سال ہے اور اسکے بعد تین سال تک ثانوی تعلیم دی جاتی ہے۔ اس کے بعد یونیورسٹی کی تعلیم یا فنی تعلیم کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، ملک کے بڑے بڑے شہروں میں اعلی تعلیم کی جامعات 1963کے بعد سے قائم کی گئی ہیں۔ ملک شام میں فوجی تربیت تمام نوجوانوں کے لیے لازم ہے ، کالجوں کے تمام طلبہ عسکری تربیت بطور لازمی تعلیم کے حاصل کرتے ہیں۔ یہاں کی فضائیہ روس کے تعاون سے تیار کی گئی ہے اور ایک مختصر سی بحری قوت بھی بحری سرحدوں پر موجود رہتی ہے۔ فلسطینی نوجوان شام کی سرحدوں سے ہی اسرائیل کے خلاف کاروائیاں کرتے ہیں اور ان فلسطینی نوجوانوں کی تربیت کا انتظام بھی شام میں ہوتا ہے۔


1840میں یورپین افواج ملک شام کے ساحلوں پروارد ہوئیں ، یہ عثمانی ترکوں کا دور حکمرانی تھا، مسلمانوں اوریورپین کی کشمکش کا ایک طویل دور ملک شام میں جاری رہا اور آہستہ آہستہ عثمانیوں کے زوال کے ساتھ ہی یورپ کے اقتدارکا سورج ملک شام میں طلوع ہوتا گیا ۔


866 کے بعد فرانس نے اپنے تعلیمی ادارے بھی ملک شام میں کھول دیے اورعام لوگ بھی یورپی تہذیب میں رنگنے لگی، لیکن اس کے باوجود بھی مسلمانوں کی اکثریت کی ہمدردیاں سلطان کے ساتھ ہی تھیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران 1918میں یورپی افواج نے ملک شام پر قبضہ کر لیا اور عیسائی و یہودی شہریوں نے فاتح افواج کو خوش آمدیدکہا۔ مسلمانوں کی ہمدردیاں اگرچہ اب بھی عثمانیوں کے ساتھ ہی تھیں، لیکن غدار امت ’’شریف مکہ‘‘ نے مسلمانوں کی امیدوں کے برعکس اور خلافت اسلامی کی افواج کا ساتھ دینے کی بجائے برطانوی افواج کی وفاداریوں کا دم بھرنا شروع کر دیا اورصلیبیوں کے ساتھ اتحاد قائم کرلیا اوراس طرح ’’شریف مکہ‘‘ کے بیٹے کی قیادت میں ایک عرب لشکر تیار کیا گیا جس نے برطانوی کمانڈر کے تحت ملک شام کو اسلامی ترک سپاہ سے خالی کرالیا۔


معاہدے کے مطابق ملک شام کا اقتدار ’’شریف مکہ‘‘ کے بیٹے ’’فیصل‘‘ کو سونپ دیا گیا لیکن سامراج کا وعدہ کوئی وعدہ نہیں ہوتا اور جو لوگ اپنی ملت کے ساتھ وفا نہیں کرتے دشمن بھی ان کے ساتھ کبھی وفا نہیں کرتا، دو سال حکومت کا جھولا جھولنے کے بعد فرانس نے ملک شام پر قبضہ کر کے ’’فیصل‘‘  کو وہاں سے بے دخل کردیا۔ فرانس یہاں حکومت کرنے لگا اور ملک شام میں فرانسیسی انتظامیہ کے تحت متعدد انتخابات بھی ہوئے ۔


فرانس کی عملداری جاری تھی کہ دوسری جنگ عظیم کے منحوس سائے انسانیت پر مسلط ہوگئے جس کے بعد برطانیہ اور فرانس میں ایک طویل دورانیے کے مذاکرات میں مشرق وسطی کی آزادی کے اصول و ضوابط طے ہوتے رہے اور بالآخر اپریل 1946کو فرانسیسی افواج کا مکمل انخلا عمل میں آیا اور ملک شام آزاد ہوکر اقوام متحدہ اور عرب لیگ کا تاسیسی رکن بنا۔


948ء میں عالمی سامراج کی بندر بانٹ کے نتیجے میں اور’’شریف مکہ‘‘ کی غداری کے ثمرات کے طور پر اسرائیل کا ناپاک وجود سرزمین عرب میں وارد ہوگیا، اس سے جہاں پوری امت مسلمہ اور پوراعالم عرب خاص طور پر متاثر ہوا وہاں ملک شام اسکا براہ راست نشانہ بن گیا کیونکہ اسرائیل کی سرحدیں ملک شام سے بالکل منسلک کر دی گئی تھیں۔


958 سے961 تک مصر اور شام ایک ہوگئے لیکن یہ تجربہ کوئی بہت اچھا ثابت نہ ہوا اور ملک شام کے فوجی افسران نے دوبارہ اپنے ملک کو آزاد ریاست بنالیا۔

 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