عید غدیر مسلمانوں کی سب سے بڑی عید ہے دین اسلام کی بقا کی، ضمانت کی عید،رضایت الٰہی کے حصول کی عید،دین الٰہی کے پسندیدہ دین قرار دئیے جانے کی عید، غرض کہ ولایت امیر المومنینؑ کی عید اس بابرکت دن کی عظمت وفضیلت قلم و زبان کی وسعتوں سے باہر ہے ہر عمل کا ثواب لاکھوں گنا ہے ۔
امام محمد تقی علیہ السلام بنابرمشہور 10رجب ١۹٥ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے ، آپ کا اسم گرامی محمد اور آپ کے والد کا نام علی ابن موسیٰ الرضا ؑتھا آپ کی والدہ ماجدہ کا نام سبیکہ یا خیزران تھا۔
حضرت امام رضا علیہ السلام جب خراسان کے سفرکے دوران 25 ذیقعدہ کو مرو پہنچے تو آپ نے فرمایا: آج کے دن روزہ رکھو میں نے بھی روزہ رکھا ہے راوی کہتا ہے ہم نے پوچھا اے فرزند رسول آج کون سا دن ہے؟ فرمایا: آج وہ دن ہے جس میں اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوئی اور زمین کا فرش بچھایا گیا۔
ہندوستان اور پاکستان کی بقاء اور سلامتی کشمیر سے وابستہ ہے۔ حقِ خود ارادیت کشمیریوں کا فطری، پیدائشی اور جمہوری حق ہے۔ کشمیر کے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق صرف کشمیری ہی رکھتے ہیں، اُنہیں یہ حق دلوانا ہر باشعور انسان کی ذمہ داری ہے۔
علامہ طالب جوہری نے آیت اللہ العظمیٰ سید ابوالقاسم خوئی اور آیت اللہ شہید باقر الصدر جیسی مایہ ناز علمی شخصیات سے کسبِ فیض کیا۔ عراق کی مشہور و معروف مذہبی و سیاسی شخصیت آیۃ اللہ العظمیٰ سید علی سیستانی کے ہم جماعت رہے۔
امام رضا علیہ السلام کی ولادت با سعادت کے ایام کی مناسبت سے ہمارے گھروں میں ہر طرف چراغانی ہے ، مجازی فضا میں ہر سو مسرتوں کی انجمنیں سجی ہیں کرونا کے ایام میں ہم باہر تو نہیں نکل سکتے لیکن انٹرنیٹ کے ذریعہ جھان تشیع میں منائے جانے والے عشرہ کرامت سے ضرور مطلع ہو رہے ہیں
شطرنجی مامون نے اپنی تمام شطرنجی چالیں چلی لیکن کوئی سکون میسر نہ ہوا تو آخری راستہ حضرت امام علی رضاؑ میں دکھا ۔ اس لئے آپ کو زبردستی مدینہ سے خراسان بلا کر پہلے خلافت کی پیش کش کی تو عالم آل محمد نے اس کی تمام مکاریوں کے جواب میں فرمادیا۔۔۔۔۔
لوگوں کو اچھائی کی تعلیم دینے اور انھیں برائیوں سے روکنے کے بہت سے طریقے ہیں لیکن ان طریقوں میں جو سب سے زیادہ کارآمد، زیادہ بااثر اور جلدی مقصد تک پہونچانے والا ہے وہ عملی طریقہ ہے۔
امام علی ابن موسیٰ الرضا ؑکی زندگی کا ہم ترین واقعہ آپ کا ولی عہد ہونا ہے مامون نے اپنے چند افراد جیسے رجاء ابن ابی ضحاک اور یاسر خادم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مدینہ جاکر علی ابن موسیٰ الرضا ؑکو اس سفر پر راضی کریں اور آپ کو مدینہ سے خراسان تک لائے۔