01 September 2020 - 10:37
News ID: 443607
فونت
جب کوئی سائل امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس آتا تھا توخوش و مسرور ہوجا تے تھے اور فرماتے تھے خدا تیرا بھلا کرے کہ تو میرا زاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آ گیا ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق حضرت امام زین العابدین علیہ السلام بتاریخ ۱۵/ جمادی الثانی ۳۸ ھ یوم جمعہ بمقام مدینہ منورہ پیدا ہوئے (اعلام الوری ص ۱۵۱ ومناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

آپ کی ولادت باسعادت

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ جب جناب شہربانو ایران سے مدینہ کے لیے روانہ ہو رہی تھیں توجناب رسالت مآب نے عالم خواب میں ان کا عقدحضرت امام حسین علیہ السلام کے ساتھ پڑھ دیا تھا (جلاء العیون ص ۲۵۶) ۔ اورجب آپ وارد مدینہ ہوئیں توحضرت علی علیہ السلام نے امام حسین علیہ السلام کے سپرد کرکے فرمایا کہ یہ وہ عصمت پرور بی بی ہے کہ جس کے بطن سے تمہارے بعد افضل اوصیاء اور افضل کائنات ہونے والا بچہ پیدا ہو گا چنانچہ حضرت امام زین العابدین متولد ہوئے لیکن افسوس یہ ہے کہ آپ اپنی ماں کی آغوش میں پرورش پانے کا لطف نہ اٹھا سکے، آپ کے پیدا ہوتے ہی جناب شہربانو کی وفات ہو گئی۔ (قمقام جلاء العیون)۔(عیون اخبار رضا دمعة ساکبة جلد ۱ ص ۴۲۶)۔

کامل مبرد میں ہے کہ جناب شہربانو، بادشاہ ایران یزدجرد بن شہریار بن شیرویہ ابن پرویز بن ہرمز بن نوشیرواں عادل ""کسری"" کی بیٹی تھیں (ارشاد مفید ص ۳۹۱، فصل الخطاب) علامہ طریحی تحریر فرماتے ہیں کہ حضرت علی نے شہربانو سے پوچھا کہ تمہارا نام کیا ہے توانہوں نے کہا ""شاہ جہاں"" حضرت نے فرمایا نہیں اب ""شہربانو""ہے۔ (مجمع البحرین ص ۵۷۰)

نام، کنیت، القاب

آپ کا اسم گرامی ”علی“ کنیت ابومحمد، ابوالحسن اور ابوالقاسم تھی۔ آپ کے القاب بےشمار تھے جن میں زین العابدین، سیدالساجدین، سجاد اور عابد زیادہ مشہور ہیں (مطالب السؤال ص ۲۶۱،شواہدالنبوت ص ۱۷۶،نورالابصار ص ۱۲۶،الفرع النامی نواب صدیق حسن ص ۱۵۸) ۔

لقب زین العابدین کی توجیہ

علامہ شبلنجی کا بیان ہے کہ امام مالک کا کہنا ہے کہ آپ کو زین العابدین کثرت عبادت کی وجہ سے کہا جاتا ہے (نورالابصار ص ۱۲۶)۔

علمائے فریقین کا ارشاد ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ایک شب نماز تہجد میں مشغول تھے کہ شیطان اژدھے کی شکل میں آپ کے قریب آ گیا اور اس نے آپ کے پائے مبارک کے انگوٹھے کو منہ میں لےکر کاٹنا شروع کیا، امام جو ہمہ تن مشغول عبادت تھے اورآپ کا رجحان کامل بارگاہ ایزدی کی طرف تھا، ذرا بھی اس کے اس عمل سے متاثر نہ ہوئے اور بدستور نماز میں منہمک و مصروف و مشغول رہے بالآخروہ عاجز آ گیا اور امام نے اپنی نماز بھی تمام کر لی اس کے بعد آپ نے اس شیطان ملعون کوطمانچہ مارکر دور ہٹا دیا اس وقت ہاتف غیبی نے انت زین العابدین کی تین بار صدا دی اورکہا بے شک تم عبادت گزاروں کی زینت ہو، اسی وقت آپ کا یہ لقب ہو گیا ۔(مطالب السؤل ص ۲۶۲،شواہدالنبوت ص ۱۷۷)۔

علامہ ابن شہرآشوب لکھتے ہیں کہ اژدھے کے دس سر تھے اور اس کے دانت بہت تیز اور اس کی آنکھیں سرخ تھیں اور وہ مصلے کے قریب سے زمین پھاڑ کر نکلا تھا (مناقب جلد ۴ ص ۱۰۸) ایک روایت میں اس کی وجہ یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ قیامت میں آپ کو اسی نام سے پکاراجائے گا (دمعة ساکبة ص ۴۲۶) ۔

لقب سجاد کی توجیہ

ذہبی نے طبقات الحفاظ میں بحوالہ امام محمد باقرعلیہ السلام لکھا ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو ""سجاد"" اس لیے کہاجاتا ہے کہ آپ تقریبا ہر کارخیر پرسجدہ فرمایا کرتے تھے جب آپ خدا کی کسی نعمت کا ذکر کرتے توسجدہ کرتے، جب کلام خدا کی آیت ”سجدہ“ پڑھتے توسجدہ کرتے، جب دو شخصوں میں صلح کراتے توسجدہ کرتے اسی کا نتیجہ تھا کہ آپ کے مواضع سجود پر اونٹ کے گھٹوں کی طرح گھٹے پڑجاتے تھے پھرانہیں کٹوانا پڑتا تھا ۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی نسبی بلندی

نسب اور نسل باپ اورماں کی طرف سے دیکھے جاتے ہیں ۔ امام علیہ السلام کے والد ماجد حضرت امام حسین اور دادا حضرت علی اور دادی حضرت فاطمہ زہرا بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں اور آپ کی والدہ جناب شہربانو بنت یزد جرد ابن شہریار ابن کسری ہیں ۔ یعنی آپ حضرت پیغمبراسلام کے پوتے اور نوشیرواں عادل کے نواسے ہیں۔ یہ وہ بادشاہ ہے جس کے عہد میں پیدا ہونے پرسرورکائنات نے اظہار مسرت فرمایا ہے۔ اس سلسلہ نسب کے متعلق ابوالاسود دوئلی نے اپنے اشعار میں اس کی وضاحت کی ہے کہ اس سے بہتر اورسلسلہ ناممکن ہے اس کا ایک شعر یہ ہے۔

وان غلاما بین کسری وہاشم

لاکرم من ینطت علیہ التمائم

اس فرزند سے بلند نسب کوئی اورنہیں ہوسکتا جو نوشیرواں عادل اور فخر کائنات حضرت محمد مصطفی کے دادا ہاشم کی نسل سے ہو(اصول کافی ص ۲۵۵) ۔

شیخ سلیمان قندوزی اور دیگرعلمائے اہل اسلام لکھتے ہیں کہ نوشیرواں کے عدل کی برکت تو دیکھو کہ اسی کی نسل کو آل محمد کے نور کی حامل قرار دیا اور آئمہ طاہرین کے ایک عظیم فرد کواس لڑکی سے پیدا کیا جونوشیرواں کی طرف منسوب ہے۔ پھرتحریر کرتے ہیں کہ امام حسین کی تمام بیویوں میں یہ شرف صرف جناب شہربانو کو نصیب ہوا جوحضرت امام زین العابدین کی والدہ ماجدہ ہیں (ینابیع المودة ص ۳۱۵، و فصل الخطاب ص ۲۶۱) ۔

علامہ عبیداللہ بحوالہ ابن خلکان لکھتے ہیں کہ جناب شہربانو شاہان فارس کے آخری بادشاہ یزدجرد کی بیٹی تھیں اورآپ ہی سے امام زین العابدین متولد ہوئے ہیں جن کو”ابن الخیرتین“ کہاجاتا ہے کیونکہ حضرت محمد مصطفی فرمایا کرتے تھے کہ خداوندعالم نے اپنے بندوں میں سے دو گروہ عرب اور عجم کوبہترین قراردیا ہے اور میں نے عرب سے قریش اورعجم سے فارس کو منتخب کر لیا ہے چونکہ عرب اور عجم کا اجتماع امام زین العابدین میں ہے اسی لیے آپ کو”ابن الخیرتین“ سے یاد کیا جاتا ہے (ارجح المطالب ص ۴۳۴) ۔ علامہ ابن شہر آشوب لکھتے ہیں کہ جناب شہربانو کو ”سیدةالنساء “ کہا جاتا ہے (مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

امام زین العابدین کے بچپن کا ایک واقعہ

علامہ مجلسی رقمطراز ہیں کہ ایک دن امام زین العابدین جب کہ آپ کا بچپن تھا بیمارہوئے حضرت امام حسین علیہ السلام نے فرمایا "بیٹا" اب تمہاری طبیعت کیسی ہے اورتم کوئی چیزچاہتے ہوتو بیان کرو تاکہ میں تمہاری خواہش کے مطابق اسے فراہم کرنے کی سعی کروں۔ آپ نے عرض کیا۔ باباجان ! اب خدا کے فضل سے اچھا ہوں میری خواہش صرف یہ ہے کہ خداوندعالم میراشمار ان لوگوں میں کرے جو پروردگارعالم کے قضا و قدر کے خلاف کوئی خواہش نہیں رکھتے۔ یہ سن کر امام حسین علیہ السلام خوش و مسرور ہو گئے اور فرمانے لگے ۔ بیٹا! تم نے بڑا مسرت افزا اور معرفت خیز جواب دیا ہے۔ تمہاراجواب بالکل حضرت ابراہیم کے جواب سے ملتا جلتا ہے ۔ حضرت ابراہیم کوجب منجیقس میں رکھ کر آگے کی طرف پھینکا گیا تھا اورآپ فضا میں ہوتے ہوئے آگ کی طرف جا رہے تھے توحضرت جبرئیل نے آپ سے پوچھا ”ھل لک حاجة“ آپ کی کوئی حاجت و خواہش ہے اس وقت انہوں نے جواب دیا تھا ”نعم اما الیک فلا“ بےشک مجھے حاجت ہے لیکن تم سے نہیں اپنے پالنے والے سے ہے (بحارالانوار جلد ۱۱ ص ۲۱ طبع ایران)۔

