25 August 2020 - 23:24
News ID: 443558
فونت
آئمہ اطہار علیہم السلام کی شہادت کے ایّام کی مناسبت سے امام رضا علیہ السلام کے حرم کے صحنوں میں مجالس و عزاداری کی تاریخ کافی پرانی ہے ۔

رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق گذشتہ ادوار کے وقف ناموں اور تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ آئمہ اطہار علیہم السلام کی شہادت کے ایّام کی مناسبت سے امام رضا علیہ السلام کے حرم کے صحنوں میں مجالس و عزاداری کی تاریخ بھی کتنی پرانی ہے ۔

اگرچہ اس سال عشرہ محرم میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی وجہ سے گذشتہ برسوں کی طرح امام رضاعلیہ السلام کے حرم میں اور ساتھ ہی پورے ایران میں عزاداری اس جوش و خروش سے نہيں منائی جارہی ہے جیسا کہ ہوا کرتی تھی اور ایران اور بیرون ملک سے زائرین بھی مشہد نہيں پہنچ پارہے ہيں لیکن پھر بھی ان تمام مخیّر حضرات کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ، جنھوں نے اپنے مال و اموال کا کچھ حصہ یا اپنا سب کچھ شعائر اسلامی اور مجالس و عزاداری کے انعقاد کے لئے وقف کیا تھا ، ہم یہاں پر محرم الحرام کی مناسبت سے آستان قدس رضوی کی خاص مناسبتوں کے لئے وقف کئے گئے بعض موقوفات کا تاریخی لحاظ سے ذیل میں تعارف کروائیں گے۔

مشہد مقدس کے مخیّر حضرات کی خیراندیشی و نیک نیتی

حرم مطہر رضوی کے لئے کچھ لوگوں نے اپنی جائیداد اور مال و اسباب صرف اس لئے وقف کئے ہيں کہ ان سے حاصل ہونے والی آمدنی کو محرم اور صفر اور اسی طرح اہلبیت اطہار کی دیگر شخصیات کے ایام شہادت میں حرم کے اندر ہونے والی عزاداری میں خرچ کیا جائے ۔ انہي واقفین میں سے ایک مرحوم حاج محمد قاسم ہیں جو کہ ملک التجار کے نام سے مشہور ہیں ۔ انہوں نے ۱۲۷۷ ہجری قمری میں شمس آباد کے فارم ہاؤس اورکھیتوں کا آدھا حصہ اور حاجی آباد میں واقع پتھر کے بہت بڑے کارخانے یا سے حاصل ہونے والی آمدنی کا دو پانچواں حصہ حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ میں سرکار سید الشہدا حضرت امام حسین علیہ السلام کی عزاداری پر خرچ کرنے کے لئے وقف کیا تھا ۔ اسی طرح انہوں نے ہر شب جمعہ دارالسیادہ میں ہونے والی مجالس اور دعاؤں کے اخرابات کے لئے بھی اپنی جائیداد کے کچھ حصے کو وقف کیا تھا ۔

مرحوم سید میرزائے صراف بھی اپنی زندگی میں اس موضوع پر کافی توجہ دیتے تھے اسی لئے ا نہوں نے ۱۲۷۸ ہجری قمری میں شہر طوس علیا کے کھیتوں ،دوکانوں کی آدھی آمدنی اور حمام باغ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا آدھا حصہ اور دروازہ نوغان نامی جگہ پر واقع قنات میرکاریز کی آدھی آمدنی کے علاوہ گنبدواز نامی علاقے کے کھیتوں کے دو حصے اور فارمد نامی دیہات کے کھیت کا ایک حصہ اور اسی طرح پانچ مکانات حرم امام علی رضا علیہ السلام کے لئے وقف کئے ۔ ان اوقاف سے حاصل ہونے والی آمدنی کو ان کی نیت کے مطابق ہر سال حرم امام علی رضا(ع) کے متولی کی اجازت سے مشہد مقدس کے پانچ علمائے کرام کو دی جاتی ہے تاکہ وہ اپنے گھروں میں مجالس و عزاداری کا اہمتام کریں ۔

