14 August 2020 - 18:35
News ID: 443453
فونت
۲۴ ذی الحجہ وہ مبارک و مسعود تاریخ ہے جس میں پیغمر اسلام و اہلبیت اطہار علیھم السلام کو نصارٰی نجران پر تاریخی فتح حاصل ہوئی اور اسے روز مباہلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق قرآن اور روایات و احادیث کی اصطلاح میں مباہلہ کے معنی ملاعنہ اور ایک دوسرے پر کچھ اس طرح لعنت و نفرین کرنے کے ہیں کہ جب دو گروہ یا جماعتیں یا دو افراد اہم مسئلے میں مذاکرہ اور گفتگو کریں لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچیں تو وہ ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں اور آخری کوشش کے طور پر اللہ کی بارگاہ میں تضرع اور التجا کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے کو رسوا کردے ۔

باسمہ سبحانہ

مباہلہ اور اسکا پیغام

تحریر: سید نجیب الحسن زیدی

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق ۲۴ ذی الحجہ وہ مبارک و مسعود تاریخ ہے جس میں پیغمر اسلام و اہلبیت اطہار علیھم السلام کو نصارٰی نجران پر تاریخی فتح حاصل ہوئی اور اسے روز مباہلہ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ جہاں سچائی کی جھوٹ پر واضح فتح ہونے کے ساتھ یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ در حقیقت سچے کون ہیں اور ایسے سچے کون ہیں جنہیں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے ساتھ لیکر گئے اور انکی صداقت کا کلمہ نصارٰی نجران کے علماء و دانشوروں نے یہ کہہ کر پڑھا: ہرگز ان سے مباہلہ نہ کرنا کہ میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ پہاڑوں کو اشارہ کر دیں تو پہاڑ اپنی جگہ چھوڑ دیں۔ مباہلہ نہ صرف حضور سرور کائنات کے لئے ایک تاریخی فتح قرار پایا بلکہ رہتی دنیا تک  آیہ مباہلہ(1) کے ذریعہ یہ بھی واضح ہو گیا کہ اہلبیت اطہار علیھم السلام سے مراد کون لوگ ہیں۔

مباہلہ کے معنی و اسکا مفہوم:
"مباہلہ" کے لغوی معنی ایک دوسرے پر لعن و نفرین کرنے کے ہیں۔(2) اہل لغت بیان کرتے ہیں، مباہلہ در حقیقت مادہ "بہل" (بر وزن "اہل") سے مشتق ہے اور اس کے معنی کسی چیز کو چھوڑ دینا اور کسی چیز سے قید و بند اٹھانے کے ہیں "بہلہ اللہ" یعنی خدا اس پر لعنت کرے اور اپنی رحمت سے دور کرے (3) مباہلہ کو کسی کے ہلاکت کی نیت سے بدعا کے عنوان سے بھی بیان کیا گیا ہے (4)

اصطلاحی معنی:
قرآن اور روایات و احادیث کی اصطلاح میں مباہلہ کے معنی ملاعنہ اور ایک دوسرے پر کچھ اس طرح لعنت و نفرین کرنے کے ہیں کہ جب دو گروہ یا جماعتیں یا دو افراد اہم مسئلے میں مذاکرہ اور گفتگو کریں لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچیں تو وہ ایک مقام پر جمع ہوتے ہیں اور آخری کوشش کے طور پر اللہ کی بارگاہ میں تضرع اور التجا کرتے ہیں اور درخواست کرتے ہیں کہ خداوند متعال جھوٹے کو رسوا کردے۔(5)

آیت کا شان نزول:
 مسلم اور ضروری حد تک پہنچ جانے والے مسائل میں ایک آل عبا یعنی اہلبیت اطہار علیھم السلام و پنجتن کی شان میں آیہ مباہلہ کا نازل ہونا ہے، یہ بات اس قدر یقینی ہے کہ بہت سے محدثین، مورخین اور متکلمین نے اپنی کتابوں میں اس بات کو ناقابل انکار اور مسلم الثبوت حیثیت کا حامل بیان کیا ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ بہت سے مسلمان اس بات کے قائل ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے نصارٰی نجران کے مسئلہ میں عورتوں میں اپنی پارہ جگر فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا ، اور فرزندوں میں اپنے دونوں نواسوں حسن اور حسین اور اپنے نفسوں میں علی ؑ کے علاوہ کسی اور کو اپنے ساتھ نہیں لیا، اس علی ؑ کو ساتھ لیا جسکی نسبت آپکے ساتھ وہی تھی جو موسٰی کو ہارون سے تھی، الغرض آپ نے انہی شخصیتیوں کو لیا  کہ جو یا تو آپ کی جان کی حیثیت کی حامل تھیں یا خود آپکی ذات  کا حکم ان پر لگتا تھا۔