آپ کے عہد حیات کے بادشاہان وقت

آپ کی ولادت بادشاہ دین وایمان حضرت علی علیہ السلام کے عہدعصمت مہد میں ہوئی پھرامام حسن علیہ السلام کا زمانہ رہا، پھر بنی امیہ کی خالص دنیاوی حکومت ہو گئی۔ صلح امام حسن کے بعد سے ۶۰ ھ تک معاویہ بن ابی سفیان بادشاہ رہا۔ اس کے بعد اس کا فاسق و فاجر بیٹا یزید ۶۴ ھ تک حکمران رہا۔ ۶۴ ھ میں معاویہ بن یزید ابن معاویہ اور مروان بن حکم حاکم رہے ۔ ۶۵ ھ سے ۸۶ ھ تک عبدالملک بن مروان حاکم اور بادشاہ رہا پھر ۸۶ ھ سے ۹۶ ھ تک ولید بن عبدالملک نے حکمرانی کی اور اسی نے ۹۵ ھ میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کو زہر دغا سے شہید کر دیا (تاریخ آئمہ ۳۹۲،وصواعق محرقہ ص ۱۲،نورالابصار ص ۱۲۸) ۔

امام زین العابدین کاعہد طفولیت اور حج بیت اللہ

علامہ مجلسی تحریر فرماتے ہیں کہ ابراہیم بن اوہم کا بیان ہے کہ میں ایک مرتبہ حج کے لیے جاتا ہوا قضائے حاجت کی خاطر قافلہ سے پیچھے رہ گیا ابھی تھوڑی ہی دیرگزری تھی کہ میں نے ایک نوعمر لڑکے کو اس جنگل میں سفر پیما دیکھا ۔ اسے دیکھ کر پھر ایسی حالت میں کہ وہ پیدل چل رہا تھا اوراس کے ساتھ کوئی سامان نہ تھا اور نہ اس کا کوئی ساتھی تھا۔ میں حیران ہوگیا ۔ فورا اس کی خدمت میں حاضرہوکرعرض پرداز ہوا ""صاحبزادے"" یہ لق و دق صحرا اورتم بالکل تنہا، یہ معاملہ کیا ہے، ذرا مجھے بتاؤ توسہی کہ تمہارا زاد راہ اورتمہارا راحلہ کہاں ہے اورتم کہاں جا رہے ہو؟

اس نوخیز نے جواب دیا ۔ ""زادی تقوی وراحلتی رجلاء وقصدی مولای"" میرا زاد راہ تقوی اور پرہیزگاری ہے اور میری سواری میرے دونوں پیر ہیں اورمیرا مقصد میرا پالنے والا ہے اور میں حج کے لے جا رہا ہوں ۔ میں نے کہا کہ آپ تو بالکل کمسن ہیں حج تو ابھی آپ پر واجب نہیں ہے اس نوخیز نے جواب دیا ۔

بےشک تمہارا کہنا درست ہے لیکن اے شیخ میں دیکھا کرتا ہوں کہ مجھ سے چھوٹے بچے بھی مرجاتے ہیں اس لیے حج کوضروری سمجھتا ہوں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ اس فریضہ کی ادائیگی سے پہلے مرجاؤں میں نے پوچھا اے صاحبزادے تم نے کھانے کا کیا انتظام کیا ہے؟ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارے ساتھ کھانے کا بھی کوئی معقول انتظام نہیں ہے۔ اس نے جواب دیا ۔ اے شیخ کیاجب تم نے کسی کے یہاں مہمان جاتے ہو تو کھانا اپنے ہمراہ لے جاتے ہو؟ میں نے کہا نہیں پھراس نے فرمایا سنو میں توخدا کا مہمان ہو کرجا رہا ہوں کھانے کاانتظام اس کے ذمہ ہے۔ میں نے کہا اتنے لمبے سفرکو پیدل کیوں کر طے کرو گے؟ اس نے جواب دیا کہ میراکام کوشش کرنا ہے اورخدا کا کام منزل مقصود تک پہنچانا ہے ۔

ہم ابھی باہمی گفتگو ہی میں مصروف تھے کہ ناگاہ ایک خوبصورت جوان سفید لباس پہنے ہوئے آ پہنچا اوراس نے اس نوخیزکو گلے سے لگا لیا۔ یہ دیکھ کر میں نے اس جوان رعنا سے دریافت کیا کہ یہ نوعمر فرزند کون ہے؟ اس نوجوان نے کہا کہ یہ حضرت امام زین العابدین بن امام حسین بن علی بن ابی طالب ہیں۔ یہ سن کر میں اس جوان رعنا کے پاس سے امام کی خدمت میں حاضرہوا اورمعذرت خواہی کے بعد ان سے پوچھا کہ یہ خوبصورت جوان جنہوں نے آپ کو گلے سے لگایا یہ کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ یہ حضرت خضر نبی ہیں ان کا فرض ہے کہ روزانہ ہماری زیارت کے لیے آیا کریں اس کے بعد میں نے پھرسوال کیا اورکہا کہ آخرآپ اس طویل اورعظیم سفرکو بلا زاد اور راحلہ کیونکہ طے کریں گے توآپ نے فرمایا کہ میں زاد وراحلہ سب کچھ رکھتا ہوں اوروہ یہ چارچیزیں ہیں:

۱۔ دنیا اپنی تمام موجودات سمیت خدا کی مملکت ہے۔
۲۔ ساری مخلوق اللہ کے بندے اورغلام ہیں۔
۳ ۔ اسباب اور رزق خدا کے ہاتھ میں ہے_
۴ ۔ قضائے خدا ہر زمین میں نافذ ہے ۔
یہ سن کرمیں نے کہا خدا کی قسم آپ ہی کا زاد و راحلہ صحیح طور پر مقدس ہستیوں کا سامان سفر ہے (دمعہ ساکبہ جلد ۳ ص ۴۳۷) علماء کا بیان ہے کہ آپ نے ساری عمر میں ۲۵ حج پا پیادہ کئے ہیں آپ نے سواری پرجب بھی سفر کیا ہے اپنے جانورکو ایک کوڑا بھی نہیں مارا.

آپ کا حلیہ مبارک

امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ آپ کا رنگ گندم گوں (سانولا) اور قد میانہ تھا آپ نحیف اورلاغر قسم کے انسان تھے (نورالابصار ص ۱۲۶، اخبارالاول ص ۱۰۹) ۔

ملا مبین تحریر فرماتے ہیں کہ آپ حسن وجمال،صورت وکمال میں نہایت ہی ممتاز تھے۔ آپ کے چہرہ مبارک پرجب کسی کی نظر پڑتی تھی تو وہ آپ کا احترام کرنے اور آپ کی تعظیم کرنے پر مجبور ہو جاتا تھا(وسیلة النجات ص ۲۱۹) محمد بن طلحہ شافعی رقمطراز ہیں کہ آپ صاف کپڑے پہنتے تھے اورجب راستہ چلتے تھے تونہایت خشوع کے ساتھ راہ روی میں آپ کے ہاتھ زانو سے باہرنہیں جاتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۲۶،۲۶۴) ۔

حضرت امام زین العابدین کی شان عبادت
جس طرح آپ کی عبادت گزاری میں پیروی ناممکن ہے اسی طرح آپ کی شان عبادت کی رقم طرازی بھی دشوار ہے۔ ایک وہ ہستی جس کا مطمع نظر معبود کی عبادت اورخالق کی معرفت میں استغراق کامل ہو اورجو اپنی حیات کا مقصد اطاعت خداوندی ہی کوسمجھتا ہو اورعلم ومعرفت میں حد درجہ کمال رکھتا ہو اس کی شان عبادت کی سطح قرطاس پرکیونکر لایاجا سکتا ہے اورزبان قلم میں کس طرح کامیابی حاصل کرسکتی ہے یہی وجہ ہے کہ علماء کی بے انتہا کاہش وکاوش کے باوجود آپ کی شان عبادت کا مظاہرہ نہیں ہوسکا ”قد بلغ من العبادة مالم یبلغہ احد“ آپ عبادت کی اس منزل پر فائز تھے جس پرکوئی بھی فائز نہیں ہوا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹) ۔

اس سلسلہ میں ارباب علم اورصاحبان قلم جو کچھ کہہ اورلکھ سکے ہیں ان میں سے بعض واقعات وحالات یہ ہیں:

آپ کی حالت وضو کے وقت

وضو نماز کے لیے مقدمہ کی حیثیت رکھتا ہے اوراسی پر نماز کا دارومدار ہوتا ہے ۔ امام زین العابدین علیہ السلام جس وقت مقدمہ نماز یعنی وضو کا ارادہ فرماتے تھے آپ کے رگ و پے میں خوف خدا کے اثرات نمایاں ہوجاتے تھے،علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضو کا قصد فرماتے تھے اور وضوکے لیے بیٹھتے تھے توآپ کے چہرہ مبارک کا رنگ زرد ہو جایا کرتا تھا یہ حالت بار بار دیکھنے کے بعد ان کے گھروالوں نے پوچھا کہ بوقت وضو آپ کے چہرہ کا رنگ زرد کیوں پڑجایا کرتا ہے توآپ نے فرمایا کہ اس وقت میرا تصور کامل اپنے خالق ومعبود کی طرف ہوتا ہے اس لیے اس کی جلالت کے رعب سے میرا یہ حال ہوجایا کرتا ہے (مطالب السؤل ص ۲۶۲) ۔

عالم نمازمیں آپ کی حالت

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ آپ کوعبادت گزاری میں امتیاز کامل حاصل تھا۔ رات بھرجاگنے کی وجہ سے آپ کا سارا بدن زرد رہا کرتا تھا اورخوف خدا میں روتے روتے آپ کی آنکھیں پھول جایا کرتی تھیں اورنمازمیں کھڑے کھڑے آپ کے پاؤں سوج جایا کرتے تھے (اعلام الوری ص ۱۵۳) اور پیشانی پرگھٹے رہا کرتے تھے اورآپ کی ناک کا سرا زخمی رہا کرتا تھا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۹)

