‫‫کیٹیگری‬ :
22 February 2017 - 15:06
News ID: 426473
فونت
توہین شعائر کے عنوان سے مزارات انبیاء و اولیاء کو اڑانا۔۔۔۔ بے گناہ لوگوں کا خون بہانا۔۔۔۔۔ قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنا۔۔۔۔۔ فتنہ و فساد کا برپا کرنا۔۔۔۔ یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ فکر داعش۔۔۔۔ فکر خوراج و ابن تیمیہ و عبدالوہاب سے ہٹ کر کوئی دوسری فکر نہیں۔۔۔۔۔ لٰہذا اس فکر کے حامل افراد کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت زندہ ہیں۔۔۔۔ اور تمہارے ان فتنہ گر نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور یاد رکھو کہ ملت پاکستان بیدار ہے۔۔۔۔۔ ملت کا ہر فرد۔۔۔۔ بچہ، بوڑھا، جوان، مرد و عورت۔۔۔۔ سب بیدار ہیں۔۔۔۔ یہ سرزمین پاکستان ہے۔۔۔۔ اور اس پر افواج پاکستان کا سایہ ہے۔۔۔۔ وہ فوج کہ جس کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے۔۔۔۔۔ آج دنیا تمہارے اصلی و ناپاک چہرے سے واقف ہے۔۔۔۔۔ مزارات اولیاء۔۔۔۔۔ ہمارے بچے سکول جاتے ہیں اور ہمارے کھیل کے میدان آج بھی کھلے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں ہیں تم کہاں ہو۔۔۔۔۔۔؟؟
ساجد علی گوندل

 
تحریر: ساجد علی گوندل
 

ابتداء کائنات سے ہی انسانی کمال و ترقی کے نام سے بہت ساری تحریکوں نے جنم لیا، عروج و زوال دیکھا، وہ تحریکیں کہ جن کی بنیاد و اساس کمزور تھی، دنیا کے سینے سے مٹتی چلی گئیں۔۔۔ حتٰی ان کے اثرات تک باقی نہ رہے۔ مگر جیسے ہی دنیا میں کوئی بھی تحریک یا تنظیم سر اٹھاتی ہے، اس کے ظہور کے ساتھ ہی چند بنیادی سوالات ذہن انسانی میں جنم لیتے ہیں۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔۔؟؟ اس کے پیچھے کیا عوامل، اسباب و محرکات کار فرما ہیں۔۔۔۔؟؟ یہ اپنے دعووں میں کس حد تک صادق ہے۔۔۔۔؟؟ آج ہر طرف داعش داعش کا شور سنائی دے رہا ہے۔۔۔ "داعش" آج سے چند سال قبل دنیا کے نقشے پر ابھرنے والی ایک تنظیم۔۔۔ اس کا نام و شور سنتے ہی میرے ذہن میں بھی بعینہ انہیں سوالات نے جنم لیا۔۔۔۔ اس کے بنیادی مقاصد کیا ہیں۔۔۔؟؟ اس کا شعار کیا ہے۔۔۔؟؟ آیا یہ خود ذاتاً ایک مستقل نظریاتی  تنظیم ہے؟؟۔۔۔ یا پھر یہ کسی اور تحریک و تنظیم کے مقاصد کو پایہ تکمیل تک پہچانا چاہتی ہے۔۔۔۔۔ ؟؟ آیا اس کے ظاہر و باطن میں تفاوت پایا جاتا ہے۔۔۔۔۔؟؟

