تحریر: حجت الاسلام و المسلمین فیروز علی بنارسی
لوگوں کو اچھائی کی تعلیم دینے اور انھیں برائیوں سے روکنے کے بہت سے طریقے ہیں لیکن ان طریقوں میں جو سب سے زیادہ کارآمد، زیادہ بااثر اور جلدی مقصد تک پہونچانے والا ہے وہ عملی طریقہ ہے۔
زبان سے اچھائی کی تعلیم دینا اور برائی سے روکنا ممکن ہے بسااوقات بے اثر کیا کم اثر ثابت ہو لیکن عملی تعلیم دینا خود اچھائی کو اپنا کر اور برائی سے بچ کر دوسرا کو اچھائیاں اپنانے اور برائیوں سے رکنے کی دعوت دینے میں نہایت مؤثر ہے۔
یہی وجہ ہے کہ معصومین علیہم السلام نے پہلے خود اچھائیوں پر عمل کیا اور برائیوں سے بچے ہیں اس کے بعد چاہنے والوں اور ماننے والوں کو امر ونہی فرمایا ہے۔
اسی اسوہ ہائے حسنہ اور نمونہ ہائے عمل میں سے ایک امام علی رضا علیہ السلام کی ذات والا صفات ہے۔ ذیل میں آپ کی حیات مبارکہ کے چند واقعات جو عملی تعلیم وتربیت کے واضح نمونے ہیں پیش کئے جارہے ہیں۔ امید ہے کہ ان واقعات سے حاصل ہونے والے اسباق ہماری زندگی کو سنوارنے میں مددگار ثابت ہوں گے۔
اجرت معین کرنا
سلیمان بن جعفر کا بیان ہے:
مَیں بعض امورکی انجام دہی کے لئے امام علی رضا ؈ کے ساتھ تھا؛ یہاں تک کہ مَیں نے چاہا کہ گھر واپس چلا جاؤں ۔ حضرتؑ نے فرمایا: واپس آجاؤ اور میرے ساتھ چلو اور آج رات میرے پاس رہو! مَیں بھی واپس پلٹ گیا اور آپ کے ہمراہ چل پڑا؛ یہاں تک کہ ہم لوگ گھر میں داخل ہو گئے۔ امامؑ نے اپنے غلاموں کو دیکھا جو مِٹّی لگانے اور اصطبل تعمیر کرنے میں مصروف تھے۔ اور کچھ غلام دوسرے کام انجام دے رہےتھے۔ اُنھیں کے درمیان ایک سیاہ فام اجنبی غلام بھی کام کر رہا تھا۔
امام ؑ نے غلاموں سے فرمایا: یہ آدمی یہاں کیا کر رہا ہے؟
اُنھوں نے فرمایا: ’یہ ہماری مدد کر رہا ہے اور ہم بھی اِسے اِس کے بدلے میں کچھ نہ کچھ دیں گے۔
امامؑ نے سوال کیا: کیا اِس کی مزدوری طے کی ہے؟
عرض کیا: نہیں ! ہم اِسے جو کچھ بھی دیں گے یہ راضی ہو جائےگا۔
امامؑ اپنے غلاموں کے پاس تشریف لے گئے کہ اُنھیں تازیانہ ماریں۔ آپؑ بہت
ناراض ہوئے کہ تم لوگوں نے اِس کی مزدوری معین نہیں کی‘‘۔
سلیمان بن جعفر کہتے ہیں:
