06 September 2020 - 19:59
News ID: 443655
فونت
حجت الاسلام محمد حسین اکبر :
تحریک حسینیہ پاکستان کے سربراہ نے کہا کہ وطن کی محبت اہلبیت اطہار و آئمہ معصومین علیہم السلام اور اصحاب رسول ؓ جن کی تعداد کم از کم ایک لاکھ چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے کا دل سے احترام کرتے ہیں لیکن عقیدہ خلافت اور امامت کے لحاظ سے ہمارا عقیدہ مختلف ہے۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گورنر پنجاب چودھری محمد سرور سے علماء کے ایک وفد نے گزشتہ روز گورنر ہاوس میں ملاقات کی۔

جہاں علماء نے موجودہ صورتحال پر تبادلہ خیال کیا اور فرقہ واریت کو ہوا دینے والے عناصر کیخلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔

اس موقع پر تحریک حسینیہ پاکستان کے سربراہ علامہ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے گورنر پنجاب کو ایک خط دیا جس میں ملت جعفریہ کے حالیہ صورتحال میں تحفظات سے آگاہ کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے ’’اسلام ٹائمز‘‘ کے خط کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ انہوں نے خط میں گورنر کی ادارہ منہاج الحسینؑ آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا ہے، جس میں گورنر پنجاب مجلس عزاء میں شریک ہوئے تھے۔

ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے بتایا کہ انہوں ںے خط میں گورنر کی عشرہ محرم الحرام کے دوران کوششوں سے امن و امان کے قیام پر بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر محمد حسین اکبر نے بتایا کہ انہوں نے خط میں 12 نکاتی تحفظات پیش کئے ہیں، جن میں کہا گیا ہے کہ شیعیان حیدرؑ کرار پاکستان نے صدر پاکستان کیساتھ مشاورت کیساتھ مجالس و جلوس ہائے عزا محرم الحرام کیلئے طے پانے والے ایس او پیز پر حتی المقدور عمل کرکے اپنے وعدہ کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن اس سال پنجاب بھر میں کئی شہروں میں صدر پاکستان کے احکام کے باوجود جان بوجھ کر مجالس عزا اور جلوس بند کر دیئے گئے، سینکڑوں کی تعداد میں عزاداروں کے خلاف جھوٹے مقدمات قائم کئے گئے جن کی ہم مذمت کرتے ہیں اور تمام مقدمات کو واپس لینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

علامہ محمد حسین اکبر نے بتایا کہ عشرہ محرم الحرام کے ختم ہوتے ہی ایک دو دن کے اندر ہی تقریباً ایک دو خود ساختہ الزامات اور مضامین پر مشتمل مقدمات سی ٹی ڈی پولیس کی طرف سے ہمارے سینکڑوں خطباء، واعظین اور ذاکرین اور بانیان مجالس کیخلاف کاٹ کر توہین آمیز انداز میں گرفتار کرکے نہ صرف ان کی توہین آمیز تصاویز بنائی گئیں بلکہ ان کو سوشل میڈیا پر وائرل کرکے شیعیان پاکستان کی تذلیل کی گئی، ہم اس کے ذمہ داران کیخلاف قانونی کارروائی کا مطالبہ کرتے ہیں اور تمام علماء و ذاکرین کو رہا کرنے اور مقدمات کو ختم کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ محرم الحرام سے پہلے مختلف سرکاری اور عوامی سنی علماء کی طرف سے تکفیری مہم کو ہمارے خلاف چلانے سرعام دھمکیاں دی جا رہی تھیں، جان بوجھ کر فرقہ وارانہ اختلافات کا ماحول بنایا گیا جس امن کو پاک فوج اور عوام نے ہزاروں قربانیوں کے بعد حاصل کیا تھا اس کو سبوتاز کرنے کے منصوبے بنائے گئے جن پر اب کھل کر عمل کرایا جا رہا ہے اور ایسے افراد اور تنظیموں کیخلاف حکومتی ادارے خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں، جن کی مثالیں کل لاہور کراچی اسلام آباد اور دیگر شہروں کے مظاہرے ہیں۔