چند روز کی ورق گردانی و دانشمندان کے خیالات کی روشنی میں بالاخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ "داعش" نامی تنظیم بذات خود کوئی مستقل نظریاتی تحریک نہیں۔۔۔۔۔ خود اس تنظیم کے دعوے کے مطابق یہ آج سے تقریباً 14 صدیاں پہلے جنم لینے والی تحریک کے علمبردار ہیں۔۔۔ اور ظاہری طور پر ان کا نعرہ اسی تحریک کے مقاصد کو دنیا کے کونے کونے تک پہچانا ہے۔۔۔۔ وہ تحریک کہ جسے دنیا آج اسلام کے نام سے جانتی ہے۔۔۔۔ ان کے ادّعا کے مطابق یہ  اسی اسلام کے علمبردار ہیں کہ جس کے محبت بھرے و نرم و نازک پودے کو خود رسول خدا (ص) نے کاشت کیا۔۔۔۔۔۔ مگر یہ کیا۔۔۔۔۔؟؟ ان کی تاریخ تو بالکل ان کے ادّعا و دعوے کی تصدیق نہیں کرتی۔۔۔۔۔ اور چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ یہ لوگ اپنے دعوے میں جھوٹے ہیں۔۔۔۔ ہاں جی۔۔۔ بالکل ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔ میں خود بھی تحریک محمدیہ (ص) کا ہی فرد ہونے کی بناء پر رسول خدا (ص) کی مہربان و شفیق تحریک سے قدرے آشنا ہوں۔۔۔۔ لٰہذا اس بناء پر پورے وثوق سے کہا  جا سکتا ہے کہ ان کا اسلام محمدیہ (ص) سے دور دور تک کوئی تعلق و واسطہ نہیں ہے۔۔۔ ہاں۔۔۔۔ انہوں نے ظاہری طور پر اسلام کا دم ضرور بھرا ہے۔۔۔

اگر تاریخ کا دقت سے مطالعہ کیا جائے تو اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ یہ گروہ اسلام کے داخلی دشمنوں کے تسلسل کا ایک واضح نمونہ ہے۔۔۔ کیونکہ ابتداء اسلام سے ہی جب دشمن نے یہ محسوس کیا کہ وہ کبھی بھی سامنے سے آکر اس تحریک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا۔۔۔۔۔ لٰہذا چال بدلی۔۔۔۔ اور آگئے اسلام کا علم لے کر۔۔۔۔ یہی سبب ہے کہ ہمیشہ سے اسلام کو بیرونی دشمن سے زیادہ داخلی دشمن نے نقصان پہنچایا۔۔۔۔ اور ہمیشہ سے ہی اس دشمن کا ہم و غم نابودی اسلام رہا ہے۔۔۔۔۔ یہ چند افراد نہیں بلکہ ایک منظّم فکر ہے کہ جو مختلف خطّوں میں، مختلف افراد و گروہوں کی صورت میں مسلسل اسلام پر ضربیں لگا رہی ہے۔۔۔۔ اگرچہ اس فکر کی ابتداء  اوائل اسلام سے ہی ہوگئی تھی۔۔۔۔ مگر بعض کے نزدیک اس فکر کا بیج خوارج [1] نے بویا۔۔۔ اور یہی وہ پہلا گروہ ہے کہ جس نے عالم اسلام کو ایک بہت بڑے فتنے سے دوچار کیا۔۔۔۔ ان کے نزدیک ہر وہ شخص کہ جو ان کے نظریات کو قبول کرے، وہ مسلمان۔۔۔۔ باقی سب کافر ہیں، چاہے وہ خلیفۃالرسول (ص) ہی کیوں نہ ہو۔۔۔۔۔ مقام فکر تو یہ ہے کہ اس گروہ کے نظریات و اعمال خود بانی اسلام حضرت محمد (ص) کے نظریات کے بالکل برعکس تھے۔۔