مَیں نے امامؑ سے عرض کیا: ’آپ کیوں اپنے آپ کو تکلیف میں ڈال رہے ہیں؟‘ آپؑ نے عرض کیا: ’مَیں نے بارہا اِنھیں ایسا کرنے سے منع کیا ہے اور کہا ہے کہ جس آدمی سے بھی کام لینا چاہتےہیں، پہلے اُس کی اُجرت معیّن کر دیں۔ اے سلیمان! جان لو کہ اجرت معین کئے بغیر کوئی بھی تمہارے لئے کام نہیں کرتا ہے ، مگر یہ کہ اگر تُم اُسے اُس کی مزدوری کا تین گنا بھی دوگے تو وہ یہی سوچے گا کہ تُم نے اُسے کم دیا ہے، لیکن جب مزدوری طے کروگے اور وہ ادا کروگے تو وہ تمہارا شکریہ ادا کرے گا کہ جو معین کیا اُس پر عمل کیا، اور اگر ذرا بڑھاکر دوگے تو وہ قدردانی کرے گا اور دیکھے گا کہ تُم نے اُس کی مزدوری بڑھا کر دی ہے‘۔
فضول خرچی سے منع فرمانا
ایک دن آپؑ کے غلام پھل کھا رہے تھے اور ابھی پورا کھانے سے پہلے ہی پھینک رہے تھے۔ امامؑ نے اُن سے فرمایا: ’’سبحان اللہ ! اگر تُمھیں ضرورت نہیں ہے، تو ایسے لوگ بھی ہیں جنھیں اِس کی ضرورت ہے ؛ اِن پھلوں کو ضرورت مندوں کو دے دو‘‘۔
مہمان سے کام لینے پر مذمت
ایک مہمان امام علی رضا ؈ کی خدمت میں آیا۔ آپؑ اُس کے پاس تشریف فرما تھے اور اُس سے گفتگو فرما رہے تھے ۔ اِس طرح کہ رات کا ایک حصّہ گزر گیا۔ اِسی دوران چراغ میں ذرا خرابی پیدا ہوئی۔ مہمان نےچراغ کی خرابی کو دیکھ کر اُسےدرست کرنے کے لئے ہاتھ بڑھایا۔ آپؑ نے اُسےایسا کرنے سے منع کر دیا اورخود ٹھیک کیا۔ اور فرمایا: ’’ہم وہ لوگ ہیں جو اپنے مہمانوں سے کام نہیں لیتے ہیں ‘‘۔
تفریق و تبعیض سے پرہیز
ایک بلخی کا بیان ہے کہ خراسان کی جانب سفر میں مَیں آپ ؑ کے ساتھ تھا۔ ایک دن آپؑ نے اپنے سارے غلاموں کو دسترخوان پردعوت دی کہ وہ سب کے سب کھانا کھائیں۔ وہ سارے غلام سوڈان اور دیگر علاقوں سے معین کئے گئے تھے۔ یہ دیکھ کر مَیں نے عرض کیا: ’’مَیں آپ پر قربان ہو جاؤں ! اگر آپ غلاموں کو الگ کر دیتے اور وہ دوسرے دسترخوان پر کھانا کھاتے ، تو زیادہ اچھا ہوتا۔‘‘ حضرتؑ نے فرمایا: ’’چپ ہو جاؤ! خداوند تبارک وتعالیٰ ایک ہے ، ہمارے ماں باپ (آدم و حوّا) بھی ایک ہیں اور ہر شخص کی جزاء اُس کے اعمال پر ہے‘‘۔
فقیر کی شخصیت اور عزت و آبرو کا خیال رکھنا
یسع بن حمرہ کہتے ہیں:
’’ہم امام علی رضا ؈ کی بزم میں تھے اور آپؑ سے گفتگو کر رہے تھے ۔ اُس بزم میں بہت سے لوگ موجود تھے اور امامؑ سے خدا کے حلال و حرام کے بارے میں سوال کر رہے تھے کہ اتنے میں بلند وقامت اور گندمی رنگ کا ایک مرد بزم میں داخل ہوا اور آپؑ سے فرمایا:
’السلام علیک یا بن رسول اللہ! مَیں آپ کے اور آپ کے آباء و اجداد کے دوست داروں میں سے ہوں اور سفر حج سے واپس آیا ہوں۔ میرے پیسے گم ہو گئے ہیں ۔ اب میرے پاس اتنا پیسہ نہیں ہے کہ مَیں اپنے وطن پہنچ سکوں ۔ اگر ممکن ہو تو میری مدد کیجئے اور مجھے میرے وطن پہنچا دیجئے! خدا نے مجھے ا پنی نعمتوں سے مالامال کیا ہے ۔ مَیں اپنے وطن پہنچ کر جتنی رقم آپ مجھے دیں گے اُتنی ہی رقم مَیں آپ کی جانب صدقہ دے دوں گا۔ اس لئے کہ مَیں اپنے آپ کو صدقے کا مستحق نہیں سمجھتا ہوں ‘۔
