28 September 2015 - 16:35
News ID: 8493
فونت
رسا نیوز ایجنسی - ملکوں اور قوموں کی بقا کا دارومدار بے شک ایک مضبوط،جرات مند اور بلند حوصلہ فوج پر ہی ہوتا ہے۔ کاروبار و سیاست کو اگرچہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ ہی عدلیہ اور میڈیا کے کردار کو پس پست ڈالا جا سکتا ہے ۔
حجت الاسلام سيد سبطين شيرازي


تحریر : حجت الاسلام سید سبطین شیرازی


ملکوں اور قوموں کی بقا کا دارومدار بے شک ایک مضبوط،جرات مند اور بلند حوصلہ فوج پر ہی ہوتا ہے۔ کاروبار و سیاست کو اگرچہ نظر انداز نہیں کیا جا سکتا نہ ہی عدلیہ اور میڈیا کے کردار کو پس ِ پست ڈالا جا سکتا ہے ، مگر میں جس نقطے کی طرف قارئین کی توجہ لانا چاہ رہا ہوں اور ہمارے موجودہ ملکی حالات اور پھر ان حالات کے درست کرنے میں پاک فوج ما مثالی کردار ہے۔


ماضی قریب میں اگر دیکھا جائے تو ملک سے انتہا پسندی اور مسلح مذہبی تبلیغ کو روکنے کے لیے سابق جنرل پرویز مشرف نے اہم کردار ادا کیا۔ یہ پاک فوج کے سربراہ کی بصیرت ہی تھی کہ انھوں نے دہشت گردی کے خلاف شروع ہونے والی عالمی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بننے کا فیصلہ کیا۔ ان کے اس فیصلے پر بعض مذہبی اور نیم مذہبی حلقوں نے تنقید بھی کی۔ حتی کہ ان کے خلاف بغاوت کی نوبت یہاں تک آگئی کہ اسلام آباد کی ایک مسجد نے باقاعدہ ریاست کے خلاف ایک مورچے کی حیثیت اختیار کرلی۔ جوابا ریاست کو ایسے مسلح اور اغیار کے پالے ہوئے گروہوں کے خاف حرکت میںآنا پڑا اور ریاستی رٹ بحال ہوئی،بے شک اس وقت جب برقع پوش ،لٹھ بردار طالبات آبپارہ کی سڑکوں پر مارچ کرتی تھیں تو ہر ایک کا دل دھڑنے لگتا تھا کہ خدا جانے اب کیا ہونے والا ہے اور کون اغوا ہونے والا ہے۔ انھوں نے چینی باشندوں سمیت قانون نافذ کرنے والے ادارے کے اہلکاروں سمیت کئی ایک افراد کو اغوا کی۔ یہ سب دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ما سبب بن رہا تھا۔


ان خبروں نے عالمی میڈیا میں بھی اس لیے جلد جگہ بنائی کہ یہ سب نہ صرف نہ صرف پاکستان کے دارالحکومت میں ہورہا تھا بلکہ پاکستان میں ایک ایسا شخص صدر مملکت کے عہدے پر فائز تھا جس نے پاک فوج کی وردی پہن رکھی تھی، نیز پاکستان دہشت گردی کے خاف جاری جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی بھی تھا۔ قصہ کوتاہ پاکستان کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ ریاست کے باغیوں کو لگام دی جائے، سو حکومت نے وہی کیا جس کی آئین پاکستان اجازت دیتا تھا ۔ وطن کا دفاع ۔ بے شک لال مسجد کے خلاف کئے گئے آپریشن کو سیاسی رنگ بھی دیا گیا اور ہنوز بعض افراد اور قوتیں اس آپریشن پر سیاست کاری کر رہی ہیں مگر یہ لوگ بھول جاتے ہیں کہ مرحوم غازی رشید اور ان کے بڑے بھائی جان نے کہا تھا کہ اگر ریاست نے ان کی مسجد کے خلاف کارروائی کی تو وہ اسلام آباد سمیت پورے ملک کو بغداد بنا دیں گے ۔


بغداد کہنے کی وجہ یہ تھی کہ ان دنوں عالمی دہشت گرد تنظیم القاعدہ عراق کے شہر بغداد میں تسلسل سے خود کش حملے کر کے مسلمانوں کا قتل عام کر رہی تھی۔ بعد کے واقعات نے ثابت کیا کہ جو انھوں نے کہا تھا وہ سچ بھی کر دکھایا۔ یعنی انتہا پسندوں اور دہشت گردوں کا ایک پورا گروہ غازی فورس کے نام پر معرض وجود میں آیا۔ جس میں کئی ایک خود کش بمبار بھی شامل تھے۔ بے شک قبائلی علاقوں سے لے کر کوئٹہ اور کراچی تک خود کش بمباروں نے بھارتی خفیہ ایجنسیرا اور افغان ایجنسی کے تعاون سے پورے ملک میں دہشت گردانہ حملے کئے۔


پاک فوج کے کئی ایک جوان اپنے اعلی فوجی افسران سمیت خود کش حملوں کی زد میں آئے ۔ غالبا پاک فوج نے سوات میں مولوی صوفی محمد اور ملا فضل اللہ کے جارحیت کے خاف آپریشن شروع کیا جو الحمد اللہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ اسی اثنا میں مگر بعض شدت پسند جنوبی وزیرستان بھاگ گئے فوج نے ان کا پیچھا کر کے انھیں وہاں سے بھی مار بھگایا۔ لیکن دہشت گردوں نے اپنی وحشیانہ اور دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے شمالی وزیرستان کو اپنا اڈا بنالیا۔ بعض وجوہات کی بنا پر شمالی وزیرستان میں پیپلز پارٹی کے دور میں دہشت گردوں کے خلاف آپریشن نہ کیا جاسکا۔


