رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق آستان قدس رضوی کی اسلامی تحقیقاتی فاؤنڈیشن کے محقق حجت الاسلام مہدی شریعتی تبار نے کہا ہے کہ امام حسین کی تحریک عاشورا اور قیام کا مقصد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو زندہ اور لوگوں کی زندگی رائج کرنا تھا ۔
انہوں نے اپنے ایک خطاب کے دوران کہا کہ فریضہ امربالمعروف و نہی عن المنکر کا مطلب ظالم و جابر حکومتوں کے خلاف قیام اور اسلامی حکومت کو حق و قرآن کریم کی بنیاد پر تشکیل دینا ہے۔
انہوں نے کہا: تحریک عاشورا اور قیام حضرت امام حسین علیہ السلام کا مقصد امربالمعروف و نہی عن المنکر ہی تھا۔
حجت الاسلام مہدی شریعتی تبار نے کہا: واقعہ کربلا سبھی اجتماعی، تاریخی، اور دنیا کے دیگر فطری حوادث کی مانند مختلف علل و اسباب کا حامل ہے لیکن حادثہ کربلا اپنی رزمیہ حقیقت و داستان اورمصائب وآلام کے لحاظ سے یعنی دو جہوتوں سے قابل غور و تحقیق ہے ۔
انہوں نے کہا: پہلی جہت یعنی رزمیہ حقیقت جو امام حسین علیہ السلام کے رزمیہ کارناموں اور بے مثال شجاعت و دلیری سے مربوط ہے اس سے عاشورا کے بہت سے درس حاصل کئے جاسکتے ہيں لیکن دوسری جہت جو مصائب و آلام اور ظلم و ستم ڈھانے والی ہے وہ دشمنوں سے مربوط ہے اور درحقیقت عاشورا کی بہت سی عبرتیں ان میں پوشیدہ ہيں جن سے ہم عبرت اور سبق سیکھ سکتے ہيں ۔
ان کا کہنا تھا کہ ظاہری اعتبار سے واقعہ کربلا میں تین اسباب و عوامل پیش پیش رہے ہیں؛ جن میں پہلا سبب یزید کا حضرت امام حسین علیہ السلام سے بیعت کا مطالبہ اور حضرت امام حسین کا انکار ۔ دوسرا سبب کوفیوں کی جانب سے حضرت امام حسین علیہ السلام کو خط لکھ کرکوفہ آنے کی دعوت دینا ۔ اور تیسرا سبب امربالمعروف و نہی عن المنکر کواحیاء اور زندہ کرنا تھا۔
حجت الاسلام شریعتی تبار نے اس بات کا ذکرکرتے ہوئے کہ حضرت امام حسین علیہ السلام کے قیام کی اصل ماہیت امربالمعروف و نہی عن المنکر ہی تھی، کہا: فریضہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر ابتدائی دو اسباب یعنی حضرت امام حسین علیہ السلام سے یزید کے مطالبہ بیعت و حضرت کام انکار اور کوفیوں کی دعوت میں بخوبی متجلی ہے۔
انہوں نے کہا: حضرت امام حسین علیہ السلام کا یزید کی بیعت کو ٹھکرانا کہ جو روز روشن کی طرح واضح ہے کہ جس کا مقصد فاسق و فاجر کی حکومت کو تسلیم نہ کرنا ہے گویا کسی بھی ظالم و جابر حاکم کے سامنےسر تسلیم خم نہ کرنا ہے ، کیونکہ بیعت کرنا، ایک منکرہے کہ جس سے حضرت امام حسین علیہ السلام انکار فرمارہے ہیں۔
آستان قدس رضوی کی اسلامی تحقیقات فاؤنڈیشن کے محقق نے اپنی تقریر میں کہا کہ: اسی طرح کوفیوں کے مسلسل خط بھیجنےاور حضرت کی جانب سے ان کی دعوت قبول کرلینے سے متعلق اگرکہا جائے تو کوفیوں کی دعوت کو قبول کرنا گویا ایک معروف اور برحق فعل ہے ہزاروں کی تعداد میں کوفیوں نے حضرت سے درخواست کی تھی کہ آپ کوفہ تشریف لائیں اور طاغوت عصر کے مقابلے میں قیام فرمائیں لہذا حضرت نے بھی اس فعل معروف پر عمل فرمایا۔
حجت الاسلام شریعتی تبار نے اپنے خطاب میں کہا: عنصر امربالمعروف و نہی عن المنکر اگرچہ خود مستقل ایک سبب اور عامل ہے لیکن پہلے مذکورہ دونوں اسباب وعوامل یعنی مطالبہ بیعت اور اس کے انکار نیز کوفیوں کی دعوت جیسے دونوں عوامل میں بھی شامل ہے اور یہ تیسرا عامل یعنی امربالمعروف اورنہی عن المنکر ان دونوں عوامل میں اہم کردار کا حامل ہے ۔ چنانچہ اگر ابتدائی دو اسباب و عوامل نہ بھی ہوتے پھر بھی یہ تیسرا سبب و عامل یعنی امربالمعروف و عن نہی المنکر تنہا ہی کربلا کے قیام کے لئے کافی تھا ۔