پاکستان میں اسلام دشمن قوت کی طرف سے ایک منظم سازش کے تحت پیدا ہونے والی موجودہ مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی تازہ موج کے حوالے سے حوزہ علمیہ پاکستان کے مشہور عالم دین و سیاسی تجزیہ نگار حجت الاسلام ڈاکٹر سید میثم ہمدانی جو حوزہ علمیہ قم المصطفی یونیورسٹی میں مسلم فلسفہ میں پی ایچ ڈی اسکالر ہیں اور حکومت اسلامی کی نظریاتی بنیادوں کے عنوان سے رسالہ تحریر کر رہے ہیں۔ پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک اور اسلامی موجوضوعات کے حوالے سے اخبارات ، جرائد اور ٹی وی چینلز پر گفتگو کرتے رہتے ہیں۔ حال ہی میں پاکستان میں پیدا ہونے والی مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی تازہ موج کے حوالے سے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے خصوصی گفتگو کی ہے جس کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے:
رسا : پاکستان میں موجودہ فرقہ واریت کی لہر کے سلسلہ میں آپ کا کیا نظریہ ہے اور اس کا پس منظر کیا ہے؟
بسم اللہ الرحمن الرحیم؛ پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہمیشہ شیعہ سنی مسلمان اکٹھے رہے ہیں اور آج تک بہت سے مقامات پر دیکھا جا سکتا ہے کہ عزاداری امام حسین علیہ السلام میں جہاں شیعہ مسلمان اپنی عزاداری اور ماتم و گریہ میں مصروف ہوتے ہیں تو وہاں اھلسنت ان کیلئے نذر و نیاز اور پانی وغیرہ کا بندوبست کر رہے ہوتے ہیں۔ آج بھی بڑے بڑے شہروں میں اہلسنت کی مساجد اور مختلف مراکز میں امام حسین ع کے حوالے سے عشرہ مجالس یا مختلف نوعیت کے پروگرام منعقد کئے جاتے ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہمیشہ سے دشمن کی کوشش رہی ہے کہ وہ ملک میں شیعہ سنی فسادات کے حوالے سے سرگرم رہے تاکہ مسلمانوں کو چین کی زندگی نصیب نہ ہو۔ دشمن کی اس سازش میں اندرونی متعصب گروہوں اور مختلف افراد کا بھی ساتھ رہا ہے ورنہ یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوسکتی ، افغان جہاد کے دوران پاکستان کے فوجی حاکم جنرل ضیاء الحق نے ایسے گروہوں کی پرورش کی جو پاکستان کے اندر شیعہ مسلمانوں کی قتل و غارت میں شریک رہے، ضیاء الحق کے جانے کے بعد بھی مقامی اور بین الاقوامی سازشوں کے تحت شیعہ مسلمانوں کا قتل عام جاری رہا اور اس ظلم میں تمام لوگ چاہے وہ فوجی اسٹیبلشمنٹ ہو یا سول برابر کے شریک رہے۔ آپ اس بات کا اندازہ اس چیز سے لگا سکتے ہیں کہ طالبان کا وجود بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا جو ملک میں لبرل سیاسی جماعت کی راہنما سمجھی جاتی ہیں اور بے نظیر بھٹو کے وزیر داخلہ جو سابقہ فوجی افسر تھے انکا نام طالبان کے بانیوں میں شمار کیا جاتا ہے، تو بہرحال یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دینے میں سب برابر کے شریک ہیں۔