انتخابات میں کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان نے ایم کیو ایم، اے این پی اور پیپلز پارٹی کو بطور خاص انتخابی مہم سے روکے رکھا کیونکہ یہ جماعتیں کھلے بندوں طالبان اور دیگر دہشت گردوں کی خالفت کرتی ہیں، جبکہ مسلم لیگ نون ، جماعت اسلامی ، پی ٹی آی اور مولانا فضل الرحمان کی جماعت کھلے بندوں کھلے پنڈالوں میں اپنی انتخابی مہم چلاتی رہیں، ان سب کا مشترکانہ ایجنڈا بہر حال یہی تھا کہ یہ لوگ اقتدار میں آکر کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور اس کے دیگر گروہوں سے مذاکرات کریں گے ۔


جب مسلم لیگ نون بھاری مینڈیٹ کے ساتھ وفاق، پنجاب اور بلوچستان میں حکومت میں آئی تو کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کئی ایک کوششیں کی گئیں اور کئی ایک کمیٹیاں بھی بنیں۔ ان ہی دنوں میں جب حکومت اور طالبان کے ساتھ مذاکرات ہو رہے تھے تو اسلام آباد کچہری میں دہشت گردی کی ہولناک کارروائی ہوئی، جس کے حوالے سے طالبان نے کہا کہ یہ کارروائی ہم نے نہیں کی۔ ان کا یہ بیان میڈیا میں آنا ہی تھا کہ ایک اور نئے گروہ غالبا احرار الہند نے اس دہشت گردانہ کارروائی کہ ذمہ داری قبول کرلی۔


دفاعی تجزیہ کار اس پر یہی کہتے رہے کہ یہ دراصل طالبان ہی کی کارروائی ہے جو بہتر سودا بازی کے لیے اپنی عسکری وقت کا اظہار کر کے حکومت پر دبائو ڈال رہے ہیں۔ ان ہی دنوں میں طالبان نے پاک فوج کے جوانوں کو اغوا کر کے ان کے سر قلم کر دیے جس پر فوج نے جوابی کارروائی بھی کی۔ طالبان مگر مذاکرات کے بہانے اپنی بکھری ہوئی قوت کو مجتمع کرتے رہے۔


پھر وہ منحوس لمحہ بھی آیا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے پشاور کے ایک اسکول پر حملہ کر دیا۔ یہ ایسا افسوس ناک اور درد انگیز واقعہ تھا جس نے پوری پاکستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا، اگرچہ اس سانحہ پر بھی کچھ حلقوں نے طالبان کی مذمت کرنے سے گریز کیا مگر ان مٹھی بھر شر پسندوں کے علاوہ پوری پاکستانی قوم پاک فوج کے ساتھ آن کھڑی ہوئی۔ پاک آرمی نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شمالی وزیرستان میں آپاریشن شروع کر دیا۔ یہاں اس بات کو نہیں بھولنا چاہئے کہ دہشت گردوں کی نمائندہ قیادت یعنی ملا فضل اللہ افغانستان میں چھپا ہوا تھا۔ فوج نے نہ صرف شمالی وزیرستان میں کامیاب آپریشن کیا بلکہ خیبر ایجنسی سے بھی دہشت گردوں کا قلع قمع کیا۔ ساتھ ہی ریجنر نے کراچی میں بھی آپریشن شروع کر دیا اور اس آپریشن کے بھی نہایت مثبت اثرات سامنے آ رہے ہیں۔


کراچی اور شمالی وزیرستان میں آپریشن ہنوز جاری ہیں بشمول خیبر ایجنسی آپریشن کی۔ یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ پاک فوج کے سربراہ نے یہ اعلان بھی کیا ہے کہ وہ دہشت گردوں کے سہولت کاروں اور منشیات فروشوں کا بھی قلع قمع کریں گی۔ بے شک جب تک دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں دہشت گردی اپنی کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے گی،ملک کو دہشت گردی سے پاک کرنے کے لیے یہ نہایت ضروی ہے کہ دہشت گردوں کے سہولت کارون اور ان کی مالی اعانت کرنے والوں پر بھی ہاتھ ڈالا جائے اور پاک فوج نے اس مرحلے پر اس کام کا بھی آغاز کردیا ہے۔ گذشتہ سے پیوستہ رات ترنول میں رینجرز نے جو ٹارگٹڈ آپریشن کیا وہ اس جانب اشارہ ہے کہ اب دہشت گردوں کے ساتھ ساتھ ان کے سہولت کاروں اور ان کی مالی مدد کرنے والوں کی باری ہے۔


یہ بات واضح ہے کہ جب سے پاک فوج نے دہشت گردوں کے خلاف جارحانہ کارروائی کا آغاز کیا ہے ملک میں دہشت گردی کے واقعات میں کمی آئی ہے۔ ملک کا ہر محب وطن شہری پاک فوج اور اس کی قیادت پر نازاں ہے اور ہمیں یقین کامل ہے کہ پاک فوج آخری دہشت گرد اور اس کے آخری سہولت کار تک تو نشان عبرے بنا کر دم لے گی اور ملک انشا اللہ ایک بار پھر امن و بھائی چارگی کا گہوارہ بن جائے گا۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