سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات (نمت ) اسلام آباد، حجت الاسلام سید رمیز الحسن موسوی نے رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر سے گفتگو میں پاکستان کی موجودہ صورت حال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : جو شخص بھی عالمی سیاست خصوصاً دنیائے اسلام کی سیاست سے معمولی سی بھی دلچسپی رکھتا ہے وہ جانتا ہے کہ پوری دنیا اور بالخصوص عالم اسلام کی سیاست کا دارومدار اسرائیل کے مفادات کے گرد گھومتا ہے اور پوری دنیا میں استعماری طاقتوں کا ہم وغم اسرائیل کو بچانا اور اس کے اہداف کو پورا کرنا ہے ۔
انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا : بقول امام خمینی ؒ اس سرطانی غدے کو ایجاد کرنے کامقصد ہی عالمی شیطانی قوتوں کو تقویت پہنچانا تھا اور پچھلے بہتر، تہتر سال سے عالم اسلام اور اسلامی ممالک میں ہونے والی تبدیلیاں اسی مقصد کےلئے تھیں ۔ اس عالمی شیطانی سازش کو امام خمینی ؒ کی اسلامی تحریک نے برملا کیااور عالم اسلام کو بیدارکرکے اسے اس طاغوتی نظام کے مقابلے کے لئے آمادہ کیا ۔اس لئے دنیائے اسلام میں جہاں بھی کوئی اضطرابی کیفیت پیدا ہوتی ہے ،اس کے پیچھے یہی طاغوتی مقاصد کی تکمیل کارفرماہوتی ہے ۔
سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے بیان کیا : اس وقت آپ جانتے ہیں کہ اسرائیلی مقاصد کو تحفظ دینے اور ان کی تکمیل کے لئے آخری مراحل کو طے کیا جارہا ہے۔اس سلسلے کی ایک کڑی امارات کا اسرائیل کو سرکاری سطح پر تسلیم کرنا ہے اور تازہ خبروں کے مطابق بحرین نے بھی اسرائیلی مملکت کو رسمی طور پر تسلیم کرلیا ہے ۔ ایسے حالات میں پاکستان جیسے اہم ملک میں اضطراب پیدا کرنا ایک ان طاقتوں کی سیاسی ضرورت ہے ۔پاکستان دنیائے اسلام میں اسرائیلی مخالفت کے لحاظ سے ایک اہم ملک سمجھا جاتا ہے کیونکہ پاکستان کے بانیوں نے شروع ہی سے اسرائیل کے وجود کو تسلیم نہیں کیا تھا اور اس عدم تسلیم کو پاکستان کی نظریاتی بنیاد بنا دیا تھا ۔جس کی بنا پر پاکستانی عوام خواہ جس مسلک سے بھی تعلق رکھتے ہوں ،اسرائیل کو رسمی طور پر تسلیم کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں ۔
انہوں نے کہا : اس رکاوٹ کو فرقہ وارنہ جنگ ہی کے ذریعے کمزور کیا جاسکتا ہے ۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اسلامی انقلاب کے ظہور کے بعد سےاسرائیلی مخالفت کے محاذ کی قیادت اہل تشیع کے ہاتھ میں ہے اور پاکستان کے باشعور اہل سنت کی اکثریت اس نظریاتی قیادت کو تسلیم کرچکی ہے اور قائد شہید علامہ عارف حسین الحسینی ؒ کے زمانے سے ہی اس فکری اور نظریاتی قیادت کی جڑیں پاکستان میں کافی مضبوط ہوچکی تھیں ۔لہذا جب بھی اسرائیلی مفادات کا مسئلہ پیش آتا ہے تو پاکستان میں اہل تشیع پر دباؤ بڑھ جاتا ہے ۔ شاید پاکستان کی سیاسی اور مبارزاتی تاریخ میں اس وقت جس قدر دباؤ اہل تشیع پر ڈالاجارہا ہے وہ اس سے پہلے نہیں ڈالا گیا ۔