کچھ عرصہ سے جب سے پاکستان کی دفاعی ڈاکٹرائن میں انٹرنل تھریٹ کو اولین ترجیح دی گئی اس کے بعد حکومت اور فوج کے اقدامات کے نتیجہ میں بالاخر دہشت گرد عناصر کو کنٹرول میں لایا گیا ہے اور ملک کے اندر جاری قتل و غارت کے سلسلے میں کمی آئی لیکن کچھ ہی عرصہ گذرنے کے بعد ایک مرتبہ پھر ملک کے اندر نوے کی دھائی کی فرقہ واریت والی بے چینی دیکھنے کو مل رہے ہی۔
جو موجودہ صورتحال ہے اس میں جو ظاہری اسباب و عوامل گذشتہ کی مانند عوام اور حکومت دونوں طرف موجود ہے، کچھ عرصہ قبل پاکستان کے صوبہ پنجاب میں ایک متنازعہ بل پاس کروانی کی کوشش کی گئی جس کے بعد ملک میں فرقہ وارانہ مباحث اپنے عروج پر پہنچ گئیں اور اس کے فورا بعد ایک مشہور اہلسنت بریلوی مولوی کی جانب سے حضرت فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کے بارے میں نازیبا گفتگو کی گئی، یہ کام ایسے وقت ہوا کہ محرم الحرام کی آمد آمد تھی اور پورے میں مسلمان نواسہ رسول حضرت امام حسین علیہ السلام کے سوگ کی تیاری کر رہے تھے۔ پھر محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں اسلام آباد میں ایک ذاکر جس کی شہرت غلو کے حوالے سے ہے اور پہلے ہی متنازعہ گفتگو کے حوالے سے معروف ہے اس کی تقریر میں ابوبکر صدیق کے بارے میں ایسی بات کی گئی جس سے خلیفہ اول کے کفر کے بارے میں اشارہ ملتے تھے جبکہ اس ذاکر کا کہنا تھا کہ اس کی مراد یزید تھا بہرحال وقت کے گذرنے کے ساتھ ساتھ کراچی کے عاشورا کے جلوس میں زیارت عاشور کے حوالے سے بہانہ بنا کر ملک میں شیعہ سنی فسادات کی کوشش کی گئی۔
بات طویل نہ ہوجائے میں مختصر انداز میں اگر بات کو آگے بڑھاوں تو یہاں جس نکتہ کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ یہ سب تو ظاہری اسباب ہیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ جو اہم مسئلہ بین الاقوامی سطح پر چل رہا ہے وہ فلسطین کے حوالے سے ہے۔ حال ہی میں امریکہ میں انتخابات کی گرمی کے ساتھ ساتھ متحدہ عرب امارات کی جانب سے اسرائیل کو رسمی حیثیت دی گئی اور یہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو اس عرب ملک میں سفارت خانہ کھولنے کی اجازت دی، اس کے ساتھ ساتھ سعودی عرب نے اسرائیل پر اپنی فضائی حدود کو کھول دیا، کچھ افریقی ممالک میں اسرائیل کے ساتھ روابط کی بات چلنے لگ پڑی اور پاکستان میں بھی جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں اسرائیل کے حوالے سے جو چہ مگوئیاں ہوتی تھیں وہ بھی دوبارہ سے شروع ہو گئیں۔ انہی حالات میں پاکستان میں سابقہ فوجی سربراہوں اور اہم جنرلوں کی موجودہ آرمی چیف کے ساتھ ملاقات ہوئی اور اس کے چند روز بعد پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سعودی عرب کے حوالے سے ایک بیان دیا جو دونوں ممالک میں سفارتی تعلقات کی خرابی کا باعث بنا۔ اس کے فورا بعد پاکستان کے معروف دینی راہنما حافظ طاہر اشرفی کو سعودی عرب کی جانب سے خصوصی طیارے کے ذریعے اس ملک میں بلایا گیا جہاں انہوں نے مصروف ترین دن گذارے اور جیسے ہی وہ واپس ملک تشریف لائے تو اسلام آباد سے ایک بریلوی مفتی جو چاند دیکھنے کے حوالے سے معروف ہیں اور یزید کے حوالے سے اپنے مثبت رویہ کے طور پر مشہور ہو چکے ہیں وہ صحابہ کی توہین کا نام لیکر ملک میں دورے کرنے لگے اور کراچی پہنچ گئے جہاں انہوں نے بریلوی دیوبندی علما کو جمع کرنا شروع کیا اور ملک بھر میں مذہبی بے چینی کی فضا بنا ڈالی۔