علامہ محمد حسین اکبر نے بتایا کہ ہم نے ہمیشہ اتحاد امت اور استحکام پاکستان کیساتھ عملی کام کیا اور حکومت کا ساتھ دیا ہم نے سینکڑوں لاشے اٹھا کر بھی امن و صبر کا دامن ہاتھوں سے نہیں چھوڑا لیکن اس تعاون کو ہماری کمزوری سمجھا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر اپنے آپ کو شیعہ مکتب فکر سے منسوب کرنیوالے اہلسنت کی طرف سے ہمارے مسلک میں آنیوالے چند خطباء نے غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، اصحاب رسول کی شان میں گستاخی کی لیکن شیعہ قوم میں سے کسی نے بھی ان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ان کی بھرپور مذمت کی اور ان کیخلاف مقدمات قائم کرائے لیکن چند استعماری ایجنٹ شیعہ نماء افراد کے غلط کام کو پوری شیعہ قوم کے کھاتے میں ڈالنا کہاں کا انصاف ہے ؟۔ کیا ہم نے ان کیخلاف کاروائی سے منع کیا ہے؟ ان چند افراد کے عمل کو پوری قوم کے کھاتے میں ڈال کر امن کو تباہ کرنے کی ہم قطعا ً اجازت نہیں دے سکتے، ہاں ہم یہ واضح کردینا ضروری سمجھتے ہیں ہمارے نزدیک اہلسنت کے مقدسات کا احترام واجب ہے، لیکن ہم ہرگز بنی امیہ کا احترام نہیں کر سکتے اور نہ ہی ہم سے اس کی توقع رکھی جائے کہ ہم بنی امیہ اور بنی عباسیہ کے فکر، نظریہ ،عقیدہ کو بھی کبھی قبول کریں گے اور ان کے احترام کے قائل ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم دھونس دھمکی اور زبردستی سے اپنے نظریات کو دوسروں پر ٹھونسنے کے مخالف ہیں، ہم نے گردنیں کٹا دی ہیں، لیکن یزیدیت کی اطاعت قبول نہیں کی۔

انہوں نے کہا کہ وطن کی محبت اہلبیت اطہار و آئمہ معصومین علیہم السلام اور اصحاب رسول ؓ جن کی تعداد کم از کم ایک لاکھ چالیس ہزار بیان کی جاتی ہے کا دل سے احترام کرتے ہیں لیکن عقیدہ خلافت اور امامت کے لحاظ سے ہمارا عقیدہ مختلف ہے جس کو ہم کسی طور پر نہیں چھوڑ سکتے، ہم نے کل بھی وحدت اور اتحاد کیلئے اپنا بھرپور تعاون پیش کیا اور کرتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اب چند دیگر امور کی طرف آپ کی توجہ مبذول کرانا اور ان مطالبات کو فوری طور پر عملی جامہ پہنانے کی درخواست کرتا ہوں کہ ادارہ منہاج الحسین شیعیان حیدر ؑ کرار کا ایک بین الاقوامی حیثیت کا علمی، مذہبی ، رفاہی اور تحقیقی ادارہ ہے جو بلا تفریق مذہب و ملت و فرقہ امت محمدیہ کے تمام نوجوانوں کی تعلیمی میدان میں رہنمائی کرتا ہے۔ طلباء و طالبات کو دینی تعلیم ایم اے عربی اور اسلامیات تک مفت سہولت مہیا کرتا ہے، جدید تعلیم کیلئے سکول و کالج کی سطح تک کا بھی انتظام موجود ہے، جس میں جدید وسائل تعلیم کیساتھ قوم کے بچوں کی تعلیم و تربیت سے آراستہ کیا جاتا ہے۔