اس کے علاوہ حرم مطہر امام علی رضا علیہ السلام کے سابق متولی مرحوم آیت اللہ واعظ طبسی نے ۱۳۸۰ ہجری شمسی میں مشہد مقدس کی ناظر نامی گلی میں واقع ایک کتابخانہ اور حسینیہ امام رضا(ع) کو شعائر اسلامی کی ترویج و تعظیم اور دینی اصولوں کو مضبوط و محکم بنانے کے لئے خاص طور پر مختلف مناسبتوں پر جیسے ماہ محرم الحرام وغیرہ میں مجالس و عزاداری کے لئے وقف کیا۔

آٹھویں خورشید امامت کی سرزمین پر مجالس و مرثیہ خوانی کا انعقاد

آٹھویں خورشید امامت کی سرزمین کے دوسرے شہروں میں بھی وقف کی جائیدادوں اور املاک سے حاصل ہونے والی آمدنی جنہیں مخیر حضرات اور واقفین نے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کی نورانی بارگاہ میں مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی عزاداری کے لئے وقف کیا تھا عشرہ محرم کے موقع پر ان مخیر حضرات کی یادوں کو تازہ کردیتی ہیں ۔

مثال کے طور پر مرحوم مہدی قلی خان قرائی نے محمد آباد کے کھیت کو جو کہ تربت حیدریہ شہر میں واقع ہے ،محمد آباد میں واقع ایک پھل دار باغ، محمد آباددیہات کے پیچھے دو ندیوں کے درمیان واقع زمین،محمد آباد نہر کے کنارے پر جانوروں کی دو چراگاہوں ،محمد آباد کے نچلے حصے کی جانب واقع بارہ حصوں میں سے ایک حصہ اور سنجان نامی قصبہ میں ایک حصہ کو ۱۲۸۹ ہجری قمری میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے لئے وقف کیا تاکہ ان کی آمدنی کا کچھ حصہ خامس آل عبا حضرت سید الشہداء علیہ السلام کی عزاداری کے لئے محرم و صفر کے مہینے میں خرچ کیا جائے اور ان پیسوں سے ہر سال دس راتیں مجالس کا انعقاد کیا جائے ۔

اس کے علاوہ جناب مرحوم میرزا سعید خان مؤتمن الملک نے چناران نامی قصبہ میں واقع فتح آؓباد(سعیدآباد) کے تمام کھیتوں کو ۱۲۹۲ ہجری قمری میں وقف کیا اس وقف نامہ میں آیا ہے کہ ان کھیتوں کی آمدنی کا دسواں حصہ ہر سال پہلی محرم الحرام سے دس محرم الحرام تک اورحرم مطہر کے دروازے پر ہر شب جمعہ میں مجالس عزاء کے انعقاد پر خرچ کیا جائے اس کے علاوہ اس آمدنی کو مجالس کے اختتام پر گلاب کے چھڑکاؤ پر بھی خرچ کیا جائے۔

مرحوم حسین حجاری زنجانی(حجار باشی) نے بھی ۱۳۸۷ ہجری شمسی میں تربت حیدر میں اپنی زمینوں کا بڑا حصہ حرم مطہر رضوی کے لئے وقف کیا تا کہ اس کی آمدنی کا کچھ حصہ محرم الحرام کے پہلے عشرہ میں حضرت سید الشھداء کی مجالس کے انعقاد کے لئے خرچ کیا جائے اور انہوں نے اس کے لئے شرط یہ رکھی کہ اپنے دور کے مشہد کے سب سے بڑے عالم دین کے مشورے سے اور حرم کی تیسری شفٹ کے سربراہ کی نگرانی میں یہ رقم مسجد زنجانی ھا(مسجد مقبرہ نادری) میں مجالس سید الشہدا کے انعقاد پر خرچ کیا جائے

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