رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق یمن میں خام تیل کے ذخائر انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کے حامل ہیں۔ انہی ذخائر کی لالچ میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے 2015ء سے اس ملک کے خلاف وحشیانہ جنگ شروع کر رکھی ہے۔
یمن کی اسٹریٹجک جغرافیائی پوزیشن اور خام تیل اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر ایسی دو بڑی وجوہات تھیں جن کے باعث سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے اس ملک پر فوجی حملہ کیا ہے۔ متحدہ عرب امارات افریقی شاخ اور یمن کے ساحلی علاقوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔ دوسری طرف سعودی عرب بھی یمن میں اقتصادی اور تجارتی مفادات کا حصول چاہتا ہے۔
یمن میں واقع خام تیل کے وسیع ذخائر پر قبضہ بھی دونوں ممالک کی دلی آرزو ہے۔ سعودی عرب دنیا کے دوسرے بڑے خام تیل کے ذخائر کا مالک ہے۔ دوسری طرف یمن میں موجود تیل کے ذخائر سعودی عرب کے تیل کے ذخائر کا 1.5 فیصد سے بھی کم ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی عرب نے یمن کے تیل کے ذخائر پر نظریں جما رکھی ہیں اور وہاں اپنی آئل ریفائنریز تعمیر کرنے کے منصوبے بنانے میں مصروف ہے۔ سعودی عرب اس وقت تک اپنے خام تیل کے تمام ذخائر کو دریافت نہیں کر سکا ہے۔
یمن میں خام تیل کے ذخائر کا انکشاف 1980ء کی دہائی میں ہوا۔ اس وقت کے بعد یمن کی معیشت میں خام تیل کی پیداوار اسٹریٹجک اہمیت حاصل کر گئی۔
1990ء میں یمن کے شمالی اور جنوبی حصوں میں اتحاد تشکیل پانے کے بعد تیل کی صنعت میں بہت حد تک ترقی آئی۔ 1990ء میں یمن کی تیل کی پیداوار سالانہ 69.1 ملین بیرل تھی جو 2001ء میں بڑھ کر سالانہ 161.1 ملین ڈالر تک جا پہنچی۔ اس سال یمن نے تیل کی پیداوار میں چار لاکھ چالیس ہزار بیرل روزانہ کی ریکارڈ سطح کو بھی حاصل کیا۔ لیکن اس کے بعد تیل کی پیداوار گرنا شروع ہو گئی۔
اس کی بنیادی وجہ تیل کے نئے ذخائر کی عدم دریافت اور ملک میں سیاسی عدم استحکام تھا۔ اگست 2016ء میں منصور ہادی کی حکومت نے صوبہ حضر موت میں موجود تیل کی کنووں سے بھی تیل نکالنا شروع کر دیا۔ یہ علاقہ سعودی اتحاد کے زیر قبضہ تھا۔ جنوبی یمن میں واقع صوبہ شبوہ اگرچہ دسمبر 2017ء سے انصاراللہ یمن کے قبضے سے خارج ہو چکا تھا لیکن متحدہ عرب امارات کی جانب سے رکاوٹیں پیدا کئے جانے کے باعث جولائی 2018ء تک وہاں سے خام تیل کی پیداوار کا آغاز نہ ہو سکا۔ یاد رہے متحدہ عرب امارات اس صوبے کی بلحاف آئل ریفائنری کا کنٹرول سنبھالے ہوئے ہے۔
یمن کے صوبہ مارب میں سرگرم صافر آئل کمپنی بھی منصور ہادی حکومت کے کنٹرول میں ہے۔ گذشتہ سال اکتوبر میں اس کمپنی نے اعلان کیا کہ خام تیل کی پیداوار کا آغاز کر چکی ہے۔ یمن میں اکثر افراد کے ذہن میں یہ سوال پایا جاتا ہے کہ ان کمپنیوں نے کئی سال کی تاخیر سے تیل کی پیداوار کا آغاز کیوں کیا ہے؟ یمن میں سرگرم آئل کمپنیوں میں ایک بڑی کمپنی کا تعلق آسٹریا سے ہے اور اس کا نام او ایم وی (OMV) ہے۔ اس کمپنی کے 25 فیصد حصص متحدہ عرب امارات کے پاس ہیں۔
یمن کے باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ یمن کی تیل کی پیداوار میں تاخیر کی اصل وجہ یہی کمپنی تھی۔ یمن اب بھی تیل اور گیس کی بین الاقوامی کمپنیوں کیلئے زرخیز میدان ہے۔ 2014ء میں شروع ہونے والی حالیہ جنگ سے پہلے فرانس کی ٹوٹل، امریکہ کی ہانٹ، آسٹریا کی ایم او وی، کینیڈا کی نیکسن اور چین کی سائیونیک آئل کمپنیاں یمن میں سرگرم عمل تھیں۔ اگر ہم یمن کے نقشے میں تیل اور گیس کے ذخائر پائے جانے والی جگہوں پر غور کریں تو دیکھیں گے کہ یہ وہی مقامات ہیں جہاں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے حمایت یافتہ گروہوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔
یمن کے اقتصادی امور کے ماہر نعیم السویدی اس بارے میں کہتے ہیں کہ یورپی اور عرب کمپنیاں یمن میں عظیم پیمانے پر تیل اور گیس کے ذخائر ہونے کی تصدیق کرتی ہیں۔ اسی طرح وہ اس حقیقت سے بھی آگاہ ہیں کہ ان ذخائر کا صرف 20 فیصد حصہ ابھی تک دریافت ہوا ہے۔ انہوں نے مزید کہا: "یمن مجموعی طور پر ایک غریب ملک نہیں ہے بلکہ بہت قیمتی ذخائر سے مالا مال ہے۔
گذشتہ پچاس سالوں سے اس ملک پر کوئی ایسا لائق حکمران برسراقتدار نہیں آیا جو اس دولت کو نکال کر اس سے بہرہ مند ہو سکتا۔" نعیم السویدی کہتے ہیں کہ جب تک یمن میں اقتصادی استحکام نہیں آتا سیاسی استحکام بھی نہیں آ سکتا اور یہ ایسی چیز ہے جسے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات ہر گز نہیں چاہیں گے۔
یمن کے ایک اور اقتصادی ماہر محمد الرونی کا کہنا ہے کہ یمن میں تیل اور گیس کے ذخائر بہت وسیع ہیں جبکہ اسٹریٹجک اہمیت کی حامل چار بندرگاہیں الحدیدہ، عدن، المکلا اور شبوہ بھی ہیں۔
سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے انہی پر قبضے کیلئے یمن کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے اور اب تک سینکڑوں بے گناہ شہریوں کا قتل عام کر چکے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ذرائع ابلاغ میں جھوٹ بولا جاتا ہے کہ یمن کے خلاف جنگ میں سعودی اتحاد کے محرکات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ محرکات اقتصادی نوعیت کے ہیں۔