علامہ محمد بن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ جب آپ نماز کے لۓ مصلی پرکھڑے ہوا کرتے تھے تو لرزہ براندام ہوجایا کرتے تھے لوگوں نے بدن میں کپکپی اورجسم میں تھرتھری کا سبب پوچھا توارشاد فرمایا کہ میں اس وقت خدا کی بارگاہ میں ہوتا ہوں اوراس کی جلالت مجھے ازخود رفتہ کر دیتی ہے اورمجھ پرایسی حالت طاری کردیتی ہے (مطالب السؤل ص ۲۲۶) ۔

ایک مرتبہ آپ کے گھر میں آگ لگ گئی اورآپ نماز میں مشغول تھے اہل محلہ اورگھر والوں نے بے حد شورمچایا اورحضرت کو پکارا حضور آگ لگی ہوئی ہے مگر آپ نے سر نیازسجدہ بے نیاز سے نہ اٹھایا۔ آگ بجھا دی گئی۔ اختتام نماز پر لوگوں نے آپ سے پوچھا کہ حضور آگ کا معاملہ تھا ہم نے اتنا شورمچایا لیکن آپ نے کوئی توجہ نہ فرمائی۔

آپ نے ارشاد فرمایا ""ہاں"" مگرجہنم کی آگ کے ڈر سے نماز توڑ کر اس آگ کی طرف متوجہ نہ ہوسکا (شواہدالنبوت ص ۱۷۷) ۔

علامہ شیخ صبان مالکی لکھتے ہیں کہ جب آپ وضو کے لیے بیٹھتے تھے تب ہی سے کانپنے لگتے تھے اورجب تیز ہواچلتی تھی تو آپ خوف خدا سے لاغر ہوجانے کی وجہ سے گر کر بے ہوش ہوجایا کرتے تھے (اسعاف الراغبین بر حاشیہ نورالابصار ۲۰۰) ۔

ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت زین العابدین علیہ السلام نمازشب سفروحضر دونوں میں پڑھا کرتے تھے اورکبھی اسے قضا نہیں ہونے دیتے تھے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔

علامہ محمد باقر بحوالہ بحارالانوار تحریر فرماتے ہیں کہ امام علیہ السلام ایک دن نمازمیں مصروف ومشغول تھے کہ امام محمد باقرعلیہ السلام کنوئیں میں گر پڑے ۔ بچہ کے گہرے کنویں میں گرنے سے ان کی ماں بے چین ہوکر رونے لگیں اورکنویں کے گرد پیٹ پیٹ کرچکر لگانے لگیں اورکہنے لگیں ۔ ابن رسول اللہ محمد باقرغرق ہو گئے۔ امام زین العابدین نے بچے کے کنویں میں گرنے کی کوئی پرواہ نہ کی اوراطمینان سے نمازتمام فرمائی اس کے بعد آپ کنویں کے قریب آئے اور پانی کی طرف دیکھا پھر ہاتھ بڑھا کر بلا رسی کے گہرے کنوئیں سے بچے کو نکال لیا بچہ ہنستا ہوا برآمد ہوا، قدرت خداوندی دیکھیے اس وقت نہ بچے کے کپڑے بھیگے تھے اورنہ بدن تر تھا (دمعہ ساکبہ ص ۴۳۰،مناقب جلد ۴ ص ۱۰۹) ۔

امام شبلنجی تحریرفرماتے ہیں کہ طاؤس راوی کا بیان ہے کہ میں نے ایک شب حجر اسود کے قریب جا کر دیکھا کہ امام زین العابدین بارگاہ خالق میں سجدہ ریزی کر رہے ہیں ۔ میں اسی جگہ کھڑا ہو گیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ نے ایک سجدہ کو بےحد طول دے دیا ہے ۔ یہ دیکھ کر میں نے کان لگایا توسنا کہ آپ سجدہ میں فرماتے ہیں ""عبدک بفنائک مسکینک بفنائک سائلک بفنائک فقیرک بفنائک"" یہ سن کر میں نے بھی انہیں کلمات کے ذریعہ سے دعا مانگی فورا قبول ہوئی (نورالابصار ص ۱۲۶ طبع مصر،ارشادمفیدص ۲۹۶) ۔

امام زین العابدین کی شبانہ روز ایک ہزار رکعتیں

علماء کا بیان ہے کہ آپ شب وروزمیں ایک ہزار رکعتیں ادا فرمایا کرتے تھے (صواعق محرقہ ص ۱۱۹،مطالب السؤل ۲۶۷) ۔

چونکہ آپ کے سجدوں کا کوئی شمار نہ تھا اسی لیے آپ کے اعضائے سجود”ثغنہ بعیر“ کے گھٹے کی طرح ہو جایا کرتے تھے اورسال میں کئی مرتبہ کاٹے جاتے تھے (الفرع النامی ص ۱۵۸،دمعہ ساکبہ کشف الغمہ ص ۹۰) ۔

علامہ مجلسی لکھتے ہیں کہ آپ کے مقامات سجود کے گھٹے سال میں دو بار کاٹے جاتے تھے اور ہرمرتبہ پانچ تہ نکلتی تھی (بحارالانوارجلد ۲ ص ۳) علامہ دمیری مورخ ابن عساکر کے حوالہ سے لکھتے ہیں کہ دمشق میں حضرت امام زین العابدین کے نام سے موسوم ایک مسجد ہے جسے""جامع دمشق"" کہتے ہیں (حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

امام زین العابدین علیہ السلام منصب امامت پرفائزہونے سے پہلے

اگرچہ ہماراعقیدہ ہے کہ امام بطن مادر سے امامت کی تمام صلاحیتیوں سے بھرپور آتا ہے تاہم فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری اسی وقت ہوتی ہے جب وہ امام زمانہ کی حیثیت سے کام شروع کرے یعنی ایسا وقت آ جائے جب کائنات ارضی پرکوئی بھی اس سے افضل واعلم برتر و اکمل نہ ہو۔ امام زین العابدین اگرچہ وقت ولادت ہی سے امام تھے لیکن فرائض کی ادائیگی کی ذمہ داری آپ پراس وقت عائد ہوئی جب آپ کے والد ماجد حضرت امام حسین علیہ السلام درجہ شہادت پرفائز ہو کرحیات ظاہری سے محروم ہوگئے۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی ولادت ۳۸ ھ میں ہوئی جبکہ حضرت علی علیہ السلام امام زمانہ تھے دوسال ان کی ظاہری زندگی میں آپ نے حالت طفولیت میں ایام حیات گزارے پھر ۵۰ ھ تک امام حسین علیہ السلام کا زمانہ رہا پھرعاشورا، ۶ ۱ ھ تک امام حسین علیہ السلام فرائض امامت کی انجام دہی فرماتے رہے عاشورکی دوپہر کے بعد سے ساری ذمہ داری آپ پرعائد ہوگئی۔ اس عظیم ذمہ داری سے قبل کے واقعات کا پتہ صراحت کے ساتھ نہیں ملتا،البتہ آپ کی عبادت گزاری اورآپ کے اخلاقی کارنامے بعض کتابوں میں ملتے ہیں ۔ بہرصورت حضرت علی علیہ السلام کے آخری ایام حیات کے واقعات اورامام حسن علیہ السلام کے حالات سے متاثرہونا ایک لازمی امر ہے ۔ پھرامام حسین علیہ السلام کے ساتھ تو ۲۳ ۔ ۲۲ سال گزارے تھے یقینا امام حسین علیہ السلام کے جملہ معاملات میں آپ نے بڑے بیٹے کی حیثیت سے ساتھ دیا ہی ہوگا لیکن مقصد حسین کے فروغ دینے میں آپ نے اپنے عہد امامت کے آغاز ہونے پر انتہائی کمال کردیا۔

واقعہ کربلا کے سلسلہ میں امام زین العابدین کا شاندارکردار

۲۸/ رجب ۶۰ ھ کو آپ حضرت امام حسین کے ہمراہ مدینہ سے روانہ ہوکرمکہ معظمہ پہنچے ۔ چارماہ قیام کے بعد وہاں سے روانہ ہوکر ۲/ محرم الحرام کو وارد کربلا ہوئے۔ وہاں پہنچتے ہی یا پہنچنے سے پہلے آپ علیل ہوگئے اورآپ کی علالت نے اتنی شدت اختیارکی کہ آپ امام حسین علیہ السلام کی شہادت کے وقت تک اس قابل نہ ہوسکے کہ میدان میں جا کر درجہ شہادت حاصل کرتے۔

تاہم فراہم موقع پرآپ نے جذبات نصرت کو بروئے کارلانے کی سعی کی جب کوئی آوازاستغاثہ کان میں آئی آپ اٹھ بیٹھے اورمیدان کار زار میں شدت مرض کے باوجود جا پہنچنے کی سعی بلیغ کی۔ امام کے استغاثہ پرتوآپ خیمہ سے بھی نکل آئے اورایک چوب خیمہ لے کر میدان کا عزم کر دیا۔ ناگاہ امام حسین کی نظرآپ پرپڑگئی اورانہوں نے جنگاہ سے بقولے حضرت زینب کوآواز دی ”بہن سید سجاد کو روکو ورنہ نسل رسول کا خاتمہ ہوجائے گا“ حکم امام سے زینب نے سید سجاد کو میدان میں جانے سے روک لیا یہی وجہ ہے کہ سیدوں کا وجود نظر آ رہا ہے اگرامام زین العابدین علیل ہوکر شہید ہونے سے نہ بچ جاتے تونسل رسول صرف امام محمد باقرمیں محدود رہ جاتی،امام شبلنجی لکھتے ہیں کہ مرض اورعلالت کی وجہ سے آب درجہ شہادت پرفائزنہ ہوسکے (نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

شہادت امام حسین کے بعدجب خیموں میں آگ لگائی گئی توآپ انہیں خیموں میں سے ایک خیمہ میں بدستور پڑے ہوئے تھے،ہماری ہزارجانیں قربان ہوجائیں،حضرت زینب پرکہ انہوں نے اہم فرائض کی ادائیگی کے سلسلہ میں سب سے پہلا فریضہ امام زین العابدین علیہ السلام کے تحفظ کاادا فرمایا اورامام کوبچا لیا الغرض رات گزاری اورصبح نمودارہوئی، دشمنوں نے امام زین العابدین کواس طرح جھنجوڑا کہ آپ اپنی بیماری بھول گۓ۔