رسول خدا (ص) نے دنیا کو امن و اشتی کا درس دیا، جبکہ انہوں نے وحشت گری، قتل و غارت و نفرت کا پیغام دنیا تک پہنچایا ۔۔۔ اور بات صرف یہاں تک ہی نہ رہی۔۔۔۔۔ بلکہ نوبت یہاں تک پہنچی کہ اس فکر اور گروہ کے افراد خود رسول گرامی (ص) کی توہین سے باز نہ آئے۔۔۔ جیسا کہ حاکم نیشاپوری کی روایت کے مطابق وہ پہلا شخص کہ جس نے تبّرک، توسل و زیارت پیغمبر (ص) کو حرام قرار دیا اور قبر رسول خدا (ص) کو پتھر سے تعبیر کیا وہ مروان بن حکم اموی ہے۔[2]۔۔۔ اسی طرح حجاج بن یوسف کا شمار بھی انہی افراد میں ہوتا ہے۔۔۔ مبرد سے روایت ہے کہ حجاج کوفہ میں خطبہ دیتے ہوئے یوں کہتا ہے۔۔۔ "افسوس ہے ان لوگوں پر کہ جو بوسیدہ ہڈیوں کا طواف کرتے ہیں۔۔۔ انہیں کیا ہوگیا ہے۔۔۔ یہ امیر کے قصر کا طواف کیوں نہیں کرتے۔۔۔ کیا نہیں جانتے کہ کسی بھی شخص کا خلیفہ اس کے سے افضل ہوتا ہے [3]۔" جبکہ دوسری طرف علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت نے اس فکر کی بھرپور مذمت کی اور شدید الفاظ میں اس گروہ کی مذمت کی۔۔۔۔ جیسا کہ بزرگ عالم اہل سنت ذہبی (748ھ) حجاج کے بارے یوں کہتے ہیں "وہ ظالم، جبار، ناصبی، خبیث و سفّاک تھا۔ ہم اس پر سب و شتم کرتے ہیں اور اس کو نہیں مانتے "[4]۔ اسی طرح مروان کو بھی کچھ انہی الفاظ سے ہی یاد کیا ہے [5]۔ یہی وہ فکر باطلہ تھی کہ جو چلتی چلتی مسلیمہ کذاب جیسے اشخاص سے ہوتی ہوئی۔۔۔

آٹھویں صدی ہجری میں ابن تیمیہ و اس کے پیروکاروں تک پہنچی۔۔۔ یاد رہے کہ ابن تیمیہ وہی شخص ہے کہ جس نے اپنے قلم و عمل سے دنیا اسلام میں عظیم فتنوں کو جنم دیا۔۔۔ فکر مروان کی طرح اس نے بھی توسل و شفاعت سے نہ صرف انکار کیا بلکہ ایک قدم آگے بڑھاتے ہوئے یہ بھی کہا کہ توسل و شفاعت طلب کرنیوالا کافر ہے[6]۔۔۔ جبکہ ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ "اے رسول (ص) وہ لوگ کہ جنہوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا، اگر تیرے پاس آجائیں اور اللہ سے مغفرت طلب کریں اور اے رسول (ص) تم بھی ان کے لئے مغفرت طلب کرو (یعنی تمہیں  وسیلہ قرار دیں) تو بے شک وہ اللہ کو توبہ قبول کرنیوالا اور رحیم پائیں گے۔"[7] اسی طرح امام اہل سنت  محمد بن اسماعیل البخاری نے رسول خدا (ص) کے لئے شفاعت مطلقہ کا نظریہ اختیار کیا ہے۔[8]۔۔۔ ابن تیمیہ اور اس کے پیروکاروں کا فتنہ اسقدر بڑھ گیا کہ ایک دفعہ پھر علماء کو ان کے فتنہ گر نظریات کے رد میں اپنے قلم کو حرکت میں لانا پڑا۔۔۔ اور ایک بار پھر علماء اہل سنت ان کے خلاف سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔۔۔ جیسا کہ بزرگ عالم دین تقی الدین سبکی کی ایک کتاب کا نام ہی "الدرۃ المضیۃ فی الرد علی ابن تیمیہ" ہے۔[9] اسی طرح حصنی دمشقی ، ابن حجر ہیثمی، ابن حجر عسقلانی، ابن شاکر، ملا قاری حنفی و شیخ محمود کوثری مصری کا شمار انہیں علماء میں ہوتا ہے کہ جنہوں نے اپنے قلم سے ان کے نظریات کو رد کیا۔۔۔۔۔ علماء کا مسلسل مخالفت کرنا سبب بنا کہ یہ اس فکر باطلہ میں ٹھہراو تو آیا۔۔۔۔ مگر جڑ سے ختم نہ ہوسکی۔۔۔۔۔ ایک بار پھر انہی نظریات نے سکوت توڑا اور قفس سے ایسے باہر آئے کہ دنیا کو تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا۔۔۔۔