سید رمیز الحسن موسوی نے کہا : اس وقت محرم الحرام سے پہلے ہی اس دباؤ اور تنش کے محرکات فراہم کردیئے گئے تھے ۔آصف جلالی نامی ایک سعودی ایجنٹ کے ذریعے بنت رسول ؐ جناب فاطمہ زہراسلام اللہ علیہا کی توہین کرائی گئی ۔اس کے بعد اس سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے آصف علوی نامی عالمی ایجنٹ کو استعمال کرتے ہوئے محرم الحرام کے آغاز میں ہی اہل تشیع کے خلاف ایک ماحول پیدا کیا گیا اور آخر کار روز عاشور زیارت عاشورہ کی تلاوت کو بہانہ بنا کر تمام شیعہ مخالف گروہوں کو ایک پلیٹ فارم مہیا کرنے کی سازش کی گئی ۔لیکن اہل سنت عوام کے باشعور طبقے خصوصاً حالا ت سے آگاہ علمائے اہل سنت کی اکثریت نے اس عالمی صیہونی منصبوے کی نفی کی ہے ۔گو کہ تکفیری سوچ کے حامل کچھ بے شعور لوگ صیہونی ایجنڈے کی تکمیل میں ٹشو پیپر کا کردارادا کررہے ہیں، جنہیں بعد میں ہمیشہ کی طرح استعمال کرکے پھینک دیا جائے گا ۔
انہوں نے کہا : الحمدللہ بعض اہل سنت علما اور شیعہ علماء نے بصیرت کا ثبوت دیا ہے گو کہ پہلے شیعوں کے اندرونی خلفشار اور گروہی سیاست نے ان نازک حالات کا ادراک نہیں کیا، لیکن جلد ہی بعض علماءکی بصیرت کی وجہ سے کہ جنہوں نے ہمیشہ ملت کے مفاد کی خاطر اپنے گروہی جذبات واحساسات کو پس پشت ڈالا ہے ، آخر کل ۱۲ ستمبر ۲۰۲۰ء کو اسلام آباد میں بزرگ علماء کی زیرسرپرستی علما وذاکرین کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ملت کے تقریبا ً سبہی گروہ شامل تھے سوائے ایک دو کو چھوڑ کر سب نے ذمہ داری کا احساس کیا اور ایک مشترکہ بیانیہ سامنے آیا ۔جس کے انشا اللہ امید افزا نتائج نکلیں گے اور عالمی سازش ایک بار پھر پاکستانی عوام کی امنیت کو خراب کرنے میں ناکام ہو گی ۔
سربراہ نورالھدیٰ مرکز تحقیقات اسلام آباد نے اس سوال کے جواب میں کہ دشمن مسلمان سے کیوں خوف کھاتا ہے بیان کیا : واضح سی بات ہے اور اس کے پیچھے قرآنی فکر کارفرما ہے ۔دشمن مسلمانوں سے خوف زدہ نہیں ہے بلکہ مسلمانوں کے متحد ہونے سے خوف زدہ ہے ۔اسی لئے وہ اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنے کی سعی کرتا ہے ۔جس کی مثال پاکستان کے حالیہ صورت حال ہے کہ اسرائیل کے ناجائز وجود کو دوام دینے اوراس کے مفادات کی حفاظت کے لئے پاکستان جیسے اسلام کے قلعے میں اضطراب اور تنش پیدا کرنے کی سعی کی گئی ہے تاکہ مسلمانان پاکستان متحد ہو کر اسرائیل کے وجود کو تسلیم کرنے والے مسلمان ممالک کے خلاف قیام نہ کرسکیں ۔
انہوں نے موجودہ صوت حال میں مسلمانوں کی ذمہ داری بہت ہی اہم جانا ہے اور بیان کیا : ایسے حالات میں ہمارے فریضہ وہی ہے جو قرآن اور اہل بیت اطہار علیہم السلام کی سیرت نے ہمارے لئے معین کیا ہے ۔یعنی اتحاد اور وحدت کلمہ تمام مسلمانوں کو خصوصاً پیروان اہل بیت اطہار کو ایسے حالات میں صبر وتحمل سے کام لینا چاہیے ۔اہل تشیع کوکہ جو امام علی علیہ السلام کی پیروی کا دعوی ٰ کرتے ہیں ،سب سے زیادہ صبر وتحمل کرناچاہیے اور بصیرت وشعور کے ساتھ حالات کا مقابلہ کرنا چاہیے ہمارے سامنے امام علی علیہ السلام کی پچیس سالہ سیرت موجود ہے اور پھر موجود ہ دور میں امام خمینی ؒ اور رہبر معظم کی بصیرت افروز سیرت کہ کس طرح ہماری قیادت نے پچھلے چالیس سال میں صبر تحمل کے ساتھ پوری دنیا سے انقلاب اسلامی ایران کو منوایا ہے اور ثابت کیا ہے کہ عالم اسلام بلکہ عالم بشریت کا مفاد امام خمینی ؒکی فکر ونظریئے کے ذریعے ہی پور ا کیا جاسکتا ہے کہ جو اسلام ناب محمد ی کی فکر ہے نہ عالمی طاغوتوں کی سیاست کے ذریعے ۔