آپ سے کہا گیا کہ ناقوں پرسب کوسوار کرو اور ابن زیاد کے دربار میں چلو،سب کوسوارکرنے کے بعد آل محمد کا ساربان پھوپھیوں،بہنوں اورتمام مخدرات کو لئے ہوئے داخل دربار ہوا حالت یہ تھی کہ عورتیں اوربچے رسیوں میں بندھے ہوئے اورامام لوہے میں جکڑے ہوئے دربارمیں پہنچ گئے آپ چونکہ ناقہ کی برہنہ پشت پرسنبھل نہ سکتے تھے اس لیے آپ کے پیروں کوناقہ کی پشت سے باندھ دیا گیا تھا دربارکوفہ میں داخل ہونے کے بعد آپ اورمخدرات عصمت قیدخانہ میں بند کر دئیے گئے،سات روزکے بعد آپ سب کولیے ہوئے شام کی طرف روانہ ہوئے اور ۱۹ منزلیں طے کرکے تقریبا ۳۶/ یوم میں وہاں پہنچے کامل بھائی میں ہے کہ ۱۶/ ربیع الاول ۶۱ ھء کو بدھ کے دن آپ دمشق پہنچے ہیں اللہ رے صبرامام زین العابدین بہنوں اور پھوپھیوں کا ساتھ اور لب شکوہ پرسکوت کی مہر ۔

حدود شام کا ایک واقعہ یہ ہے کہ آپ کے ہاتھوں میں ہتھکڑی، پیروں میں بیڑی اورگلے میں خاردارطوق آہنی پڑا ہوا تھا اس پرمستزادیہ کو لوگ آپ برسا رہے تھے اسی لیے آپ نے بعد واقعہ کربلا ایک سوال کے جواب میں ”الشام الشام الشام“ فرمایاتھا(تحفہ حسینہ علامہ بسطامی)۔

شام پہنچنے کے کئی گھنٹوں یا دنوں کے بعد آپ آل محمد کو لیے ہوۓ سرہائے شہدا سمیت داخل دربار ہوئے پھر قیدخانہ میں بند کر دئیے گئے تقریبا ایک سال قید کی مشقتیں جھیلیں۔

قیدخانہ بھی ایساتھا کہ جس میں تمازت آفتابی کی وجہ سے ان لوگوں کے چہروں کی کھالیں متغیرہوگئی تھیں (لہوف) مدت قید کے بعد آپ سب کولیے ہوئے ۲۰/ صفر ۶۲ ھء کووارد ہوئے آپ کے ہمراہ سرحسین بھی کردیا گیا تھا،آپ نے اسے اپنے پدربزرگوارکے جسم مبارک سے ملحق کیا(ناسخ تواریخ)۔

۸/ ربیع الاول ۶۲ ھ کوآپ امام حسین کا لٹا ہوا قافلہ لیے ہوئے مدینہ منورہ پہنچے،وہاں کے لوگوں نے آہ وزاری اورکمال رنج وغم سے آپ کا استقبال کیا۔ ۱۵ شبانہ وروز نوحہ وماتم ہوتا رہا (تفصیلی واقعات کے لیے کتب مقاتل و سیر ملاحظہ کی جائیں۔

اس عظیم واقعہ کا اثر یہ ہوا کہ زینب کے بال اس طرح سفید ہوگئے تھے کہ جاننے والے انہیں پہچان نہ سکے (احسن القصص ص ۱۸۲ طبع نجف) رباب نے سایہ میں بیٹھنا چھوڑ دیا۔ امام زین العابدین تاحیات گریہ فرماتے رہے (جلاء العیون ص ۲۵۶) اہل مدینہ یزید کی بیعت سے علیحدہ ہو کر باغی ہو گئے بالآخر واقعہ حرہ کی نوبت آ گئی۔

واقعہ کربلا اور حضرت امام زین العابدین کے خطبات
معرکہ کربلا کی غمگین داستان تاریخ اسلام ہی کی نہیں بلکہ تاریخ عالم کا افسوسناک سانحہ ہے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اول سے آخرتک اس ہوش ربا اور روح فرسا واقعہ میں اپنے باپ کے ساتھ رہے اورباپ کی شہادت کے بعد خود اس المیہ کے ہیرو بنے اور پھرجب تک زندہ رہے اس سانحہ کا ماتم کرتے رہے ۔
۱۰/ محرم ۶۱ ھء کاواقعہ یہ اندوہناک حادثہ جس میں ۱۸/ بنی ہاشم اوربہتر اصحاب وانصارکام آئے حضرت امام زین العابدین کی مدت العمرگھلاتا رہا اورمرتے دم تک اس کی یاد فراموش نہ ہوئی اوراس کاصدمہ جانکاہ دور نہ ہوا، آپ یوں تو اس واقعہ کے بعد تقریبا چالیس سال زندہ رہے مگر لطف زندگی سے محروم رہے اورکسی نے آپ کو بشاش اور فرحناک نہ دیکھا، اس جانکاہ واقعہ کربلا کے سلسلہ میں آپ نے جوجابجا خطبات ارشاد فرمائے ہیں ان کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

کوفہ میں آپ کا خطبہ
کتاب لہوف ص ۶۸ میں ہے کہ کوفہ پہنچنے کے بعدامام زین العابدین نے لوگوں کوخاموش رہنے کا اشارہ کیا، سب خاموش ہوگئے، آپ کھڑے ہوئے خدا کی حمد و ثناء کی، حضرت نبی کا ذکر کیا، ان پرصلوات بھیجی۔ پھر ارشاد فرمایا اے لوگو! جو مجھے جانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے جو نہیں جانتا اسے میں بتاتا ہوں میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں،میں اس کا فرزند ہوں جس کی بے حرمتی کی گئی جس کاسامان لوٹا گیا ۔ جس کے اہل وعیال قید کر دئیے گئے۔ میں اس کا فرزند ہوں جوساحل فرات پرذبح کردیا گیا،اوربغیرکفن ودفن چھوڑدیا گیا اور(شہادت حسین)ہمارے فخرکے لیے کافی ہے۔ اے لوگو! تمہارا برا ہو کہ تم نے اپنے لیے ہلاکت کا سامان مہیا کر لیا، تمہاری رائیں کس قدربری ہیں تم کن آنکھوں سے رسول صلعم کودیکھوگے جب رسول صلعم تم سے باز پرس کریں گے کہ تم لوگوں نے میری عترت کو قتل کیا اورمیرے اہل حرم کو ذلیل کیا ”اس لیے تم میری امت میں نہیں""۔

مسجد دمشق(شام) میں آپ کا خطبہ
مقتل ابی مخنف ص ۱۳۵، بحارالانوارجلد ۱۰ ص ۲۳۳،ریاض القدس جلد ۲ ص ۳۲۸، اورروضة الاحباب وغیرہ میں ہے کہ جب حضرت امام زین العابدین علیہ السلام اہل حرم سمیت دربار یزید میں داخل کئے گئے اور ان کومنبر پرجانے کا موقع ملا تو آپ منبر پر تشریف لے گئے اورانبیاء کی طرح شیریں زبان میں نہایت فصاحت و بلاغت کے ساتھ خطبہ ارشاد فرمایا:
اے لوگو! تم میں سے جو مجھے پہچانتا ہے وہ تو پہچانتا ہی ہے، اورجونہیں پہچانتا میں اسے بتاتا ہوں کہ میں کون ہوں؟ سنو، میں علی بن الحسین بن علی بن ابی طالب ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جس نے حج کئے ہیں،اس کا فرزند ہوں جس نے طواف کعبہ کیا ہے اورسعی کی ہے، میں پسر زمزم وصفاہوں، میں فرزند فاطمہ زہرا ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جسے پس گردن سے ذبح کیا گیا، میں اس پیاسے کا فرزند ہوں جوپیاسا ہی دنیا سے اٹھا،میں اس کا فرزند ہوں جس پر لوگوں نے پانی بند کر دیا، حالانکہ تمام مخلوقات پر پانی کوجائز قرار دیا،میں محمد مصطفی صلعم کا فرزند ہوں، میں اس کا فرزند ہوں جو کربلا میں شہید کیا گیا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے انصارزمین میں آرام کی نیند سو گئے۔ میں اس کا پسر ہوں جس کے اہل حرم قید کر دئے گئے میں اس کا فرزند ہوں جس کے بچے بغیرجرم و خطا ذبح کرڈالے گئے، میں اس کا بیٹا ہوں جس کے خیموں میں آگ لگا دی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کا سرنوک نیزہ پربلند کیا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کی کربلا میں بے حرمتی کی گئی، میں اس کا فرزند ہوں جس کاجسم کربلا کی زمین پرچھوڑ دیا گیا اورسر دوسرے مقامات پرنوک نیزہ پربلند کرکے پھرایا گیا میں اس کا فرزند ہوں جس کے اردگرد سوائے دشمن کے کوئی اور نہ تھا،میں اس کا فرزند ہوں جس کے اہل حرم کوقید کرکے شام تک پھرایا گیا، میں اس کا فرزند ہوں جوبے یارو مددگار تھا۔

پھر امام علیہ السلام نے فرمایا لوگو! خدا نے ہم کو پانچ فضیلت بخشی ہیں:
۱ ۔ خدا کی قسم ہمارے ہی گھرمیں فرشتوں کی آمدورفت رہی اورہم ہی معدن نبوت ورسالت ہیں۔

۲ ۔ ہماری شان میں قرآن کی آیتیں نازل کیں، اورہم نے لوگوں کی ہدایت کی۔

۳ ۔ شجاعت ہمارے ہی گھرکی کنیز ہے،ہم کبھی کسی کی قوت وطاقت سے نہیں ڈرے اورفصاحت ہمارا ہی حصہ ہے، جب فصحاء فخر و مباہات کریں۔

۴ ۔ ہم ہی صراط مستقیم اورہدایت کا مرکز ہیں اوراس کے لیے علم کا سرچشمہ ہیں جوعلم حاصل کرناچاہے اوردنیا کے مومنین کے دلوں میں ہماری محبت ہے۔