علامہ محمد حسین اکبر نے بتایا کہ ہم آپ گورنر کو مبارکباد پیش کرتے ہیں کہ آپ نے پنجاب بھر کی یونیورسٹیوں میں بطور گورنر اور چانسلر قرآن کریم کی باترجمہ و تفسیر تدریس کو لازمی قرار دے دیا ہے اور اس کیلئے علماء اور دانشوروں پر مشتمل کمیٹی بھی تشکیل دے کر تمام اسلامی مکاتب فکر کے ترجمہ شدہ قرآن کریم بھی معین و مقرر کر دیئے ہیں لیکن ان تراجم میں شیعہ مکتب فکر سے متعلقہ ترجمہ قرآن کو شامل نہیں کیا گیا، جس کیلئے ہم اپنے ادارہ کے طبع شدہ قرآن کو یونیورسٹی میں برائے تدریس شامل کرنے کی سفارش اور پیشکش و درخواست کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گورنمنٹ پنجاب کا ایک فعال ادارہ متحدہ علماء بورڈ ہے جس میں شروع سے تمام مسالک کے علماء کی مساوی نمائندگی تھی، لیکن آپ کی حکومت کے وزیر اعلیٰ سردار محمد عثمان بزدار نے اس متفق علیہ اور سالہا سال سے جاری مساوی نمائندگی کو نظر انداز کر دیا ہے، بریلوی مکتب فکر کے 10، دیوبندی 9، اہلحدیث 6 اور شیعہ 5 علماء کو نمائندہ نامزد کیا گیا ہے جوکہ شیعیان پاکستان کیساتھ کھلم کھلا اور سراسر زیادتی اور نا انصافی ہے جس کیخلاف ہم نے پہلے دن ہی احتجاج کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ صاحب کو بھی احتجاج ریکارڈ کرایا لیکن ایک سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن وطن عزیز پاکستان کے 30فیصد شیعیان حیدر ؑ کرار کو ناانصافی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ اگر فوری طور پر ہماری نمائندگی کو برابری کی سطح پر دس افراد کا نوٹیفکیشن جاری نہ کیا گیا تو ہم موجود شیعہ اراکین متحدہ علماء سے اجتماعی طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کر دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آپ سے گزارش ہے کہ سابقہ متفقہ اصول و ضابطہ کے مطابق تمام مکاتب فکر کو مساوی نمائندگی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔ یونیورسٹیوں، کالجوں، سکولوں کی تدریسی کتب کو فرقہ واریت سے پاک اور بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کیلئے تدریس کئے جانیوالے سلیبس کے بورڈ کی کمیٹیوں میں شیعہ علماء اور دانشوروں کو بطور خاص نمائندہ نامزد فرما کر ممنون فرما دیں ۔بندہ ناچیز سالہا سال سے بطور شیعہ نمائندہ سکولوں، کالجوں، یونیورسٹیوں کے تعلیمی نصاب اور دیگر امور کے حوالے سے کام کرتا آرہا ہوں بہاولپور اسلامیہ یونیورسٹی کا سلیبس میں نے بنوایا تھا، بطور ممبر اسلامی نظریاتی کونسل لاء کالجز کیلئے سلیبس دینے والی کمیٹی کا بھی ممبر تھا۔ اُمید ہے ہماری ان تمام گزارشات پر فورا ً عمل کرا کر ممنون فرمائیں گے۔

علامہ محمد حسین اکبر نے گورنر کے نام لکھے گئے خط میں مزید کہا ہے کہ شیعہ علماء مدارس کو ملاقات کیلئے ٹائم دیں تاکہ ہم اپنے مدارس اور سکولوں کالجوں کو درپیش و دیگر مسائل سے آپ کو آگاہ کر سکیں۔ ہم آپ کی ادارہ منہاج الحسین ؑ میں تشریف آوری کا ایک مرتبہ پھر شکریہ ادا کرتے ہیں اور آئندہ اسپیشل ادارہ کا وزٹ کرنے کیلئے دعوت دیتے ہیں وقت اور دن مقرر فرما کر آگاہ فرمائیں اور تشریف لا کر ممنو فرمائیں۔

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