بہرحال اس سارے پس منظر کو سامنے رکھتے ہوئے میری ناقص رائے یہ ہے کہ آپ دیکھیں جن مسائل کو بنیاد بنا کر ایک دفعہ پھر ملک میں شیعہ سنی فسادات کی کوشش کی گئی ہے یہ کوئی نیا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ ملک ہے اس میں ایسے ذاکر سالوں سے ایسی ہی مجالس پڑھتے رہتے ہیں اور اب تو صورتحال یہ ہے کہ یہ نہ صرف اھلسنت کی مقدسات کی توھین کرتے ہیں بلکہ خود شیعہ مقدسات کی توھین اور مراجع عظام کو گالیاں دینا اور پاکستان کے نظریاتی انقلابی علماء کی توھین انکا شیوہ بن گیا ہے، اسی حوالے سے پاکستان کے اکثر علماء ان سے اظہار لاتعلقی بھی کرچکے ہیں، اب ایسے میں ایک ذاکر کی بات کو پکڑ کر پوری قوم کے خلاف اور پورے مذہب کے خلاف جنگ کا آغاز کردینا کوئی عقلانیت نہیں ہے اور اس بات کا پتہ دیتی ہے کہ اس مسئلہ کے پیچھے کچھ اور عوامل ہیں، لہذا میرے خیال میں اصل بات بین الاقوامی مسائل ہیں۔
امریکہ اسلامی ممالک کو پریشر دے رہا ہے کہ وہ اسرائیل کو رسمی طور پر قبول کریں اور اس کے نتیجہ میں تاریخ میں پہلی دفعہ فلسطینی قیادت اپنے تمام تر اختلافات کو ختم کر کے مشترکہ مزاحمتی پلیٹ فارم پر اکٹھی ہو رہی ہے، آپ دیکھ رہے ہیں کہ فلسطین کی مزاحمتی تنظیموں کا لبنان میں مذاکراتی عمل انجام پایا اور محمود عباس سے لیکر اسماعیل ہانیہ تک سب نے مشترکہ اعلان کیا کہ وہ القدس کی مرکزیت میں اور القدس کو دارالحکومت سمجھتے ہوئے فلسطین کی جدوجہد آزادی کو جاری رکھیں گے۔ اسی طرح حماس کے راہنما اسماعیل ہانیہ نے حزب اللہ کے سربراہ سید حسن نصر اللہ سے ملاقات کی جو بہت اہم مسئلہ ہے ۔ لہذا میرا خیال ہے کہ پاکستان میں ان بین الاقوامی مسائل کو دبانے کیلئے اور اسرائیل کی عرب ممالک کی جانب سے ہونے والی حمایت کے خلاف کسی بھی مخالف رائے اور عوامی رائے عامہ کو ختم کرنے کیلئے پاکستان میں اس طرح سے تفرقہ انگیزی کی فضا قائم کی جا رہی ہے ۔
رسا : اس سارے مسئلہ میں شیعہ سنی علما کا موقف کیا رہا ہے اس کا راہ حل آپ کے نظر میں کیا ہو سکتا ہے ؟
دیکھیں پہلے بھی بات تفصیلی ہو گئی ہے میں مختصر طور پر اگر بات کرنا چاہوں تو موجود صورتحال میں پاکستان کی شیعہ اور سنی مرکزی قیادت کی جانب سے مثبت ردعمل دیکھا گیا ہے، اگرچہ اجمال و تفصیل کا فرق موجود ہے ہمارے علماء نے جو کراچی، لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد سے موقف دیا ہے ان میں سے بعض علماء نے واضح انداز میں مسئلہ پر بات کی ہے اکثر نے مجمل انداز میں ملک میں افراتفری اور فرقہ واریت کے خاتمہ کی اپیل کی ہے اسی طرح اھلسنت علماء اور سنجیدہ حلقوں کی جانب سے منفی ردعمل دیکھنے کو نہیں ملا