باسمہ تعالیٰ
صلح امام حسن علیہ السلام کےچودہ سوسال
رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق دنیا جانتی کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گلستان عصمت وطہارت میں جو گلہائے فضیلت وکرامت ہیں ان میں ہر ایک اپنی مثال آپ ہےاس خانہ عصمت کا ہر فرد ایک دوسرے کی تکمیل و تزئین کا سبب ہونے کے باوجودحفظ مراتب کےساتھ اپنی ذات میں یگانۂ روزگار ہےاور سب کو اپنے منصب اورحالات کے مطابق اظہار کمال کامکمل اختیارہے
یہ پورے کا پوراگلستان فضیلت احاطۂ ذکر تو کیا احاطۂ تصور سے بھی باہر ہے
سر دست شہزادہ صلح وشجاعت امام حسن مجتبی علیہ السلام کا تذکرہ مقصود ہے جو بہت سے ذاتی اور صفالات وکمالات میں ممتاز ہونے کے ساتھ اپنے لازوال کارناموں میں بھی منفردہیں جن میں عبادت' علم شجاعت 'جواں مردی جودوسخاوت 'اخلاق وادب.... سب شامل ہیں ۔
غرض کہ آپ اپنی شخصیت میں
آنچہ خوباں ہمہ دارندتوتنہاداری
کامرقع ہونےکےساتھ ساتھ اپنے سب سےمنفرداورممتاز کارنامۂ صلح کےذریعہ زیادہ متعارف ہیں ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کےدونوں شہزادوں امام حسن ع اورامام حسین ع نے کشتی اسلام کی نجات کے لیے دو الگ الگ کارہائے نمایاں انجام دئے ہیں جن کے بغیر اصل اسلام تو بہت دور شاید اس کے نام کا بھی باقی رہنا ناممکن ہوتا۔
پیغمبر اسلام ص نے آیات قرآنی میں شہزادوں کےفضائل وکمالات کی طرف اشارہ کرنے کے ساتھ ساتھ خود اپنے اقوال وارشادات سے امت مسلمہ میں ان کی امتیازی شان ومنزلت سے آگاہ فرمایاتھا اور دونوں کے کمال کردار کی ضمانت کے لیے وہ مشہور حدیث ارشاد فرمادی تھی جو صلح وجنگ دونوں پر عصمت کے حصار کی علامت ہے ھٰذان امامان قاما اوقعداگویا آپ بتانا چاہتے تھے کہ وقار اسلام کی خاطر ان کا قیام اور انکی صلح دونوں ہی ان کے فریضۂ امامت کا حصہ ہیں اوردونوں ہی کے ذریع حفاظت اسلام کا سامان فراہم ہونا ہے ۔
یہی وجہ ہے کہ مولائے کائنات کے بعد جب شام کی حکومت نے اپنے سیاہ کارناموں انجام دہی کے لیے اسلام کی خوبصورت نقاب اوڑھنا چاہی تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس بڑے شہزادہ یعنی امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام نے اپنی صلح کے ذریعہ اس کے چہرہ پرپڑی ہوئی نقاب کو کچھ اس طرح نوچ پھینکا کہ شام کی حکومت سر عام رسوا ہوگئی اور پھر اس کے پاس منہ چھپانے کا کوئی موقعہ نہیں رہ گیا یہی وجہ ہے کہ پھر وارث امام حسن (علیہ السلام) یعنی امام حسین (علیہ السلام) کے سامنے وارث معاویہ یزیدمنحوس کواپنی تمام تباہ کاریوں اور رسوائیوں کےساتھ کھل کرسامنے آناپڑا اور بنی امیہ کی ساری حقیقت دنیا کے سامنےآشکار ہوکے رہ گئی۔
شہزادہ صلح امام حسن علیہ السلام نے اپنی تاریخی صلح کے ذریعہ حفاظت اسلام کی خاطرجو کارنامہ انجام دیا اسے دیکھ باشعور ارباب سیاست آج تک انگشت بدنداں ہیں اگرچہ ہنگاموں کی عادی دنیا نے اس خاموش لیکن تاریخ ساز کارنامہ کو اس کا وہ حق بالکل نہیں دیا جو اسے ملنا چاہئے تھا اور امام حسن مجتبی علیہ السلام کا یہ عظیم کارنامہ بھی آپ کی عظیم شخصیت کی طرح مظلومیت کی نذر ہوگیا ۔
موجودہ سال سنہ ١۴۴١ہجری اس ممتاز کارنامۂ صلح کے چودہ سوسال پورے ہونے کا سال ہے ہونا تو چاہئے تھا کہ پورا سال اس عظیم کارنامہ صلح کے موضوع پر بڑے بڑے سیمنار ہوتے اور اسکی عظمت 'افادیت اور ضروت کی وضاحت کے علمی تجزیہ اور تحلیل پر مشتمل متعددکتابیں اورمقالے شایع ہوتے تاکہ دینا پر یہ واضح کیا جاسکتا کہ اسلام دہشت کا نہیں بلکہ دہشت کے منہ پر طمانچہ مارنے کا مذہب ہے ۔
مگر افسوس کہ ایک اس عظیم کارنامۂ صلح سے ہماری غفلت اور پھر شاید اسی غفلت کی وجہ سے سزا کے طور پر دنیا کی تالا بندی نے ہمیں یہ موقعہ نہیں دیا کہ ہم اس گرانقدر کارنامۂ صلح کی کھلی ہوئی فتح کا شایان شان جشن منا سکیں۔
آئیے اس صاحب فضیلت شہزادۂ صلح کی ولادت باسعادت کے موقع پر آپکی بارگاہ کرم سے اپنی اس کوتاہی پر معذرت کے ساتھ انھیں خراج عقیدت پیش کریں اوریہ التجا کریں کہ مولا اپنے دست کرم سے بارگاہ قدس الہی سے اس وحشتناک عالمی وبا سے نجات کا سامان فراہم کروادیں اور کریم پرودگار اس مولودکریم کے صدقہ میں دنیاکے حالات پر رحم کرتے ہوے اسے ہر بلاو مصیبت سے محفوظ رکھے اور ہمیں ہماری ناقدریوں کی اور سزا نہ دے
سید حمیدالحسن زیدی
الاسوہ فاؤنڈیشن سیتاپور
١٣رمضان المبارک١۴۴١ہجری
مطابق۷مئی۲۰۲۰ بروز جمعرات