14 December 2015 - 12:47
News ID: 8811
فونت
ماہِ ربیع الاوّل میں پاراچنار کے شہداء کا مقدس خون اور زائرینِ امام حسینؑ کا تقدس ملتِ پاکستان کے ہر باشعور مسلمان، تمام دینی و سیاسی تنظیموں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے نام نہاد مجاہدین اور سرکاری پوسٹوں پر بیٹھے ہوئے حرام خوروں کو مل کر بے نقاب کریں اور متحد ہوکر سزا دلائیں۔
نذر حافي سانحہ پاراچنار


تحریر: نذر حافی

انتشار و تفرقے سے اقوام کمزور اور وحدت و اتحاد سے مضبوط ہوتی ہیں۔ کمزور کی چیخیں بھی کمزور ہوتی ہیں، کمزور کی چیخوں اور احتجاجات سے نہ زمین پھٹتی ہے، نہ آسمان گرتا ہے، نہ انصاف ملتا ہے، نہ عدالتوں کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ کوئی اس کی فریاد پر کان دھرتا ہے۔ یہ ربیع الاوّل پیغمبرِ اسلام(ص) کی ولادت باسعادت کا مہینہ ہے اور اس مہینے کے آغاز پر اس وقت ملتِ پاکستان پارا چنار میں اپنے عزیزوں کی لاشوں کے ٹکڑے اٹھا رہی ہے۔

 

تفصیلات کے مطابق پارا چنار میں کھلے میدان میں لگے لنڈا بازار میں اُس وقت دھماکہ ہوا، جس وقت لوگ بڑی تعداد میں خریداری میں مصروف تھے۔ ذرائع کے مطابق دھماکہ لنڈا بازار میں نصب بارودی مواد جو کہ 35 کلو سے زائد تھا، کے پھٹنے سے ہوا۔ اگر مارنے والوں کا تعلق کسی خاص فرقے سے ہوتا تو وہ بازار میں دھماکہ کرنے کے بجائے اپنے اعتراضات کو بیان کرتے اور اپنے مطالبات پیش کرتے اور نہتے لوگوں کو درندگی کا نشانہ نہ بناتے۔


شجاع اور بہادُر انسان کبھی بھی کمزوروں، بچوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتا۔ شجاعت کا اظہار میدان میں کیا جاتا ہے۔ شجاع انسان اپنے موقف کو بیان کرتا ہے، مخالفین کے اعتراضات برداشت کرتا ہے، ناقدین کا سامنا کرتا ہے، دلیل پیش کرتا ہے اور دلیل کو قبول کرتا ہے، لیکن اس کے برعکس انسان جتنا بزدل اور پست ہوتا ہے وہ اتنا ہی سفّاک، وحشی، خونخوار اور ہٹ دھرم ہوتا ہے۔


یہ عبادت گاہوں پر حملے، اولیائے کرام کے مزارات پر دھماکے، بازاروں میں قتلِ عام اور بے گناہ لوگوں کے کشت و خون سے یہ واضح ہے کہ اس وقت ملتِ پاکستان کو انتہائی گھٹیا اور پست دشمن کا سامنا ہے۔ گذشتہ سال ہمارے انہی پست اور بزدل دشمنوں نے انہی دنوں میں پشاور کے آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے ہماری ملت کے نونہالوں کو خاک و خون میں غلطاں کیا تھا۔ یہ واقعات اس امر پر دلالت کرتے ہیں کہ سامراجی سازشوں اور طاغوتی ایجنسیوں نے ہمارے گرد گھیرا تنگ کر رکھا ہے۔


اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ جو لوگ پاکستان میں قتل و غارت کر رہے ہیں، وہ پاکستان کے دشمن ممالک کی ایجنسیوں کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں۔ دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے یہ لوگ نام نہاد مجاہدین کے کیمپوں میں بھی اور سرکاری پوسٹوں پر بھی بیٹھے ہوئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پورے پاکستان میں خون بہانے اور خون پینے کا عمل زور و شور سے جاری ہے۔


ملت پاکستان کے ساتھ جس پستی اور درندگی کا مظاہرہ نام نہاد مجاہدین کر رہے ہیں، اسی   کمینگی اور ذلت کو سرکاری اہلکار بھی اپنائے ہوئے ہیں۔ جس کا ایک نمونہ یہ ہے کہ پاکستان سے ایران آنے والے زائرین کی لوٹ مار کا سلسلہ یوں تو ایک عرصے سے جاری ہے، لیکن گذشتہ چند سالوں میں اس میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔ ابھی چند روز پہلے یعنی دو دسمبر کو میڈیا نے یہ خبر نشر کی کہ زائرین کو زبردستی پاکستان ہاؤس میں رکھ کر 5 ہزار زائرین سے چارجز کے نام پر 100 روپے کے حساب سے پانچ لاکھ وصول کئے گئے، جس کے بعد حجت الاسلام عارف حسین واحدی مرکزی سیکرٹری جنرل شیعہ علماء کونسل کی طرف سے مذمتی بیان پڑھنے کو ملا:


حجت الاسلام عارف حسین واحدی مرکزی سیکرٹری شیعہ علماء کونسل نے کہا کہ پہلے تو کوئٹہ میں سکیورٹی کے نام پر بلاجواز ہزاروں زائرین کو ایک ہفتہ تک روکے رکھا، جو ملک کے مختلف شہروں میں احتجاجی پریس کانفرنسز و ریلیوں اور اعلٰی سطحی رابطوں کے بعد زائرین کوئٹہ سے روانہ ہوئے، لیکن تفتان بارڈر پہنچنے پر زائرین کو بلاجواز پاکستان ہاوس میں زبردستی روکے رکھنا شہری حقوق کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔


انہوں نے کہا کہ کوئٹہ سے تفتان 8 گھنٹے کا سفر ہے، لیکن زیادتی یہ ہے کہ کانوائے میں 20 گھنٹے سے زائد لگائے جاتے ہیں، زائرین کوئٹہ سے گذشتہ رات تین بجے کے قریب تفتان بارڈر پہنچے، جہاں زائرین کو زبردستی پاکستان ہاؤس میں بٹھایا گیا اور ہر قافلے سے چھ سے دس ہزار روپے جو تقریباً فی زائر 100 روپے کے حساب سے پانچ لاکھ کے قریب بنتے ہیں، چارجز وصول کئے گئے۔ رقم لینے کے باوجود پاکستان ہاوس میں زائرین کیلئے نہ تو سونے کی جگہ ہے اور نہ ہی بیٹھنے کی ۔


علاوہ ازیں پاکستان ہاوس میں تمام بنیادی سہولیات کا فقدان ہے، ایسا لگتا ہے کہ زائرین کو ایک خصوصی جیل میں بند کردیا گیا ہو۔ پاکستان ہاؤس کے گیٹ بند ہیں، زائرین کے باہر جانے پر حتیٰ کہ ایف آئی اے کے دفتر تک بھی جانے کی پابندی ہے۔


حجت الاسلام عارف واحدی نے کہا کہ افسوس ناک امر یہ ہے کہ اپنے ہی ملک میں بیمار مسافر زائرین علاج معالجہ کے لئے مجبور ہیں کہ وہ علاج کیلئے بھی باہر نہیں جا سکتے۔ بچے، خواتین، مرد سب تکلیف دہ عمل سے گزر رہے ہیں۔


انہوں نے بتایا کہ تفتان بارڈر پر ایف سی کے ایک صوبیدار رینک افسر کی اجارہ داری ہے، جس کا رویہ نہایت ظالمانہ ہے۔ تفتان بارڈر پر زائرین انتہائی کسمپرسی کے عالم میں بے یارو مددگار پڑے ہیں اور ذلیل و خوار ہو رہے ہیں۔


اس سے پہلے 22 نومبر 2015ء کی بات ہے کہ جب پاکستان سے قم پہنچنے والے زائرین نے ایم ڈبلیو ایم کے سیکرٹری جنرل حجۃ الاسلام گلزار احمد جعفری اور دیگر مسئولین سے ملاقاتوں کے دوران بتایا کہ پاکستان سے ایران آنے والے زائرین کو ستانا اور لوٹ مار کرنا سرکاری کارندوں کا معمول بن چکا ہے، کانوائے کو رشوت بٹورنے کے لئے ایک ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔


ٹرانسپورٹر حضرات سواریوں سے چندہ اکٹھا کرکے سرکاری چوکیوں پر رشوت جمع کراتے ہیں۔ قدم قدم پر زائرین کو رشوت لینے کے لئے ہراساں کیا جاتا ہے۔ کہیں پر کوئی پرسانِ حال نہیں ہے۔ زائرین نے افسوس کرتے ہوئے کہا کہ اب تو پاکستان آرمی کے جوان بھی پولیس کی طرح رشوت کی دوڑ میں شامل ہوگئے ہیں۔


اس طرح کی صورتحال ابھی تک جاری ہے کہ زائرین کو سرکاری اہلکار دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہے ہیں۔ ابھی آج ہی ایک صاحب پاکستان پہنچے ہیں، انہوں تفتان روٹ کی تازہ ترین اطلاع دی ہے کہ  زائرین کو ستانے اور رشوت خوری کا سلسلہ جوں کا توں جاری ہے۔


میرے خیال میں ماہِ ربیع الاوّل میں پاراچنار کے شہداء کا مقدس خون اور زائرینِ امام حسین کا تقدس ملتِ پاکستان کے ہر باشعور مسلمان، تمام دینی و سیاسی تنظیموں سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ وہ دشمن کے ایجنڈے پر کام کرنے والے نام نہاد مجاہدین اور سرکاری پوسٹوں پر  بیٹھے ہوئے حرام خوروں کو مل کر بے نقاب کریں اور متحد ہوکر سزا دلائیں۔


اگر ہم متحد ہوجائیں تو یہ سب ہوسکتا ہے اور اگر ہم متحد نہ ہوں تو ایسا کبھی بھی نہیں ہوسکتا۔ اس وقت پوری ملت پاکستان کو اپنے پست اور گھٹیا دشمنوں کے خلاف متحد ہوکر ایک سیاسی و عملی قیام کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہم متحد نہیں ہونگے تو کمزور ہی رہیں گے اور کمزور کی چیخیں بھی کمزور ہوتی ہیں، کمزرو کی چیخوں اور احتجاجات سے نہ زمین پھٹتی ہے، نہ آسمان گرتا ہے، نہ انصاف ملتا ہے، نہ عدالتوں کے دروازے کھلتے ہیں اور نہ کوئی اس کی فریاد پر کان دھرتا ہے۔
 

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