اب کی بار تقریباً 12ویں صدی ہجری میں عبدالوہاب نامی شخص نے نہ صرف یہ کہ ان افکار کو دوبارہ زندہ کیا بلکہ انہیں عملی جامہ بھی پہنایا۔۔۔ اس کے اصول قرآن کے اصولوں کے صریحاً مخالف تھے۔۔۔
1۔ قرآن کہتا ہے کہ"جو شخص بھی شعائر خدا کا احترام کرے، یہ اس کے دل کے تقویٰ کی علامت ہے"[10] ۔۔۔ جبکہ عبدالوہاب توہین شعائر اللہ سے خوش ہوتا ہے۔۔۔ انبیاء و اولیاء کے مزارات کی توہین۔۔۔ ان کو زمین بوس کرنا، اس کا پسندیدہ شغل تھا۔
2۔ اصول قرآن یہ ہے کہ "جس نے بلاوجہ ایک شخص کو قتل کیا، گویا اس نے سارے انسانوں کو قتل کیا اور جس نے کسی ایک کی جان بچائی، گویا اس نے تمام انسانوں کو زندگی عطا کی"[11]۔۔۔۔۔۔ جبکہ تاریخ گواہ ہے کہ عبدالوہاب نے آل سعود کے زیر سایہ قتل و غارت کا وہ بازار گرم کیا کہ جسے سوچ کر روح انسانی کانپ اٹھتی ہے۔
3۔ ارشاد خداوندی ہوتا ہے کہ "بے شک خود اللہ اور اسکے فرشتے  رسول خدا (ص) پر درود پڑھتے ہیں۔۔ اے ایمان والوں تم بھی رسول خدا (ص) کی ذات گرامی پر دورد و سلام بھیجو" [12] ۔۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ عبدالوہاب انحرافات کی دلدل میں اسقدر دھنس گیا تھا کہ نہ صرف یہ کہ اس نے قرآنی اصول کی مخالفت کی، بلکہ اس بارے میں انتہائی نازیبا الفاظ استعمال کرتے ہوئے یوں کہتا ہے کہ "کسی فاحشہ عورت کے کوٹھے میں ستار بجانے میں اسقدر گناہ نہیں ہے کہ جس قدر مسجد کے میناروں سے حضور (ص) پر درود  پڑھنے کا ہے۔"[13] نعوذباللہ

4۔ قرآن کہتا ہے کہ "اللہ تک پہنچنے کے لئے وسیلہ تلاش کرو "[14]۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ عبدالوہاب نے نہ صرف یہ کہ توسل و وسیلے سے انکار کیا بلکہ اس کو کفر قرار دیتے ہوئے یوں لکھتا ہے "اور تم کو معلوم ہوچکا ہے کہ ان لوگوں (مسلمانوں) کا توحید کو مان لینا۔۔۔ انہیں اسلام میں داخل نہیں کرتا۔۔۔ ان لوگوں کا انبیاءؑ و فرشتوں سے شفاعت طلب کرنا اور ان کی تعظیم سے اللہ کا قرب چاہنا۔۔۔ ہی وہ سبب ہے کہ جس نے ان کے قتل و اموال لوٹنے کو جائز کر دیا ہے۔"[15]
5۔ قرآن میں متعدد مقامات پر خداوند نے اپنے محبوب (ص) کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے۔ حتٰی یہاں تک کہا کہ اپنی آواز بھی رسول خدا (ص) کی آواز سے بلند نہ کرو [16]۔۔۔۔۔۔ جبکہ  عبدالوہاب کی نحوست اسقدر بڑھ چکی تھی کہ اس کے حلقہ احباب میں توہین رسالت عام بات تھی، یہاں تک کہا جاتا کہ۔۔۔ "میری لاٹھی محمد (ص) سے بہتر ہے۔۔۔۔ کیونکہ یہ سانپ مارنے کے کام آتی ہے اور محمد (ص) فوت ہوچکے ہیں، اب ان میں کوئی نفع نہیں۔۔۔۔ وہ تو محض ایک ایلچی تھے۔۔۔۔ جو دنیا سے جا چکے۔"[17]