۵ ۔ ہمارے ہی مرتبے آسمانوں اورزمینوں میں بلند ہیں، اگرہم نہ ہوتے توخدا دنیا کو پیدا ہی نہ کرتا، ہر فخرہمارے فخرکے سامنے پست ہے، ہمارے دوست (روزقیامت ) سیروسیراب ہوں گے اورہمارے دشمن روزقیامت بدبختی میں ہوں گے۔

جب لوگوں نے امام زین العابدین کا کلام سنا توچینخ مار کر رونے اور پیٹنے لگے اوران کی آوازیں بے ساختہ بلند ہونے لگیں یہ حال دیکھ کر یزید گھبرا اٹھا کہ کہیں کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس کے ردعمل میں فورا موذن کوحکم دیا(کہ اذان شروع کرکے) امام کے خطبہ کو منقطع کردے، موذن (گلدستہ اذان پرگیا) _

اورکہا”اللہ اکبر“ (خدا کی ذات سب سے بزرگ و برترہے) امام نے فرمایا تونے ایک بڑی ذات کی بڑائی بیان کی اور ایک عظیم الشان ذات کی عظمت کا اظہارکیا اور جوکچھ کہا”حق“ ہے ۔ پھرموذن نے کہا "اشہد ان لاالہ الااللہ" (میں گواہی دیتا ہوں کہ خداکے سوا کوئی معبود نہیں) امام نے فرمایا میں بھی اس مقصد کے ہر گواہ کے ساتھ گواہی دیتا ہوں اورہرانکار کرنے والے کے خلاف اقرار کرتا ہوں۔

پھرموذن نے کہ” اشہدان محمدارسول اللہ“ (میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد مصطفی اللہ کے رسول ہیں) فبکی علی، یہ سن کرحضرت علی ابن الحسین رو پڑے اور فرمایا اے یزیدمیں تجھ سے خدا کا واسطہ دے کرپوچھتا ہوں بتا حضرت محمد مصطفی میرے نانا تھے یا تیرے، یزید نے کہا آپ کے، آپ نے فرمایا،پھرکیوں تونے ان کے اہلبیت کوشہید کیا، یزید نے کوئی جواب نہ دیا اوراپنے محل میں یہ کہتا ہواچلا گیا۔”لاحاجة لی بالصلواة“ مجھے نمازسے کوئی واسطہ نہیں،اس کے بعد منہال بن عمرکھڑے ہوگئے اورکہا فرزندرسول آپ کا کیاحال ہے، فرمایا اے منہال ایسے شخص کا کیاحال پوچھتے ہوجس کا باپ(نہایت بے دردی سے) شہید کردیا گیا ہو، جس کے مددگارختم کردئیے گئے ہوں جواپنے چاروں طرف اپنے اہل حرم کوقیدی دیکھ رہا ہو،جن کا نہ پردہ رہ گیا نہ چادریں رہ گئیں، جن کانہ کوئی مددگار ہے نہ حامی، تم تو دیکھ رہے ہو کہ میں مقید ہوں، ذلیل و رسوا کیا گیا ہوں، نہ کوئی میرا ناصر ہے،نہ مددگار، میں اور میرے اہل بیت لباس کہنہ مین ملبوس ہیں ہم پرنئے لباس حرام کردئیے گئے ہیں اب جوتم میراحال پوچھتے ہوتومیں تمہارے سامنے موجود ہوں تم دیکھ ہی رہے ہو،ہمارے دشمن ہمیں برا بھلا کہتے ہیں اورہم صبح وشام موت کا انتظار کرتے ہیں۔

پھرفرمایاعرب وعجم اس پرفخرکرتے ہیں کہ حضرت محمد مصطفی ان میں سے تھے، اور قریش عرب پراس لیے فخرکرتے ہیں کہ آنحضرت صلعم قریش میں سے تھے اور ہم ان کے اہلبیت ہیں لیکن ہم کوقتل کیا گیا، ہم پرظلم کیا گیا،ہم پرمصیبتوں کے پہاڑ توڑے گئے اورہم کوقید کرکے دربدر پھرایا گیا،گویا ہماراحسب بہت گرا ہوا ہے اور ہمارا نسب بہت ذلیل ہے، گویا ہم عزت کی بلندیوں پرنہیں چڑھے اوربزرگوں کے فرش پرجلوہ افروز نہیں ہوئے آج گویا تمام ملک یزید اور اس کے لشکر کا ہو گیا اور آل مصطفی صلعم یزید کی ادنی غلام ہوگئی ہے، یہ سننا تھا کہ ہرطرف سے رونے پیٹنے کی صدائیں بلند ہوئیں۔

یزید بہت خائف ہوا کہ کوئی فتنہ نہ کھڑا ہوجائے اس نے اس شخص سے کہا جس نے امام کومنبر پرتشریف لے جانے کے لیے کہا تھا ”ویحک اردت بصعودہ زوال ملکی“ تیرا برا ہو توان کومنبر بربٹھا کرمیری سلطنت ختم کرناچاہتا ہے۔ اس نے جواب دیا، بخدا میں یہ نہ جانتا تھا کہ یہ لڑکا اتنی بلند گفتگو کرے گا یزید نے کہا کیا تونہیں جانتا کہ یہ اہلبیت نبوت اور معدن رسالت کا ایک فرد ہے، یہ سن کرموذن سے نہ رہا گیا اوراس نے کہا اے یزید! اذاکان کذالک فلماقتلت اباہ“ جب تو یہ جانتا تھا تو تو نے ان کے پدربزرگوارکوکیوں شہید کیا،موذن کی گفتگو سن کر یزید برہم ہوگیا،”فامربضرب عنقہ“ اورموذن کی گردن مار دینے کاحکم دیدیا۔

مدینہ کے قریب پہنچ کر آپ کا خطبہ

مقتل ابی مخنف ص ۸۸ میں ہے (ایک سال تک قیدخانہ شام کی صعوبت برداشت کرنے کے بعدجب اہل بیت رسول کی رہائی ہوئی اور یہ قافلہ کربلا ہوتا ہوا مدینہ کی طرف چلا تو قریب مدینہ پہنچ کر امام علیہ السلام نے لوگوں کوخاموش ہوجانے کا اشارہ کیا، سب کے سب خاموش ہوگئے آپ نے فرمایا:

حد اس خدا کی جو تمام دنیا کا پروردگار ہے، روزجزاء کا مالک ہے، تمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے جواتنا دور ہے کہ بلند آسمان سے بھی بلند ہے اوراتنا قریب ہے کہ سامنے موجود ہے اورہماری باتوں کو سنتا ہے، ہم خدا کی تعریف کرتے ہیں اوراس کا شکر بجالاتے ہیں عظیم حادثوں،زمانے کی ہولناک گردشوں، دردناک غموں، خطرناک آفتوں، شدید تکلیفوں، اورقلب وجگر کو ہلا دینے والی مصیبتوں کے نازل ہونے کے وقت اے لوگو! صرف خداکے لیے حمد ہے، ہم بڑے بڑے مصائب میں مبتلا کئے گئے، دیواراسلام میں بہت بڑا رخنہ(شگاف) پڑ گیا، حضرت ابوعبداللہ الحسین اوران کے اہل بیت شہی دکر دیے گئے، ان کی عورتیں اور بچے قید کر دئیے گئے اور(لشکر یزید نے) ان کے سرہائے مبارک کوبلند نیزوں پررکھ کر شہروں میں پھرایا، یہ وہ مصیبت ہے جس کے برابرکوئی مصیبت نہیں، اے لوگو! تم میں سے کون مرد ہے جوشہادت حسین کے بعدخوش رہے یا کون سا دل ہے جوشہادت حسین سے غمگین نہ ہو یا کونسی آنکھ ہے جوآنسوؤں کوروک سکے، شہادت حسین پر ساتوں آسمان روئے، سمندر اور اس کی شاخیں روئیں، مچھلیاں اور سمندر کے گرداب روئے ملائکہ مقربین اور تمام آسمان والے روئے، اے لوگو! کون سا قطب ہے جوشہادت حسین کی خبرسن کر نہ پھٹ جائے، کونسا قلب ہے جومحزون نہ ہو، کونسا کان ہے جو اس مصیبت کوسن کرجس سے دیواراسلام میں رخنہ پڑا،بہرہ نہ ہو، اے لوگو! ہماری یہ حالت تھی کہ ہم کشاں کشاں پھرائے جاتے تھے، دربدر ٹھکرائے جاتے تھے ذلیل کئے گئے شہروں سے دورتھے، گویا ہم کو اولاد ترک وکابل سمجھ لیا گیا تھا،حالانکہ نہ ہم نے کوئی جرم کیا تھا نہ کسی برائی کا ارتکاب کیا تھا نہ دیواراسلام میں کوئی رخنہ ڈالا تھا اورنہ ان چیزوں کے خلاف کیا تھاجو ہم نے اپنے آباؤ اجداد سے سنا تھا،خداکی قسم اگرحضرت نبی بھی ان لوگوں(لشکریزید) کو ہم سے جنگ کرنے کے لیے منع کرتے (تویہ نہ مانتے) جیسا کہ حضرت نبی نے ہماری وصایت کااعلان کیا(اوران لوگوں نے مانا) بلکہ جتنا انہوں نے کیا ہے اس سے زیادہ سلوک کرتے،ہم خدا کے لیے ہیں اورخدا کی طرف ہماری باز گشت ہے""

روضہ رسول پر امام علیہ السلام کی فریاد

مقتل ابی مخنف ص ۱۴۳ میں ہے کہ جب یہ لٹا ہوا قافلہ مدینہ میں داخل ہوا توحضرت ام کلثوم گریہ و بکا کرتی ہوئی مسجد نبوی میں داخل ہوئیں اورعرض کی، اے نانا آپ پرمیرا سلام ہو”انی ناعیة الیک ولدک الحسین“ میں آپ کو آپ کے فرزندحسین کی خبرشہادت سناتی ہوں، یہ کہنا تھا کہ قبررسول سے گریہ کی صدا بلند ہوئی اور تمام لوگ رونے لگے پھرحضرت امام زین العابدین علیہ السلام اپنے نانا کی قبرمبارک پر تشریف لائے اوراپنے رخسار قبر مطہر سے رگڑتے ہوئے یوں فریاد کرنے لگے:

