28 March 2020 - 22:15
News ID: 442390
فونت
امام حسین علیہ السلام ٣-شعبان ۴ھ کو مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے، آپ کے والد ماجد حضرت علی ابن ابی طالب ؑاور مادر گرامی جناب فاطمہ زہرا بنت رسولؐ تھیں، آپ کی کنیت: ابو عبد اللہ اور القاب: رشید، طیب، سید، سبط، وفی اور مبارک تھے۔

انتخاب وترجمہ: سید حمیدالحسن زیدی
الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور


آپ کی ولادت کے وقت جبرئیل امین مبارک باد دینے کے لئے خدمت پیغمبرؐ میں حاضر ہوئے اور خد ا کی طرف سے یہ پیغام لائے کہ ان کا نام حسین رکھیں پیغمبر اسلام ؐنے داہنے کان میں اذان کہی اور بائیں کان میں اقامت کہی ساتویں دن دو گوسفند آپ کے عقیقہ کے لئے ذبح کئے اور ان کا گوشت فقراء میں تقسیم کیا۔
امام حسین ؑنے بعض اقوال کی بنیاد پر اس دنیا میں ۵۶ سال چند مہینے زندگی بسر کی جس میں چھ سال چند مہینہ اپنے جد پیغمبر اسلاؐم کے ہمراہ رہے ان کی وفات کے بعد اپنے والد ماجد حضرت علی ؑکے ہمراہ زندگی بسرکی مولائے کائنات ؑکی شہادت کے بعد دس سال اپنے بھائی کی امامت میں آپ کے ساتھ رہے اور ۵۰ھ؁ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت پر فائز ہوئے۔

روز عاشورہ ۶۱ھ میں میدان کربلا میں جام شہاد ت نوش فرمایا: آپ کا جسم اطہر کربلائے معلی ہی میں سپرد خاک کیا گیا ہے۔ (۱)

امامت کی دلیلیں

امام حسین ؑکی امامت کو ثابت کرنے کے لئے ان تما م دلیلوں کو ذکر کیا جاسکتا ہے جو بارہ اماموں کی امامت کے لیے ذکر ہوئی ہیں

اس کے علاوہ پیغمبر اسلاؐم نے متعدد احادیث میں امام حسن ؑاور امام حسین ؑکی امامت کا تذکرہ کیا ہے پیغمبر اسلاؐم نے امام حسن ؑاور امام حسین ؑکے بارے میں فرمایا: میرے دونوں بیٹے امام ہیں چاہے قیام کریں یا خاموشی اختیار کریں۔(۲)

اس کے علاوہ امام حسن ؑنے بھی اپنی شہادت کے وقت آپ کی امامت کا اعلان کیا۔

امام جعفر صادقؑ نے ایک حدیث میں فرمایا: حسن ابن علی ؑ نے اپنی شہادت کے وقت اپنے بھائی محمد حنفیہ کو بلایا اور فرمایا: کیا تمہیں نہیں معلوم ہے کہ میری شہادت کے بعد حسین ابن علی ؑ امام ہوں گے ان کی امامت خداوند عالم کی مرضی سے ہے اور پیغمبر اسلاؐم نے اس کے بارے میں واضح طور پر بیان کیا ہے اور خداوند عالم جانتا ہے کہ تم اہل بیتؑ خدا کے بہترین بندے ہو حضرت محمدؐ کو خداوند عالم نے نبوت کے لئے منتخب کیا ہے انھوں نے امامت کے لئے حضرت علی ؑ کو معین کیا میرے والد حضرت علی ؑ نے میری امامت کا اعلان کیا اور میںنے امامت کے لئے حسین ؑکو منتخب کیا۔

محمدابن حنفیہ نے عرض کیا: بھائی آپ ہمارے امام ہیں آپ اپنی ذمہ داری پر عمل کریں۔(٣)

علی ابن یونس عاملی نے کتاب صراط مستقیم میں لکھا ہے:

امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب ؑنے اپنے فرزند امام حسین ؑکی امامت کا تذکرہ اسی طرح کیا تھا جس طرح امام حسن ؑکی امامت کا تذکرہ کیا تھا شیعوں نے روایت کی ہے کہ امام حسن ؑنے اپنی شہادت کے وقت امام حسین ؑکو امام منتخب کیا نبوت کی ا مانتیں اور امامت کے اسرار آپ کے حوالہ کیئے۔ اور شیعوں کو ان کی امامت سے آگاہ کردیا اور ان کو اپنے بعد پرچم ہدایت قرار دیا اور یہ ایک واضح اور مشہور امر ہے جو کسی سے بھی مخفی نہیں ہے ۔(۴)