جماعت اسلامی کے راہنماوں نے لاہور میں جامعہ العروہ الوثقی میں علما سے ملاقات کی اور اس مسئلہ پر بات کی اسی طرح جمعیت علمای اسلام کے راہنما مولوی فضل الرحمن کی جانب سے مسئلہ کو سلجھانے کے حوالے سے بات کی گئی، ہاں بعض بریلوی حضرات جذبات کی رو میں بہہ گئے اور انہوں نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا لیکن پھر بھی بریلوی کی مرکزی قیادت سمجھے جانے والے علماء نے ذمہ داری کا احساس دلایا۔ بہرکیف دیکھیں راہ حل یہ ہے کہ ہمیں واضح موقف اپنانا چاہیئے۔ ملک کے اندر فرقہ واریت کو ختم کرنے یا کم کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ شیعہ علماء اپنے درمیان موجود غلات اور ایسے ذاکرین اور خطیبوں کے حوالے سے کہ جو مسائل پیدا کرتے ہیں انتہائی واضح شفاف اور محکم موقف کا اعلان کریں ، ان کی سہولت کاری اور ان کے حوالے سے نرم گوشہ کو ختم کریں اور اسی طرح اھلسنت علماء کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ناصبی عناصر کے حوالے سے اور جو تکفیری مائنڈ سیٹ ہے چاہے وہ بریلوی ہو یا دیوبندی یا سلفی اس کے حوالے سے واضح رائے دیں اور ان کو عوام میں کمزور کرنے کے حوالے سے کام کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح پر ایسی منفی سرگرمیوں کی حمایت نہیں ہونی چاہئے، ابھی حال ہی میں صوبہ خیبرپختونخوا کے ایک علاقہ میں جہاں عمران خان کی حکومت قائم ہے ، وہاں کے مقامی پلیس اور انتظامیہ کے افسران اور مقامی جاہل عناصر پر مشتمل ایک جرگہ کی ویڈیو وائرل ہوئی جس میں انتہائی غیر ذمہ داری کا ثبوت دیا گیا اور ایک بچہ کو نامناسب گفتگو اور غلط عقائد کے اعتراف پر مجبور کیا گیا اور اس سے شیعہ مسلمانوں کے مقدسات پر لعنت بھجوائی گئی، یہ طریقہ کار درست نہیں ہے اس سے ایسی منفی فضا میں مزید اضافہ ہوتا ہے۔
رسا : آپ اس حوالے سے مستقبل کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں؟
دیکھیں مایوسی کفر ہے، خدا کی رحمت سے مایوس ہونا گناہ ہے۔ ہم خدا کی رحمت سے روشن مستقبل کے امیدوار ہیں لیکن اس کی بنیادی شرط یہ ہے کہ معاشرے میں موجود خواص کو بصیرت ، حکمت اور دانائی سے فیصلے کرنے اور صحیح موقف اپنائیں۔ دنیا بہت تیزی سے استکباری قوتوں کی نابودی کی جانب جا رہی ہے، ہمارے حکمرانوں کو بھی اپنی سیاست پر نظرثانی کرنے کی ضرورت ہے، وہ جس کشتی میں سوار ہونے کے خواہشمند ہیں اس کشتی کا مستقبل تاریک ہے، حکومت کو اپنے فیصلے تبدیل کرنے ہوںگے۔ خواص کو اپنی ذمہ داری انجام دینے کی ضرورت ہے عوام کو حقائق سے باخبر کیا جائے ، مختلف مذاہب کے علماء اور اہم شخصیات اور نئی شرائط اور موجودہ دور کی دشمن کی سازشوں کے حوالے سے اپڈیٹ کیا جائے تو مستقبل روشن ہے اور انشاء اللہ دشمن اپنی سازشوں میں ناکام ہو گا اور ملت اسلامیہ ترقی کی جانب گامزن رہے ۔
رسا : رسا نیوز ایجنسی مشکور ہے کہ آپ نے اپنی قیمتی وقت ہماری گفتگو کے لئے صرف کیا خداوند عالم آپ کی توفیقات میں اضافہ فرمائے ۔