یہ اسی کے فکر باطلہ کے نظریات کی چند مثالیں ہیں کہ جن کو عبدالوہاب نے آلسعود کے سائے میں دنیا کے کونے کونے تک پہنچایا۔۔۔۔ کیونکہ ان نظریات کا اسلام محمدیہ (ص) سے کوئی تعلق نہیں تھا، اس لئے علماء نے ان کے خلاف بھرپور قلم اٹھایا۔۔۔۔ ان کے رد میں بڑی بڑی کتب تحریر کیں۔۔۔۔ شیخ ابی حامد مرزوق نے اپنی کتاب میں تقریباً 42 ان علماء کی فہرست مہیا کی ہے کہ جنہوں نے ان افکار کے رد میں کتابیں لکھیں۔۔۔۔ کہ جن میں علماء اہل سنت کا کردار نمایا طور پر نظر آتا ہے۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ علامہ ابن عابدین شامی متوفی (1251ھ) نے کہا کہ "محمد بن عبدالوہاب کی مثال خوارج جیسی ہے کہ جنہوں نے حضرت علی ؑ کے خلاف خروج کیا۔۔۔۔ یہی چیز سبب بنی کہ عبدااوہاب نے عوام اہل سنت و بالخصوص علماء اہل سنت کے قتل کا فتویٰ جاری کیا۔" [18]۔۔۔۔۔ عبدالوہاب و اس کے پیرکاروں نے مذہب اہل سنت کی اسقدر مخالفت و توہین کی کہ۔۔۔۔ محمد بن سعود علی الاعلان کہا کرتا تھا کہ "آئمہ اربعہ (امام شافعی ؒ ۔۔ امام مالکؒ۔۔ امام احمد ؒ۔۔ و امام ابوحنیفہؒ) کے اقوال غیر معتبر ہیں۔۔۔۔ اور جنہوں نے مذاہب اربعہ میں کتابیں لکھیں ہیں، وہ خود بھی گمراہ تھے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا۔" [19]

المختصر عبدالوہاب تو نہ رہا، مگر آج بھی اس کے حامیوں نے اس کے افکار کو زندہ رکھا ہے۔۔۔۔ بتدریج یہی فکر ِخوارج کبھی مروان و حجاج و سلیمہ کذاب کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے۔۔۔۔ تو۔۔۔۔۔ کبھی ابن تیمیہ و عبدالوہاب کی شکل میں۔۔۔ پھر چلتی چلتی کبھی طالبان، لشکر جھنگوی و سپاہ صحابہ کی صورت میں سامنے آتی ہے۔۔۔۔۔ تو۔۔۔۔ کبھی بوکو حرام، النصرہ و داعش کی صورت میں۔۔۔۔ داعش اسی فکر خوارج کے تسلسل کا نام ہے کہ جس نے ہمیشہ سے دنیا میں فتنہ و فساد برپا کیا۔۔۔ بزبان قرآن۔۔۔ اس فکر باطلہ کے حامل اس قدر جہالت و نادانی کا شکار ہیں کہ "جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین مین فساد نہ پھیلاو۔۔۔۔ تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں۔۔۔۔۔ خبردار یہی لوگ مفسد ہیں (مگر فساد میں اس قدر بڑھ چکے ہیں) کہ اپنے شعور سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔" [20] حضرت علی ؑ سے روایت ہے کہ "جب تم سیاہ پرچموں کو دیکھو (کہ وہ تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں) تو ہرگز ان کی مدد کو نہ جاؤ۔۔۔۔ کیونکہ وہ باطل پر ہوں گے۔۔۔ وہ پرچم ایسی قوم کے پاس ہونگے کہ جن کے دل لوہے کی طرح  سخت ہوں گے۔۔۔۔ وہ حکومت کے لالچی ہوں گے۔۔۔۔ جبکہ اپنے وعدوں کو ہرگز وفا نہ کریں گے۔۔۔۔ کنیت کو اپنا نام قرار دیں گے۔۔۔۔ ان کے نام شہروں کے ناموں پر ہوں گے ۔۔۔۔ اور یہاں تک کہ ان کا آپس میں اختلاف ہوگا، پھر خداوندمتعال حق کو ظاہر کرے گا۔" [21]