جب جنازہ کو قبر کےپاس زمین پر رکھا گیا ، تو مَیں نے دیکھا کہ امامؑ میت کے پاس تشریف لے گئے۔ لوگوں کو کنارے ہٹایا تاکہ جنازہ تک پہنچ جائیں۔ اِس کے بعد آپؑ نے اپنا دست مبارک اُس کے سینے پر رکھا اور فرمایا:
’ فلاں ابن فلاں! تمھیں جنّت کی بشارت ہو! اِس گھڑی کے بعد تُم پر کوئی خوف و ہراس نہیں ہے‘۔
مَیں نےعرض کیا: ’مَیں آپ پر قربان! کیا آپ اِس میت کو پہچانتے ہیں جبکہ خدا کی قسم! ابھی تک آپ نے اِس علاقے کو دیکھا بھی نہیں تھا اور نہ ہی یہاں سفر کیا تھا؟ ‘
آپؑ نے فرمایا: ’اے موسیٰ! کیا تم نہیں جانتے کہ ہمارے شیعوں کے اعمال ہر صبح وشام ہمارے سامنے پیش کئے جاتے ہیں؟ اگر ہم اُن اعمال میں کوئی کمی دیکھتے ہیں ،تو خدا سے دعا کرتے ہیں کہ معاف کر دے اور اُس کا زخیر دیکھتے ہیں ، تو دعا کرتے ہیں کہ ثواب عطا کر دے‘۔‘‘
مادّی فکر مندوں سے برتاؤ
احمد بن عمراور حسین بن یزید کہتے ہیںکہ ہم لوگ امام علی رضا ؈ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:
’’ہمارے پاس کاروبار اور مال و دولت تھااور ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہے تھے، لیکن حالات بدل گئے اور ہماری حالت کچھ خراب ہو گئی۔ آپ دعا کیجئے کہ خدا ہماری پہلی والی حالت کو پلٹا دے‘‘۔
امامؑ نے فرمایا: ’’کیا چاہتے ہو؟ بادشاہ بننا چاہتے ہو ؟ مامون کے مالی رتبہ افسروں جیسے بننا چاہتے ہو؟ اُس وقت جس مذہب پر آج ہو ، نہیں رہ جاؤگے!‘‘
مَیں نے عرض کیا: ’’نہیں ! خدا کی قسم! مَیں خوش اور راضی نہ ہوؤں گا کہ اگر پوری دنیا کو اُس کے سونے اور چاندی کے ساتھ مجھے دے دیا جائےکہ مَیںمذہب تشیع کے خلاف عقیدہ رکھوں !‘‘
یاد دہانی
مشہورو معروف شاعر دعبل بن علی امام علی رضا ؈ کی خدمت میں حاضر ہوئے ، لوگوں نے اُنھیں تحفہ دیا، لے لیا، لیکن خدا کی حمد وثنا نہیں کی ۔امام ؑ نے سوال کیا: ’’کیوں خدا کی حمدو ثنا نہیں کی؟‘‘
دعبل نے کہا: ’’اِس کے بعد مَیں امام محمد تقی علیہ اسلام کی خدمت میں حاضر ہوااَور حضرتؑ نے حکم دیا کہ مجھے ایک تحفہ دیا جائے۔ مَیں نے تحفہ کو لیا اور فرمایا: ’الحمد للہ‘ یہ سُن کر امامؑ نے فرمایا: ’اب سیکھے ہو!‘ یعنی میرے والد نے جو یاد دہانی فرمائی ہے اُس سے ادب سیکھے ہو‘‘۔