مسعودی نے کتاب اثبات الوصیہ میں لکھا:

جس وقت امام حسن ؑبیمار ہوئے ان کے بھائی ابو عبد اللہ (امام حسین ؑ)ان کے پاس حاضر ہوئے دونوں میں گفتگو ہوئی امام حسنؑ نے اپنے بھائی امام حسین ؑکو اپنا وصی قرار دیا ان کو اسم اعظم کی تعلیم دی انبیاء کی میراث اور امیر المومنین ؑکی وصیت ان کے حوالہ کی۔ (٥)

محمد حنفیہ نے امام زین العابدین ؑسے عرض کیا کہ آپ کو معلوم ہے کہ رسول خداؐ نے اپنی وصیت اور اپنے بعد کی امامت امیر المومنین ؑکے حوالہ کی تھی اور انھوں نے یہ عہدہ امام حسن ؑاور امام حسین ؑکے حوالہ کیا تھا۔ (٦)

امام حسین ؑکے فضائل

پیغمبر اسلام ؐ نے فرمایا: حسین مجھ سے ہے اور میں حسین سے ہوں جو حسین کو دوست رکھتا ہے خدا اس کو دوست رکھتا ہے۔ (۷)

اسی طرح آپ نے فرمایا: جو زمین اور آسمان میں لوگوں کے سب سے زیادہ محبوب انسان کی طرف دیکھنا چاہے وہ حسین کی طرف دیکھے۔ (۸)

حذیفہ نے پیغمبر اسلاؐم سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: خدا نے حسین ؑکو جو فضیلت عطا کی ہے وہ کسی آدمی کو نہیں دی سوائے یوسف ابن یعقوب کے۔

حذیفہ یمانی کا بیان ہے: میں نے پیغمبر اسلاؐم کو دیکھا وہ حسین کا ہاتھ پکڑے ہوئے فرما رہے تھے اے لوگو! یہ حسین ابن علی ؑ ہیں ان کو پہچان لو خدا کی قسم وہ جنت میں ہوں گے اور ان کے دوست اور دوستوں کے دوست بھی جنت میں ہوں گے۔ (۹)

پیغمبر اسلاؐم نے فرمایا: حسن و حسین میرے اور اپنے پدر بزرگوار کے بعد زمین پر سب سے افضل ہیں اور ان کی ماں دنیا کی عورتوں میں سب سے بہتر ہیں۔

پیغمبر اسلاؐم نے فرمایا: حسن و حسین دو پھول ہیں۔ (١۰)

اسی طرح آپ نے فرمایا: حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں اور ان کے والد ان سے افضل ہیں ۔ (١١)
۔

امام حسین(ع)کی  عبادت و بندگی

امام حسین ؑسے پوچھا گیا کہ آپ کیوں خدا سے اس قدر خوفزدہ ہیں تو آپ نے فرمایا: قیامت کی سخت منزلوں سے کسی کو امان نہیںہے سوائے اس شخص کے جو خدا سے ڈرتا ہو۔ (١۲)

عبد اللہ ابن عبید کا بیان ہے: امام حسین ؑنے ۲۵ حج پیدل کئے جب کہ آپ کے پاس سواری کا جانور موجود تھا۔ (١٣)

امام زین العابدین ؑسے عرض کیا گیا کیوں آپ کے بابا کے فرزندوں کی تعداد اتنی کم ہے تو آپ نے فرمایا: مجھے ان کے ذریعہ خود اپنی ولادت پر تعجب ہے اس لئے کہ وہ ہر روز رات و دن میں ایک ہزار رکعت نماز ادا کرتے ہیں۔ (١۴)