محدثین و مفسرین نیز تاریخی منابع و مصادر کی روشنی میں واضح ہے کہ آیہ مباہلہ  میں "انفس" سے مراد علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ذات با برکت ہے اور یہی بات دلیل ہے کہ جو تمام صفات پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو دیگر انبیاء سے افضل و برتر بناتی ہیں وہ تمام کی تمام امام علی علیہ السلام کے یہاں بھی بدرجہ اتم موجود ہیں چونکہ آپ نفس پیغمبر ہیں، بس فرق یہ ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ علیہ وآلہ سلم کے بعد کوئی نبی نہیں ہے اور امامت کے سلسلہ کا آغاز ہوتا ہے۔ مباہلہ میں آپ کا نفس پیغمبر (ص) قرار پانا اتنی بڑی فضیلت ہے کہ سعد ابن ابی وقاص جیسی شخصیت بھی اسکا اعتراف کرتی نظر آتی ہے چنانچہ عامر بن سعد بن ابی وقاص سعد بن ابی وقاص سے نقل کرتے ہیں کہ امیر شام  نے سعد سے کہا، تم علی پر سب و شتم کیوں نہیں کرتے ہو؟ سعد نے کہا، "جب تک مجھے تین چیزیں یاد ہونگی کبھی بھی ان پر دشنام طرازی نہیں کروں گا؛ اور اگر ان تین باتوں میں سے ایک کا تعلق مجھ سے ہوتا تو میں اس کو سرخ بالوں والوں اونٹوں سے زیادہ دوست رکھتا"۔

بعد ازآں سعد ان تین باتوں کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں، اور تیسری بات یہ تھی کہ جب آیت فَقُلْ تَعَالَوْاْ نَدْعُ أَبْنَاءنَا وَأَبْنَاءكُمْ وَنِسَاءنَا وَنِسَاءكُمْ وَأَنفُسَنَا وأَنفُسَكُمْ... نازل ہوئی، تو رسول خدا(ص) نے علی، فاطمہ اور حسن و حسین(ع) کو بلایا اور فرمایا، "اللهم هؤلاء اهل بيتي" یعنی پروردگار! یہ میرے اہل بیت ہیں۔(6) خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہم اس در سے وابستہ ہیں، اس گھر سے وابستہ ہیں جس نے اسلام کو تاریخی فتح دلائی اور جس گھر کے افراد کی عظمت و جلالت اتنی تھی کہ لاکھ حیلوں اور حربوں کے باجود نصارائے نجران کی نہ چل سکی اور انہوں نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی صداقت و عظمت کا کلمہ پڑھا، خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں  نعمت ولایت سے نوازا اور محبت علی ؑ کی دولت سے ہمیں مالا مال کیا کہ اس سے بڑھ کر دنیا میں اور کوئی نعمت نہیں ہے ہم سب مل جل کر بارگاہ معبود میں دعاء کرتے ہیں کہ اس با برکت مہینہ میں جس میں تونے عید اکبر قرار دی جس میں تو نے مباہلہ قرار دیا، پروردگار توفیق دے کہ ہم اہلبیت اطہار علیھم السلام کے بتائے راستہ پر چل سکیں۔

پیغام  مباہلہ:
وہ چیز جو ہمارے لئے بہت اہم ہے وہ یہ ہے کہ ہمیں جہاں اہلبیت اطہار علیھم السلام سے وابستگی پر ہمیں فخر ہے وہیں اس بات پر بھی توجہ ہونا چاہیئے کہ پیغام مباہلہ کیا ہے؟ مباہلہ نے جہاں حقانیت پیغمبر (ص) کو واضح کیا ہے وہیں مباہلہ اس بات کا اظہار بھی ہے کہ جب معرکہ بڑا ہو اور دین کی آبرو و عزت کا سوال ہو تو زبانی جمع خرچی سے کچھ نہیں ہوتا ہے انسان کے کردار میں اتنا وزن ہونا چاہیئے کہ مدمقابل خود  صداقت و حقانیت کا اعتراف کر لے، جیسا کہ میدان مباہلہ میں ہوا، نہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کچھ کہا  اور نہ ہی انکے اہلبیت (ع) کی کسی فرد نے زبان کھولی، یہ خاموش تھے لیکن  انکی خاموشی میں اتنا وزن تھا کہ دشمن نے خطرے کو بھانپ لیا اور سمجھ لیا کہ جنکی خاموشی میں اتنا وقار ہے وہ اگر لب کھول دیں گے تو کیا ہوگا؟