اناجیک یا جداہ یا خیر مرسل
اناجیک محزونا علیک موجلا
سبینا کما تسبی الاماء ومسنا
حبیبک مقتول و نسلک ضائع
اسیرا و ما لی حامیا و مدافع
من الضر ما لاتحملہ الاصابع

ترجمہ: میں آپ سے فریاد کرتا ہوں اے نانا، اے تمام رسولوں میں سب سے بہتر،آپ کا محبوب ”حسین“ شہید کر دیا گیا اور آپ کی نسل تباہ وبرباد کر دی گئی، اے نانا میں رنج وغم کا مارا آپ سے فریاد کرتا ہوں مجھے قید کیا گیا میرا کوئی حامی ومددگار نہ تھا۔ اے نانا ہم سب کواس طرح قید کیا گیا،جس طرح (لاوارث) کنیزوں کوقید کیا جاتا ہے،اے نانا ہم پراتنے مصائب ڈھائے گئے جوانگلیوں پر گنے نہیں جاسکتے۔

امام زین العابدین اور خاک شفا

مصباح المتہجد میں ہے کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کے پاس ایک کپڑے میں بندھی ہوئی تھوڑی سی خاک شفاء ہوا کرتی تھی (مناقب جلد ۲ ص ۳۲۹ طبع ملتان)۔

حضرت کے ہمراہ خاک شفاء کا ہمیشہ رہنا تین حال سے خالی نہ تھا یا اسے تبرک رکھتے تھے یا اس پرنمازمیں سجدہ کرتے تھے یا اسے بحیثیت محافظ رکھتے تھے اورلوگوں کویہ بتانا مقصود رہتا تھا کہ جس کے پاس خاک شفاء ہو وہ جملہ مصائب و آلام سے محفوظ رہتا ہے اوراس کا مال چوری نہیں ہوتا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے ۔

امام زین العابدین اور محمد حنفیہ کے در میان حجر اسود کا فیصلہ

آل محمد کے مدینہ پہنچنے کے بعد امام زین العابدین کے چچا محمدحنفیہ نے بروایت اہل اسلام امام سے خواہش کی کہ مجھے تبرکات امامت دیدو، کیونکہ میں بزرگ خاندان اور امامت کا اہل و حقدارہوں آپ نے فرمایا کہ حجر اسود کے پاس چلو وہ فیصلہ کردے گا جب یہ حضرات اس کے پاس پہنچے تووہ بحکم خدایوں بولا ”امامت زین العابدین کاحق ہے“ اس فیصلہ کودونوں نے تسلیم کرلیا(شواہدالنبوت ص ۱۷۶) ۔

کامل مبرد میں ہے کہ اس واقعہ کے بعد سے محمدحنفیہ،امام زین العابدین کی بڑی عزت کرتے تھے ایک دن ابوخالد کابلی نے ان سے اس کی وجہ پوچھی توکہا کہ حجراسود نے خلافت کا ان کے حق میں فیصلہ دے دیا ہے اوریہ امام زمانہ ہیں یہ سنکر وہ مذہب امامیہ کا قائل ہوگیا(مناقب جلد ۲ ص ۳۲۶) ۔

ثبوت امامت میں امام زین العابدین کاکنکری پرمہرفرمانا

اصول کافی میں ہے کہ ایک عورت جس کی عمر ۱۱۳ سال کی ہوچکی تھی ایک دن امام زین العابدین کے پاس آئی اس کے پاس وہ کنکری تھی جس پرحضرت علی، امام حسن،امام حسین کی مہرامامت لگی ہوئی تھی اس کے آتے ہی بلا کہے ہوئے آپ نے فرمایا کہ وہ کنکری لاجس پرمیرے آباؤاجداد کی مہریں لگی ہوئی ہیں اس پر میں بھی مہر کر دوں چنانچہ اس نے کنکری دیدی آپ نے اسے مہر کرکے واپس کردی، اوراس کی جوانی بھی پلٹا دی،وہ خوش وخرم واپس چلی گئی (دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۶) ۔

واقعہ حرہ اور امام زین العابدین علیہ السلام

مستند تواریخ میں ہے کہ کربلا کے بے گناہ قتل نے اسلام میں ایک تہلکہ ڈال دیا ۔ خصوصا ایران میں ایک قوی جوش پیدا کردیا،جس نے بعد میں بنی عباس کو بنی امیہ کے غارت کرنے میں بڑی مدد دی چونکہ یزید تارک الصلواة اورشارب الخمر تھا اور بیٹی بہن سے نکاح کرتا اورکتوں سے کھیلتا تھا،اس کی ملحدانہ حرکتوں اورامام حسین کے شہید کرنے سے مدینہ میں اس قدرجوش پھیلا کر ۶۲ ھء میں اہل مدینہ نے یزید کی معطلی کا اعلان کر دیا اورعبداللہ بن حنظلہ کواپنا سردار بنا کریزید کے گورنرعثمان بن محمدبن ابی سفیان کو مدینہ سے نکال دیا، سیوطی تاریخ الخلفاء میں لکھتا ہے کہ غسیل الملائکہ (حنظلہ) کہتے ہیں کہ ہم نے اس وقت یزید کی خلافت سے انکارنہیں کیاجب تک ہمیں یہ یقین نہیں ہوگیا کہ آسمان سے پتھربرس پڑیں گے غضب ہے کہ لوگ ماں بہنوں،اوربیٹیوں سے نکاح کریں ۔ علانیہ شرابیں پئیں اورنمازچھوڑبیٹھیں ۔

یزید نے مسلم بن عقبہ کوجوخونریزی کی کثرت کے سبب ”مسرف“ کے نام سے مشہور ہے،فوج کثیر دے کر اہل مدینہ کی سرکوبی کوروانہ کیا ۔ اہل مدینہ نے باب الطیبہ کے قریب مقام”حرہ“ پرشامیوں کامقابلہ کیا،گھمسان کارن پڑا،مسلمانوںکی تعداد شامیوں سے بہت کم تھی۔ باوجودیکہ انہوں نے داد مردانگی دی،مگرآخرشکست کھائی،مدینہ کے چیدہ چیدہ بہادر رسول اللہ کے بڑے بڑے صحابی انصارومہاجراس ہنگامہ آفت میں شہید ہوئے، شامی شہرمیں گھس گئے مزارات کوان کی زینت وآرایش کی خاطرمسمارکردیا،ہزاروں عورتوں سے بدکاری کی ہزاروں باکرہ لڑکیوں کا ازالہ بکارت کر ڈالا،شہر کو لوٹ لیا،تین دن قتل عام کرایا،دس ہزارسے زائد باشندگان مدینہ جن میں سات سومہاجروانصاراوراتنے ہی حاملان وحافظان قرآن علماء وصلحاء ومحدث تھے اس واقعہ میں مقتول ہوئے ہزاروں لڑکے لڑکیاں غلام بنائی گئیں اورباقی لوگوں سے بشرط قبول غلامی یزید کی بیعت لی گئی۔

مسجد نبوی اورحضرت کے حرم محترم میں گھوڑے بندھوائے گئے یہاں تک کہ لید کے انبار لگ گئے یہ واقعہ جو تاریخ اسلام میں واقعہ حرہ کے نام سے مشہور ہے ۔ ۲۷/ ذی الحجہ ۶۳ ھء کو ہوا تھا اس واقعہ پرمولوی امیرعلی لکھتے ہیں کہ کفروبت پرستی نے پھرغلبہ پایا، ایک فرنگی مورخ لکھتا ہے کہ کفرکا دوبارہ جنم لینا اسلام کے لیے سخت خوفناک اورتباہی بخش ثابت ہوا بقیہ تمام مدینہ کو یزید کا غلام بنایا گیا،جس نے انکار کیا اس کا سر اتار لیا گیا، اس رسوائی سے صرف دو آدمی بچے ”علی بن الحسین“ اورعلی بن عبداللہ بن عباس ان سے یزید کی بیعت بھی نہیں لی گئی ۔

مدارس شفاخانے اوردیگررفاہ عام کی عمارتیں جوخلفاء کے زمانے میں بنائی گئیں تھی یا توبند کردی گئیں یا مسماراورعرب پھر ایک ویرانہ بن گیا،اس کے چند مدت بعدعلی بن الحسین کے پوتے جعفرصادق نے اپنے جدامجدعلی مرتضی کا مکتب خانہ پھرمدینہ میں جاری کیا،مگریہ صحرا میں صرف ایک ہی سچا نخلستان تھا اس کے چاروں طرف ظلمت وضلالت چھائی ہوئی تھی،مدینہ پھرکبھی نہ سنبھل سکا، بنی امیہ کے عہد میں مدینہ ایسی اجڑی بستی ہوگیا کہ جب منصورعباس زیارت کومدینہ میں آیا تواسے ایک رہنما کی ضرورت پڑی جواس کووہ مکانات بتائے جہاں ابتدائی زمانہ کے بزرگان اسلام رہا کرتے تھے (تاریخ اسلام جلد ۱ ص ۳۶، تاریخ ابوالفداء جلد ۱ ص ۱۹۱،تاریخ فخری ص ۸۶، تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۹،صواعق محرقہ ص ۱۳۲) ۔

واقعہ حرہ اور آپ کی قیام گاہ

تواریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کی ایک چھوٹی سی جگہ ”منبع“ نامی تھی جہاں کھیتی باڑی کا کام ہوتا تھا واقعہ حرہ کے موقع پرآپ شہرمدینہ سے نکل کراپنے گاؤں چلے گئے تھے (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) یہ وہی جگہ ہے جہاں حضرت علی خلیفہ عثمان کے عہد میں قیام پذیر تھے (عقدفریدجلد ۲ ص ۲۱۶) ۔