توہین شعائر کے عنوان سے مزارات انبیاء و اولیاء کو اڑانا۔۔۔۔ بے گناہ لوگوں کا خون بہانا۔۔۔۔۔ قتل و غارتگری کا بازار گرم کرنا۔۔۔۔۔ فتنہ و فساد کا برپا کرنا۔۔۔۔ یہ سب اس بات پر واضح دلیل ہیں کہ فکر داعش۔۔۔۔ فکر خوراج و ابن تیمیہ و عبدالوہاب سے ہٹ کر کوئی دوسری فکر نہیں۔۔۔۔۔ لٰہذا اس فکر کے حامل افراد کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ آج بھی علماء اسلام و بالخصوص علماء اہل سنت زندہ ہیں۔۔۔۔ اور تمہارے ان فتنہ گر نظریات سے بیزاری کا اظہار کرتے ہیں۔۔۔۔۔ اور یاد رکھو کہ ملت پاکستان بیدار ہے۔۔۔۔۔ ملت کا ہر فرد۔۔۔۔ بچہ، بوڑھا، جوان، مرد و عورت۔۔۔۔ سب بیدار ہیں۔۔۔۔ یہ سرزمین پاکستان ہے۔۔۔۔ اور اس پر افواج پاکستان کا سایہ ہے۔۔۔۔ وہ فوج کہ جس کی ہیبت سے دنیا کانپتی ہے۔۔۔۔۔ آج دنیا تمہارے اصلی و ناپاک چہرے سے واقف ہے۔۔۔۔۔ مزارات اولیاء۔۔۔۔۔ ہمارے  بچے سکول جاتے ہیں اور ہمارے کھیل کے میدان آج بھی کھلے ہیں۔۔۔۔۔۔ ہم یہاں ہیں تم کہاں ہو۔۔۔۔۔۔؟؟

حوالہ جات:
[1]۔  اگرچہ گروہ خوراج کی ابتداء جہل و نادانی سے ہوئی مگر بعد میں اسی تحریک نے اسلام ناب محمدی(ص) کے کو ہر طرح سے نقصان پہنچایا ۔۔۔۔۔۔حتی کہ یہی فکر چلتی چلتی اسلام کے داخلی دشمنوں کےلیے ایک ائیڈیالوجی کی صورت اختیار کر گی۔
[2]۔ مسند بن احمد حنبل ج5 ص 422
[3]۔ مبرد کا شمار نحو کے مشہور علماء میں ہوتاہے۔
[4]۔ الکامل ج 1 ص 185 شرح ابن ابی الحدید ج 5 ص 242
[5]۔ میزان الاعتدال ج 4 ص 89
[6]۔ تاریخ نجد و حجاز ص 82
[7]۔ سورۃ النساء 64
[8]۔ مفہوم حدیث صحیح بخاری ج 1 ص 47
[9]۔ تاریخ نجد و حجاز
[10]۔ سورۃ حج 32 و من یعظم شعائر اللہ فانھا من تقوی القلوب
[11]۔ سورۃ مائدہ 32
[12]۔ سورۃ احزاب 56
[13]۔ تاریخ نجد و حجاز ص 141، 142
[14]۔ مائدہ 35
[15]۔ کشف الشبہات ص 20،  21  " و عرفت ان اقرارھم بتوحید الربوبیۃ لم یدخلھم فی الاسلام وان قصد ھم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔الی الاخر
[16]۔ حجرات 2
[17]۔ تاریخ نجد و حجاز ص 141، 142
[18]۔ رد المحتارج /ج 3 ص 427،428
[19]۔ تاریخ نجد و حجاز ص 132
[20]۔ سورہ بقرہ 11،12
[21]۔ احقاق الحق ۔۔۔ و ۔۔ التشریف بالمنن فی التعریف بالفتن از ابن طاووس

منبع: اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