کہا جا سکتا ہے کہ مباہلہ کا ایک اہم پیغام یہی ہے کہ زبانی دعوے و لن ترانیوں سے دشمن کو  پسپا نہیں کیا جا سکتا ہے اپنے کردار کو اتنا وزنی بنانے کی ضرورت ہے کہ دشمن بھی حقانیت  کے اعتراف پر مجبور ہو جائے،  لیکن افسوس کل کے شکست کھانے والے آج مسلمانوں کو دھمکیاں دے رہے ہیں اور کردار و اخلاق تو دور انکی دھمکیوں کا زبانی جواب تک دینے کی مسلمانوں میں طاقت نہیں ہے، ہاں وہ لوگ ضرور کل کی طرح آج بھی یہود و نصارٰی کے مقابل ڈٹے ہیں جنہوں نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کا دامن تھاما ہوا ہے، نہ وہ کل کسی سے ڈرے تھے اور نہ آج ڈرے ہیں۔ انکی تعداد کل بھی کم تھی اور آج بھی، ایسے میں مباہلہ کا اہم پیغام یہ ہے کہ ہم دیکھیں کیا آج کے دور میں حق و باطل کے درمیان سجے میدان کارزار میں ہم نے حق کا ساتھ دینے کا عہد کیا ہے تو ہم اس عہد میں کتنا سچے ہیں؟ کیا ہم نے تیاری کی ہوئی ہے کہ ہم جہاں رہیں گے حقانیت و صداقت کی راہ پر اسی طرح گامزن رہیں گے جیسے ہمارے مقتدی قائم تھے، اگر ہم نے یہ عہد کیا ہے تو اب اپنے کردار و اخلاق کو اتنا ہی وزنی بنانے کی ضرورت ہے کہ ہمارا سکوت باطل پرست طاغوتی طاقتوں کے شور شرابے پر بھاری آ جائے اور ہم بولیں تو ہماری باتوں میں اتنا دم ہو کہ باطل کو شکست فاش ہو ایسا نہ ہو کہ ہمارے ہاتھ پیر باندھ کر میڈیا کے کٹگھرے میں ہمیں کھڑا کر دیا جائے اور ہم پر چو طرفہ حملوں کی بوچھار ہو ایسے میں ہم بولیں بھی تو وہی ہماری زبان سے نکلے جو دشمن چاہتا ہو ایسا نہ کہ ایک لمبی چوڑی چہار دہواری کے پیچھے ہماری الگ ہی دنیا ہو بظاہر تو ہم شعلہ بیاں انقلابی ہوں لیکن ہمارے ترکش کے سارے تیر اپنوں پر خرچ ہوں، ایسا نہ ہو ہم جب بھی میدان حرف و سخن میں آئے دوستوں اور اہلبیت اطہار علیھم السلام کے چاہنے والوں کی حوصلہ افزائی و پشت گرمی کے بجائے انکی ہمتیں پست ہوں ان کو چوٹ پہنچے اور دشمنان اہلبیت اطہار علیھم السلام کے خیموں میں ڈھول تاشہ ہو کہ ہمارا تو اب کام ہی نہیں انکا اپنا ہی اپنے فضائل اہلبیت ع ڈھانے پر تلا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہماری گفتگو جب بھی ہو اپنوں سے زیادہ دشمنوں کی خوشیوں کا سبب ہو اور ہم سوچیں کہ ہم تو حق بیان کر رہے ہیں ایسا نہ ہو کہ میدان سیاست ہم سے ہماری فکر، ہماری تدبیر اور ہمارا ایمان چھین لے۔ اس لئے ضروری ہے کہ پیغام مباہلہ کو سمجھتے ہوئے ہم اس طرح آگے بڑھیں کہ ہمارا سکوت و ہمارا کلام دونوں ہی دشمنوں کی شکست کا سبب بنیں اور شک نہیں ہم اگر حق کی راہ پر آگے بڑھیں گے تو خدا ہماری مدد کرے گا اور یہ خدا کا وعدہ ہے "إِنْ تَنْصُرُوا اللَّهَ يَنْصُرْكُمْ وَ يُثَبِّتْ أَقْدامَكُمْ"…. 

حواشی :
1 ۔ فَمَنْ حَاجَّکَ فِیہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ اٴَبْنَائَنَا وَاٴَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَا وَنِسَائَکُمْ وَاٴَنْفُسَنَا وَاٴَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اللهِ عَلَی الْکَاذِبِینَ، آل عمران آیہ ۶۱

 2۔ الجوہری، اسمعیل بن حماد، الصحاح، ۔ ذیل مادہ بہل۔

3۔ فرهنگ جامع عربى، فارسى، ماده "بهل"؛ فرهنگ دانشگاهى، ترجمه المنجد الابجدى، مادہ "بهل"۔تفصیل کے لئیے رجوع کریں : الزمخشری، محمود، ، ج۔۱، ص: ۳۶۸ ،۱۴۱۵ ھ

 4۔ طبرسی، مجمع البیان، انتشارات ناصرخسرو، ج۲، ص ۷۶۲ ۔

5۔ الزمخشری، محمود، الکشاف عن حقائق غوامض التنزیل، ج۱، قم، نشر البلاغه، الطبعة الثانیة، ۱۴۱۵ہجری۔
طباطبایی، سید محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ج ۳، قم: اسماعیلیان، الطبعة الثالثة۔

 6۔ صاحب تفسیرالمیزان علامہ طباطبائی کے مطابق یہ روایت صحیح مسلم، سنن ترمذی، أبو المؤید الموفق بن أحمد کی "فضائل علی"، ابو نعیم اصفہانی کی "حلیۃ الاولیاء" میں اور حموینی کی "فرائد السمطین" میں بھی نقل ہوئی ہے۔ تفصیل کے لئیے رجوع کریں : الطباطبائی، محمدحسین، المیزان فی تفسیر القرآن، ذیل آیه 61 آل عمران؛

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