خاندانی دشمن مروان کے ساتھ آپ کی کرم گستری

واقعہ حرہ کے موقع پرجب مروان نے اپنی اور اہل وعیال کی تباہی وبربادی کا یقین کر لیا توعبداللہ بن عمرکے پاس جا کر کہنے لگا کہ ہماری محافظت کرو، حکومت کی نظر میری طرف سے بھی پھری ہوئی ہے،میں جان اورعورتوں کی بے حرمتی سے ڈرتا ہوں، انہوں نے صاف انکار کر دیا، اس وقت وہ امام زین العابدین کے پاس آیا اوراس نے اپنی اور اپنے بچوں کی تباہی وبربادی کاحوالہ دے کرحفاظت کی درخواست کی حضرت نے یہ خیال کیے بغیر کہ یہ خاندانی ہمارا دشمن ہے اوراس نے واقعہ کربلا کے سلسلہ میں پوری دشمنی کا مظاہرہ کیا ہے ۔آپ نے فرما دیا بہترہے کہ اپنے بچوں کومیرے پاس بمقام منبع بھیجدو، جہاں میرے بچے رہیں گے تمہارے بھی رہیں گے چنانچہ وہ اپنے بال بچوں کوجن میں حضرت عثمان کی بیٹی عائشہ بھی تھیں آپ کے پاس پہنچا گیا اورآپ نے سب کی مکمل حفاظت فرمائی (تاریخ کامل جلد ۴ ص ۴۵) ۔

دشمن ازلی حصین بن نمیرکے ساتھ آپ کی کرم نوازی

مدینہ کو تباہ و برباد کرنے کے بعد مسلم بن عقبہ ابتدائے ۶۴ ھ میں مدینہ سے مکہ کو روانہ ہوگیا اتفاقا راہ میں بیمار ہو کروہ گمراہ راہی جہنم ہو گیا، مرتے وقت اس نے حصین بن نمیر کو اپنا جانشین مقررکردیا ۔اس نے وہاں پہنچ کرخانہ کعبہ پرسنگ باری کی اوراس میں آگ لگا دی، اس کے بعد مکمل محاصرہ کرکے عبداللہ ابن زبیر کوقتل کرناچاہا اس محاصرہ کوچالیس دن گزرے تھے کہ یزید پلید واصل جہنم ہوگیا، اس کے مرنے کی خبرسے ابن زبیر نے غلبہ حاصل کر لیا اور یہ وہاں سے بھاگ کرمدینہ جا پہنچا۔

مدینہ کے دوران قیام میں اس معلون نے ایک دن بوقت شب چند سواروں کو لے کرفوج کے غذائی سامان کی فراہمی کے لیے ایک گاؤں کی راہ پکڑی،راستہ میں اس کی ملاقات حضرت امام زین العابدین سے ہوگئی،آپ کے ہمراہ کچھ اونٹ تھے جن پرغذائی سامان لدا ہوا تھا اس نے آپ سے وہ غلہ خریدناچاہا، آپ نے فرمایا کہ اگرتجھے ضرورت ہے تو یونہی لے لے ہم اسے فروخت نہیں کرسکتے (کیونکہ میں اسے فقراء مدینہ کے لیے لایا ہوں) اس نے پوچھا کہ آپ کانام کیا ہے،آپ نے فرمایا مجھے ”علی بن الحسین“ کہتے ہیں پھرآپ نے اس سے نام دریافت کیا تواس نے کہا میں حصین بن نمیرہوں، اللہ رے، آپ کی کرم نوازی، آپ جاننے کہ باوجود کہ یہ میرے باپ کے قاتلوں میں سے ہے اسے ساراغلہ مفت دیدیا(اورفقراء کے لیے دوسرابندوبست فرمایا) ۔ اس نے جب آپ کی یہ کرم گستری دیکھی اوراچھی طرح پہچان بھی لیا توکہنے لگا کہ یزید کا انتقال ہوچکا ہے۔ آپ سے زیادہ مستحق خلافت کوئی نہیں، آپ میرے ساتھ تشریف لے چلیں، میں آپ کوتخت خلافت پر بٹھاؤں گا،آپ نے فرمایا کہ میں خداوندعالم سے عہد کرچکا ہوں کہ ظاہری خلافت قبول نہ کرو ں گا، یہ فرما کر آپ اپنے دولت سرا کوتشریف لے گئے(تاریخ طبری فارسی ص ۶۴۴) ۔

امام زین العابدین اور فقراء مدینہ کی کفالت
علامہ ابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فقراء مدینہ کے سو گھروں کی کفالت فرماتے تھے اورسارا سامان ان کے گھر پہنچایا کرتے تھے جنہیں آپ بہ بھی معلوم نہ ہونے دیتے تھے کہ یہ سامان خوردونوش رات کوکون دے جاتا ہے آپ کا اصول یہ تھا کہ بوریاں پشت پرلاد کر گھروں میں روٹی اور آٹا وغیرہ پہنچاتے تھے اور یہ سلسلہ تابحیات جاری رہا، بعض معززین کا کہنا ہے کہ ہم نے اہل مدینہ کویہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ امام زین العابدین کی زندگی تک ہم خفیہ غذائی رسد سے محروم نہیں ہوئے۔ (مطالب السؤل ص ۲۶۵،نورالابصار ص ۱۲۶) ۔

امام زین العابدین اور بنیاد کعبہ محترمہ و نصب حجراسود

۷۱ ھ میں عبدالملک بن مروان نے عراق پر لشکرکشی کرکے مصعب بن زبیر کوقتل کیا بھر ۷۲ ھء میں حجاج بن یوسف کو ایک عظیم لشکر کے ساتھ عبداللہ بن زبیر کو قتل کرنے کے لیے مکہ معظمہ روانہ کیا۔(ابوالفداء)۔
وہاں پہنچ کرحجاج نے ابن زبیر سے جنگ کی ابن زبیرنے زبردست مقابلہ کیا اوربہت سی لڑائیاں ہوئیں،آخرمیں ابن زبیر محصورہوگئے اورحجاج نے ابن زبیرکوکعبہ سے نکالنے کے لیے کعبہ پرسنگ باری شروع کردی، یہی نہیں بلکہ اسے کھدوا ڈالا، ابن زبیرجمادی الآخر ۷۳ ھء میں قتل ہوا(تاریخ ابن الوردی)۔ اورحجاج جوخانہ کعبہ کی بنیاد تک خراب کرچکا تھا اس کی تعمیرکی طرف متوجہ ہوا۔ علامہ صدوق کتاب علل الشرائع میں لکھتے ہیں کہ حجاج کے ہدم کعبہ کے موقع پرلوگ اس کی مٹی تک اٹھا کر لے گئے اورکعبہ کواس طرح لوٹ لیا کہ اس کی کوئی پرانی چیز باقی نہ رہی، پھرحجاج کوخیال پیداہوا کہ اس کی تعمیرکرانی چاہئے چنانچہ اس نے تعمیرکا پروگرام مرتب کر لیا اور کام شروع کرا دیا،کام کی ابھی بالکل ابتدائی منزل تھی کہ ایک اژدھا برآمد ہو کر ایسی جگہ بیٹھ گیاجس کے ہٹے بغیر کام آگے نہیں بڑھ سکتا تھا لوگوں نے اس واقعہ کی اطلاع حجاج کودی، حجاج گھبرا اٹھا اورلوگوں کوجمع کرکے ان سے مشورہ کیا کہ اب کیا کرناچاہئے جب لوگ اس کاحل نکالنے سے قاصر رہے توایک شخص نے کھڑے ہوکرکہا کہ آج کل فرزندرسول حضرت امام زین العابدین علیہ السلام یہاں آئے ہوئے ہیں، بہترہوگا کہ ان سے دریافت کرایاجائے یہ مسئلہ ان کے علاوہ کوئی حل نہیں کرسکتا، چنانچہ حجاج نے آپ کو زحمت تشریف آوری دی، آپ نے فرمایا کہ اے حجاج تو نے خانہ کعبہ کواپنی میراث سمجھ لیا ہے تو نے تو بنائے ابراہیم علیہ السلام کو اکھڑوا کر راستہ میں ڈلوا دیا ہے ”سن“ تجھے خدا اس وقت تک کعبہ کی تعمیرمیں کامیاب نہ ہونے دیے گا جب تک توکعبہ کا لٹا ہواسامان واپس نہ منگائے گا، یہ سن کراس نے اعلان کیا کہ کعبہ سے متعلق جوشے بھی کسی کے پاس ہووہ جلد سے جلد واپس کرے، چنانچہ لوگوں نے پتھرمٹی وغیرہ جمع کردی جب آپ اس کی بنیاد استوارکی اورحجاج سے فرمایا کہ اس کے اوپرتعمیر کراؤ ”فلذالک صار البیت مرتفعا“ پھراسی بنیاد پرخانہ کعبہ کی تعمیرہوئی (کتاب الخرائج و الجرائح میں علامہ قطب راوندی لکھتے ہیں کہ جب تعمیرکعبہ اس مقام تک پہنچی جس جگہ حجراسود نصب کرنا تھا تو یہ دشواری پیش ہوئی کہ جب کوئی عالم،زاہد، قاضی اسے نصب کرتا تھا تو”یتزلزل ویضطرب ولایستقر“ حجراسود متزلزل اور مضطرب رہتا اور اپنے مقام پرٹہرتا نہ تھا بالآخر امام زین العابدین علیہ السلام بلائے گئے اورآپ نے بسم اللہ کہہ کر اسے نصب کردیا، یہ دیکھ کر لوگوں نے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا(دمعہ ساکبہ جلد ۲ ص ۴۳۷) ۔
علماء ومورخین کا بیان ہے کہ حجاج بن یوسف نے یزید بن معاویہ ہی کی طرح خانہ کعبہ پرمنجنیق سے پتھروغیرہ پھنکوائے تھے۔