راوی کا بیان ہے کہ میں نے حسن و حسین کو دیکھا کہ آپ حج کے لئے پیدل تشریف لے جا رہے ہیں جو سوار ان کے پاس سے نکلتا ہے اپنی سواری سے اتر جاتا ہے اور ان کے ساتھ پیدل چلنے لگتا ہے ان میں سے بعض کے لئے پیدل چلنا مشکل تھا انھوں نے سعد ابن ابی وقاص سے کہا ہمارے لئے پیدل چلنا مشکل ہے لیکن اچھا نہیں لگتا کہ یہ دونوں بزرگ سید پیدل چلیں اور ہم سوار ہوکر چلیں ۔ سعد نے یہ بات امام حسن ؑتک پہونچادی اور عرض کیا کہ کاش آپ لوگ ایسے لوگوں کی حالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی سواری پر سوار ہو جاتے امام حسین ؑنے جواب دیا کہ ہم سوار نہیں ہوسکتے اس لئے کہ ہم نے یہ عہد کیا ہے پیدل حج کریں گے لیکن دوسرے مسافروں کا خیال رکھتے ہوئے ہم اس راستہ سے الگ ہو جائیں گے یہ کہہ کے وہ دونوں حضرات اس راستہ سے دور ہوگئے۔

حسن سلوک اور راہ خدا میں خرچ کرنا

امام حسین ؑ، اسامہ ابن زید کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے اسامہ بیمار تھے اور کہہ رہے تھے ’’واغماہ‘‘ امام نے ان سے فرمایا: بھائی آپ کو کیا غم ہے انھوں نے عرض کیا اے فرزند رسولؐ میرے اوپر ساٹھ ہزار درہم کا قرض ہے میں ڈر رہا ہوں کہ ایسا نہ ہو کہ کہیں میں مرجاؤں اور میرے اوپر قرض کا بوجھ رہ جائے امام نے ان سے فرمایا: پریشان نہ ہو تمہاری موت سے پہلے ہی میں تمہارا قرض ادا کردوں گا اور آپ نے ایسا ہی کیا۔ (١٥)

شعیب ابن عبد الرحمن کا بیان ہے: امام حسین ؑکی شہادت کے بعد آپ کی دوش مبارک پر کچھ نشانات دیکھے گئے امام سجاد ؑسے ان کے بارے میں دریافت کیا گیاتو آپ نے فرمایا: یہ نشانات کھانے کے اس بوجھ کے ہیں جو میرے والد بیواؤں، یتیموں اور غریبوں کے یہاں پہونچایا کرتے تھے۔ (١٦)

امام حسین ؑسے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا: پیغمبر اسلاؐم کے اس قول کا صحیح ہونا میرے نزدیک ثابت ہو چکا ہے کہ نماز کے بعد سب سے اہم عمل مومن کے دل کو خوش کرنا ہے البتہ اس طرح کہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو۔

ایک دن آپ نے ایک غلام کو دیکھا کہ ایک کتے کے ساتھ کھانا کھا رہا تھا ایک نوالہ خود کھاتا تھا اورا یک نوالہ کتے کے سامنے ڈال دیتا تھا آپ نے اس غلام سے اس کی وجہ دریافت کی تو اس نے کہا: اے فرزند رسولؐ میں بہت غمزدہ ہوں اس کتے کو خوش کر رہا ہوں شاید خداوند عالم مجھے بھی خوش کردے میرا مالک ایک یہودی ہے میں اس سے چھٹکارا چاہتا ہوں۔

امام حسین ؑاس غلام کے مالک کے یہاـں تشریف لے گئے اور اس غلام کے عوض دوسو دینار اس یہودی کودیئے اس یہودی نے عرض کیا یہ غلام آپ کے قدموں پر نثار کہ آپ یہاں تشریف لائے میں نے یہ زراعت بھی اسے بخش دی یہ دوسو دینار بھی آپ رکھ لیجئے امام حسینؑ نے فرمایا: میںنے تمہاراہدیہ قبول کرلیا اور سب کچھ غلام کو عطا کر کے اس کو آزاد کردیا۔

اس یہودی کی زوجہ جو یہ منظر دیکھ رہی تھی اس نے کہا میں اسلام لاتی ہوں اور اپنا مہر معاف کئے دیتی ہوں اس یہودی مرد نے کہا میں بھی مسلمان ہوگیا اور یہ گھر اپنی زوجہ کو عطا کردیا۔ (١۷)

انس کا بیان ہے : میں حسین ابن علی ؑ کے پاس تھا ایک کنیز آپ کے پاس آئی اور آپ کی خدمت میں پھولوں کی ایک شاخ پیش کی۔

