رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آستان قدس رضوی کے متولی حجت الاسلام والمسلمین احمد مروی نے حرم مطہر کے ولایت ہال میں، قرآن کریم کے قاریوں کی انجمن کے ممبران سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ حرم مطہر رضوی میں ہماری سب سے پہلی ترجیح قرآن کریم ہونا چاہئے اور پھر اس کے بعد قرآن کریم کی روشنی میں ہی معرفت اہلبیت (ع) کی ترویج و اشاعت پر توجہ دی جائے۔
انہوں نے کہا کہ امام کے حرم کو قاریوں، حفاظ اور مفسرین قرآن کی تربیت کا مرکز ہونا چاہئے
آستان قدس رضوی کے متولی نے کہا کہ اہلبیت (ع) کے تمام مقدس آستانوں اور عتبات عالیات کا فرض ہے کہ قرآن اور اس کی معرفت کو اپنا سرنامہ اور عنوان قرار دیں اور اگر اس پر عمل ہوا تو یقینا" امام رضا (ع) کی رضا و خوشنودی بھی حاصل ہوگی، اس کی وجہ یہ ہے کہ ائمہ اطہار علیھم السلام کی ساری زندگي اسی قرآن کی ترویج کی سعی و کوشش میں گزری ۔
ان کا کہنا تھا کہ آئمہ اطہار علیھم السلام نے سارے مصائب و آلام اسی قرآن کریم کی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے ہی برادشت کئے یہاں تک کہ اسی راستے پر چلتے ہوئے انہوں نے جام شہادت تک نوش کیا۔
حجت الاسلام مروی نے کہا کہ آستان قدس رضوی میں بھی ہمارے تمام پروگراموں کا محور یہی قرآن کریم ہے اور ہم کسی بھی حال میں اس کی اہمیت کو کم کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے اس لئے کہ اگر اس کے علاوہ کچھ ہوا تو قیامت کے روز ہمیں جواب دہ ہونا پڑے گا۔
حجت الاسلام مروی نے کہا کہ اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد سے قرآن کریم کے مختلف علوم کو عام کرنے کی سرگرمیوں کا دائرہ بشمول حفظ، تفسیر اور معارف قرآن کا کافی وسیع ہوچکا ہے لیکن اس سلسلے کی تعلیم و تربیت کو خصوصا" نوجوانوں میں مزید عام کرنے کی ضرورت ہے۔
انہوں نے اس سلسلے میں رہبر انقلاب اسلامی کی تاکیدات کا بھی ذکر کیا جن کے تحت آپ قرآن سے انس پیدا کرنے اورقرآنی علوم کو معاشرے میں زیادہ سے زیادہ رواج دینے پر ہمیشہ زور دیتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہمارے معاشرے میں قرآنی تعلیم و تربیت کا جتنا بھی اثر اور رواج ہے اس میں رہبر انقلاب کی تاکید اور توجہات کا بھی کافی دخل ہے۔
آستان قدس کے متولی نے ملک میں قرآنی علوم کے میدان میں فعال لوگوں کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے پروگراموں اور تجاویز سے آستان قدس کو آگاہ کرکے ہماری مدد کریں۔ ہم اپنے تئیں ، اپنا فریضہ سمجھتے ہوئے پوری کوشش کریں گے کہ تمام مفید تجاویزپر حتی الامکان عملدرآمد کریں۔
انہوں نے کہا کہ ایسالگتا ہے کہ روایتی قرآنی تعلیمات کا سلسلہ کمزور پڑگیا ہے اور ضرورت ہے کہ اسے دوبارہ گھروں اور محلّوں میں رواج دے کر معاشرے کی رونق بڑھائي جائے ۔
انہوں نے کہا کہ جس طرح مسجد و منبر کی بڑی اہمیت ہے اسی طرح مقامی طور پر قرآنی تعلیمات کو دوبارہ زور و شور سے شروع کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے اس بات کی جانب بھی اشارہ کیا کہ حرم کی حدود میں اکثر و بیشتر نماز جماعت سے پہلے معروف مصری قاریوں کی آواز میں تلاوت نشر کی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ زائرین مصری قاریوں سے اچھے خاصے مانوس ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ بعض مصری قاری قرآن مجید کی تلاوت میں خاص استعداد و توانائی کے حامل ہوتے ہیں اورسننے والوں میں ایک خاص احساس پیدا کردیتے ہيں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایرانی قاریوں کو نظرانداز کیا جائے ۔
انہوں نے اس سلسلے میں کچھ مشہورمصری قاریوں کا نام لے کر ان کی تعریف بھی کی۔
حجت الاسلام مروی نے کہا کہ ان میں سے کچھ مصری قاریوں نے سن طفولیت ہی سے قرآن حفظ کرلیا تھا اور ان کی تلاوت و صوت میں ایک خاص کشش ہے جس کی وجہ سے بہت سے غیر مسلم افراد ان مصری قاریوں کی تلاوت اور قرآئت سن کر مسلمان ہوگئے ۔
انہوں نے کہا کہ ان مصری قاریوں کی تلاوت کے درمیان اکثر و بیشتر ایرانی قاریوں کی تلاوت بھی حرم مطہر سے براہ راست نشر کی جاتی ہے اور یوں قرائت قرآن میں ایک طرح کا تنوع پید ا ہوجاتا ہے۔
آستان قدس رضوی کے متولی نے اس تجویز کے بارے میں کہ حرم کی حدود میں براہ راست تلاوت کا پروگرام بڑھانے کی ضرورت ہے، کہا کہ ان کے خیال میں مسجد گوہر شاد سے براہ راست قرائت قرآن کا پروگرام نشرکیا جائے اور تلاوت کا وقت پانچ منٹ سے لے کر آدھا گھنٹہ بڑھا دیا جائے ۔
انہوں نے اصرار کیا کہ مسجد گوہر شاد میں تلاوت اور ترتیل قرآن کی یہ محافل شروع کردی جائیں اور ایسی محافل کو صرف ماہ مبارک رمضان تک محدود نہیں رہنا چاہئے۔
حجت الاسلام مروی نے کہا کہ ہمارا ہدف یہ ہونا چاہئے کہ زیارت امام رضا (ع) کا شرف قرآن کی روشنی اور پرتو میں حاصل کریں اور حرم کی ساری فضا بھی قرآنی فضا ہو۔ میں ہرایک سے درخواست کرتا ہوں کہ اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