امام زین العابدین اور عبدالملک بن مروان کا حج
بادشاہ دنیاعبدالملک بن مروان اپنے عہد حکومت میں اپنے پایہ تخت سے حج کے لیے روانہ ہو کر مکہ معظمہ پہنچا اوربادشاہ دین حضرت امام زین العابدین بھی مدینہ سے روانہ ہو کر پہنچ گئے مناسک حج کے سلسلہ میں دونوں کا ساتھ ہو گیا، حضرت امام زین العابدین آگے آگے چل رہے تھے اور بادشاہ پیچھے چل رہا تھا عبدالملک بن مروان کو یہ بات ناگوارہوئی اوراس نے آپ سے کہا کیا میں نے آپ کے باپ کو قتل کیا ہے جو آپ میری طرف متوجہ نہیں ہوتے، آپ نے فرمایا کہ جس نے میرے باپ کوقتل کیا ہے اس نے اپنی دیناوآخرت خراب کرلی ہے کیا توبھی یہی حوصلہ رکھتا ہے۔ اس نے کہا نہیں میرا مطلب یہ ہے کہ آپ میرے پاس آئیں تاکہ میں آپ سے کچھ مالی سلوک کروں، آ پ نے ارشاد فرمایا مجھے تیرے مال دنیا کی ضرورت نہیں ہے مجھے دینے والاخدا ہے یہ کہہ کر آپ نے اسی جگہ زمین پر ردائے مبارک ڈال دی اورکعبہ کی طرف اشارہ کرکے کہا،میرے مالک اسے بھر دے، امام کی زبان سے الفاظ کا نکلنا تھا کہ ردائے مبارک موتیوں سے بھرگئی،آپ نے اسے راہ خدا میں دیدیا(دمعہ ساکبہ،جنات الخلود ص ۲۳) ۔

امام زین العابدین علیہ السلام اخلاق کی دنیا میں
امام زین العابدین علیہ السلام چونکہ فرزندرسول تھے اس لئے آپ میں سیرت محمدیہ کاہونالازمی تھا علامہ محمدابن طلحہ شافعی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ کوبرا بھلا کہا، آپ نے فرمایا بھائی میں نے تو تیرا کچھ نہیں بگاڑا، اگر کوئی حاجت رکھتا ہے تو بتاتا کہ میں پوری کروں،وہ شرمندہ ہو کرآپ کے اخلاق کا کلمہ پڑھنے لگا (مطالب السؤل ص ۲۶۷) ۔

علامہ ابن حجرمکی لکھتے ہیں،ایک شخص نے آپ کی برائی آپ کے منہ پرکی، آپ نے اس سے بے توجہی برتی، اس نے مخاطب کرکے کہا،میں تم کو کہہ رہا ہوں، آپ نے فرمایا،میں حکم خدا”واعرض عن الجاہلین“ جاہلوں کی بات کی پرواہ نہ کرو پرعمل کر رہا ہوں (صواعق محرقہ ص ۱۲۰) ۔

علامہ شبلنجی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے آ کر کہا کہ فلاں شخص آپ کی برائی کررہا تھا آپ نے فرمایا کہ مجھے اس کے پاس لے چلو، جب وہاں پہنچے تواس سے فرمایا بھائی جوبات تو نے میرے لیے کہی ہے، اگرمیں نے ایسا کیاہو توخدا مجھے بخشے اوراگرنہیں کیا توخدا تجھے بخشے کہ تو نے بہتان لگایا۔

ایک روایت میں ہے کہ آپ مسجد سے نکل کرچلے توایک شخص آپ کوسخت الفاظ میں گالیاں دینے لگا آپ نے فرمایا کہ اگرکوئی حاجت رکھتا ہے تومیں پوری کروں، ”اچھا لے“ یہ پانچ ہزاردرہم،وہ شرمندہ ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے کہ ایک شخص نے آپ پربہتان باندھا،آپ نے فرمایا میرے اورجہنم کے درمیان ایک گھاٹی ہے،اگرمیں نے اسے طے کرلیا تو پرواہ نہیں جوجی چاہے کہواوراگراسے پار نہ کرسکا تومیں اس سے زیادہ برائی کامستحق ہوں جوتم نے کی ہے (نورالابصار ص ۱۲۷ ۔ ۱۲۶) ۔

علامہ دمیری لکھتے ہیں کہ ایک شامی حضرت علی کوگالیاں دے رہا تھا،امام زین العابدین نے فرمایا بھائی تم مسافرمعلوم ہوتے ہو،اچھا میرے ساتھ چلو،میرے یہاں قیام کرو،اورجوحاجت رکھتے ہو بتاؤ تاکہ میں پوری کروں۔ وہ شرمندہ ہوکرچلاگیا(حیواة الحیوان جلد ۱ ص ۱۲۱) ۔

علامہ طبرسی لکھتے ہیں کہ ایک شخص نے آپ سے بیان کیا کہ فلاں شخص آپ کوگمراہ اوربدعتی کہتا ہے،آپ نے فرمایا افسوس ہے کہ تم نے اس کی ہمنشینی اوردوستی کا کوئی خیال نہ کیا، اورا سکی برائی مجھ سے بیان کردی،دیکھو یہ غیبت ہے،اب ایسا کبھی نہ کرنا(احتجاج ص ۳۰۴) ۔

جب کوئی سائل آپ کے پاس آتا تھا توخوش و مسرور ہوجا تے تھے اور فرماتے تھے خدا تیرا بھلا کرے کہ تو میرا زاد راہ آخرت اٹھانے کے لیے آ گیا ہے (مطالب السؤل ص ۲۶۳) ۔ امام زین العابدین علیہ السلام صحیفہ کاملہ میں فرماتے ہیں خداوند میراکوئی درجہ نہ بڑھا،مگریہ کہ اتنا ہی خود میرے نزدیک مجھ کوگھٹا اورمیرے لیے کوئی ظاہری عزت نہ پیدا کرمگریہ کہ خود میرے نزدیک اتنی ہی باطنی لذت پیدا کردے۔

امام زین العابدین اور صحیفہ کاملہ
کتاب صحیفہ کاملہ آپ کی دعاؤں کا مجموعہ ہے اس میں بے شمارعلوم وفنون کے جوہرموجود ہیں یہ پہلی صدی کی تصنیف ہے (معالم العلماء ص ۱ طبع ایران)۔

اسے علماء اسلام نے زبورآل محمد اور انجیل اہلبیت کہا ہے (ینابیع المودة ص ۴۹۹،فہرست کتب خانہ طہران ص ۳۶) ۔ اوراس کی فصاحت وبلاغت معانی کو دیکھ کراسے کتب سماویہ اورصحف لوحیہ وعرشیہ کا درجہ دیا گیا ہے (ریاض السالکین ص ۱) اس کی چالیس شرحیں ہیں جن میں میرے نزدیک ریاض السالکین کو فوقیت حاصل ہے۔

امام زین العابدین عمربن عبدالعزیز کی نگاہ میں
۸۶ ھ میں عبدالملک بن مروان کے انتقال کے بعد اس کا بیٹا ولید بن عبدالملک خلیفہ بنایا گیا ۔ یہ حجاج بن یوسف کی طرح نہایت ظالم وجابرتھا اسی کے عہد ظلمت مین عمربن عبدالعزیزجوکہ ولید کاچچا زاد بھائی تھا حجازکا گورنر ہوا ۔ یہ بڑا منصف مزاج اورفیاض تھا،اسی کے عہد گورنری کا ایک واقعہ یہ ہے کہ ۸۷ ھ ء میں سرورکائنات کے روضہ کی ایک دیوارگرگئی تھی جب اس کی مرمت کاسوال پیدا ہوا، اوراس کی ضرورت محسوس ہوئی کہ کسی مقدس ہستی کے ہاتھ سے اس کی ابتداء کی جائے توعمربن عبدالعزیزنے حضرت امام زین العابدین علیہ السلام ہی کوسب پرترجیح دی (وفاء الوفاء جلد ۱ ص ۳۸۶) ۔

اسی نے فدک واپس کیا تھا اورامیرالمومنین پرسے تبراء کی وہ بدعت جومعاویہ نے جاری کی تھی، بند کرائی تھی۔

امام زین العابدین علیہ السلام کی شہادت

آپ اگرچہ گوشہ نشینی کی زندگی بسرفرما رہے تھے لیکن آپ کے روحانی اقتدارکی وجہ سے بادشاہ وقت ولید بن عبدالملک نے آپ کو زہر دیدیا، اور آپ بتاریخ ۲۵/ محرم الحرام ۹۵ ھ مطابق ۷۱۴ کو درجہ شہادت پرفائز ہو گئے امام محمد باقرعلیہ السلام نے نمازجنازہ پڑھائی اورآپ مدینہ کے جنت البقیع میں دفن کردئیے گئے علامہ شبلنجی، علامہ ابن حجر، علامہ ابن صباغ مالکی، علامہ سبط ابن جوزی تحریرفرماتے ہیں کہ ”وان الذی سمہ الولیدبن عبدالملک“ جس نے آپ کو زہر دے کر شہید کیا،وہ ولید بن عبدالملک خلیفہ وقت ہے (نورالابصار ص ۱۲۸،صواعق محرقہ ص ۱۲۰، فصول المہمہ، تذکرہ سبط ابن جوزی، ارجح المطالب ص ۴۴۴، مناقب جلد ۴ ص ۱۳۱) ۔

ملاجامی تحریرفرماتے ہیں کہ آپ کی شہادت کے بعد آپ کا ناقہ قبر پرنالہ و فریاد کرتا ہوا تین روزمیں مرگیا (شواہد النبوت ص ۱۷۹، شہادت کے وقت آپ کی عمر ۵۷/ سال کی تھی).

آپ کی اولاد
علماء فریقین کا اتفاق ہے کہ آپ نے گیارہ لڑکے اورچار لڑکیاں چھوڑیں۔(صواعق محرقہ ص ۱۲۰،و ارجح المطالب ص ۴۴۴) ۔
علامہ شیخ مفید فرماتے ہیں کہ ان پندرہ اولاد کے نام یہ ہیں
۱۔ حضرت امام محمد باقر آپ کی والدہ حضرت امام حسن کی بیٹی ام عبداللہ جناب فاطمہ تھیں۔
۲. عبداللہ ۳۔ حسن ۴۔ زید ۵ . عمر ۶۔ حسین ۷ . عبدالرحمن ۸۔ سلیمان ۹۔ علی ۱۰. محمد اصغر ۱۱۔ حسین اصغر ۱۲۔ خدیجہ ۱۳. فاطمة ۱۴۔ علیہ ۱۵۔ ام کلثوم

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