امام نے کنیز سے کہا: تمہیں راہ خدا میں آزاد کیا۔

انس نے عرض کیا کہ فرزند رسولؐ پھولوں کی یہ شاخ اتنی قیمتی تو نہیں تھی کہ آپ نے اس کے بدلہ اس کنیز کو آزاد کر دیا۔

آپ نے فرمایا: خدا نے مجھے اسی طرح کی تعلیم دی ہے ۔

اس نے فرمایا ہے: {اذا حییتم بتحیۃ فحیوا بأحسن منہا او ردوہا }پھولوں کی شاخ سے بہتر اس کو آزاد کرنا تھا۔ (١۸)

امام حسین ؑکے ایک غلام سے کچھ غلطی ہوگئی جس کی اسے سزا ملنا چاہئے تھی۔

اس غلام نے جب یہ محسوس کیا کہ اسے سزا ملے گی۔
تو عرض کیا: اے میرے مولا ’’والکاظمین الغیظ‘‘ ۔
امام نے فرمایا: میں نے بخش دیا۔
اس نے عرض کیا: مولا ’’والعافین عن الناس‘‘
حضرت نے فرمایا: میں نے تجھے معاف کر دیا۔
اس نے عرض کیا : ’’واللّٰہ یحب المحسنین‘‘
حضرت نے فرمایا: تجھے راہ خدا میں آزاد کر دیا اور جتنا تجھے عطا ہو چکا ہے اس سے دوگنا اور دیا جائے گا۔ (۱)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱)بحار الانوار، ج۴۴، ص۲۰۱۔ ۲۰۰، کشف الغمہ، ج۲، ص۲۵۲۔ ۲۱۶، اعلام الوری، ج۱، ص۴۲۰، مطالب السئوول، ج۲، ص۴۹ و ۵۱ و ۶۹و ۷۰
(۲)اثبات الہداۃ، ج۵، ص۱۷۱۔ ۱۳۴
(٣)اثبات الہداۃ، ج۵، ص۶۹، بحار الانوار، ج
۴۴، ص۱۷۴
(۴)اثبات الہداۃ، ج۵،ص۱۷۳
(٥) اثبات الہداۃ، ج۵، ص۱۷۴
(٦) اثبات الہداۃ، ج۵، ص۱۷۰
(۷)بحار الانوار، ج۴۳، ص ۲۶۱، قال رسول اللّٰہؐ حسین منی و انا من حسین۔ احب اللّٰہ من احب حسینا حسین سبط من الاسباط۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۸)بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۹۷، قال رسول اللّٰہؐ: من احب ان ینظر الی احب اہل الارض و السماء فلینظر الی الحسین۔
(۹)بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۶۲، حذیفہ بن الیمان قال: رایت النبیؐ آخذا بید الحسین بن علی و ہو یقول: یا ایہا الناس! ہذا الحسین بن علی فاعرفوہ۔ فو الذی نفسی بیدہ انہ لفی الجنۃ و محبیہ فی الجنۃ و محبی محبیہ فی الجنۃ۔
(١۰)بحار الانوار، ج۴۳، ص۳۱۶، ابن عمر عن النبیؐ قال: الحسن و الحسین ہما ریحانی من الدنیا۔
(١١)بحار الانوار، ج۴۳، ص۲۶۴، قال رسول اللّٰہ: الحسن و الحسین سیدا شباب اہل الجنۃ و ابوہما خیرمنہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(١۲)بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۲، و من زہذہؑ انہ قیل لہ: ما اعظم خوفک من ربک؟ قال: لایأمن یوم القیامہ الا من خاف اللّٰہ فی الدنیا۔
(١٣)بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۳، قال عبد اللّٰہ بن عبید لقد حج الحسین بن علی خمسۃ و عشرین حجۃ ماشیاً و ان النجائب لتقاد معہ۔
(١۴)بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۶، قیل لعلی بن الحسن : ما اقل ولد ابیک؟ فقال: العجب کیف ولدت؟ کان یصلی فی الیوم و اللیلۃ الف رکعۃ۔
(١٥)بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۴
(١٦)بحار الانوار، ج۴۴، ص۱۹۵
(١۷)بحار الانوار،ج۴۴، ص۱۹۴
(١۸)بحار الانوار،ج۴۴، ص۱۹۵
(١۹)بحار الانوار،ج۴۴

/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