تحریر: نذر حافی
طاقت کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے، طاقت چاہے اقتصادی ہو یا سیاسی، عسکری ہو یا قلمی وہ طاقت ہی ہوتی ہے، طاقت کا کرشمہ یہ ہے کہ وہ کمزور کو بے بس کر دیتی ہے۔ پاکستان میں شیعہ اور سُنی دونوں ہی کمزور ہیں، یہ اکثریت میں ہونے کے باوجود اتنے کمزور ہیں کہ ان کی قسمت کے فیصلے کہیں اور ہوتے ہیں۔ یہ دونوں فرقے ایک طاقتور اقلیت کے ہاتھوں یرغمال ہیں، وہ اقلیت نہیں بلکہ ایک پریشر گروپ ہے، یہ پریشر گروپ انہیں آپس میں مل بیٹھنے اور سوچنے کا موقع نہیں دیتا، اب وہ اقلیتی پریشر گروپ اتنا طاقتور ہے کہ اُسے خوش کرنے کیلئے پاکستان آرمی میں نعرہ رسالتﷺ اور نعرہ حیدری نہیں لگایا جا سکتا، حالانکہ آرمی میں اکثریت شیعہ اور سنی مسلمانوں کی ہے، وہ اقلیت اتنی مضبوط ہے کہ وہ قائداعظم ؒ کو کافر اعظم، پاکستان کو کافرستان کہہ کر اور آئین پاکستان کا انکار کرنے کے باوجود ہر شعبے کی کلیدی پوسٹوں پر قابض ہے، آپ علماء بورڈ سے لے کر محکمہ اوقاف کے مسئولین تک کو دیکھ لیں، اُس اقلیت کی طاقت کا یہ عالم ہے کہ وہ اقلیت نبی اکرمﷺ کے واجب الاحترام والدین کو نعوذ باللہ کافر سمجھتی ہے اور اپنی کتابوں میں اُنہیں کافر لکھتی ہے، لیکن یزید کے باپ دادا کو رضی اللہ کہنے پر مصر ہے۔
یہ اتنی طاقتور اقلیت ہے کہ اگر کوئی قاتلینِ امام حسینؑ پر لعنت کرتا ہے تو اس کے ڈر سے اُس بندے کے خلاف ایف آئی آر درج ہو جاتی ہے اور چینل 24 کا لائسنس تک معطل ہو جاتا ہے۔ لیکن دوسری طرف اس پریشر گروپ کے لوگوں کی مذہبی منافرت، مسلمانوں کی تکفیر، نبی اکرمﷺ کے والدین اور اجداد کی تکفیر نیز دہشت گردی کی ترغیب پر مبنی تقاریر اور کتابیں، سرِعام بِک رہی ہیں اور ان کتابوں کے مصنفین، پبلشرز اور ان کے مقررین پر کوئی پرچہ نہیں کٹتا۔ ان کی سیاسی پاور کا اندازہ اس سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہ اسمبلی سے اپنی پسند کا تحفظ بنیاد اسلام بل بھی منظور کروا لیتے ہیں اور کسی کو کانوں کان خبر بھی نہیں ہوتی۔ ملک کی تقدیر ان کے ہاتھوں میں ہے، کہاں پر مندر بننا چاہیئے اور کہاں پر چرچ! کہاں سے عید میلاد النبیﷺ کا جلوس گزرے گا اور کہاں سے عاشور کا جلوس، یہ سارے فیصلے یہی لوگ کرتے ہیں۔
کہنے کو تو مسٹر عمران خان پاکستان کے وزیراعظم ہیں، لیکن وہ کس کانفرنس میں شرکت کریں گے اور کس میں نہیں، تو اس کا فیصلہ ریاستی ادارے نہیں بلکہ یہی اقلیتی لابی کرتی ہے۔ ابھی جو یکساں قومی نصاب تیار ہو رہا ہے، اُسی کو ہی لیجئے، یہاں بھی پنجاب اسمبلی کے نام نہاد تحفظ بنیاد اسلام بل والی بات ہے، اندرونِ خانہ مذہبی منافرت کے ڈھانچے پر بچوں کی ذہنی پرورش کا منصوبہ تیار ہے۔ یعنی اگلے کچھ سالوں میں ہر گھر سے اہل حدیث، وہابی و دیوبندی وہ بھی تکفیری مجاہدین کی صورت میں نکلے گا۔ پہلے جو پروڈکٹ ان کے مدارس کی تھی، اب یونیورسٹی و کالج سے بھی وہی نکلے گی۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں پہلے ہی ان کے ونگز موجود ہیں، اب رہی سہی کمی یہ نصاب پوری کر دے گا۔ جیسے تحفظ بنیاد اسلام بل یہ کتنا خوبصورت نام ہے، لیکن در پردہ لوگوں کے عقائد کی جبری تبدیلی کا منصوبہ ہے۔ اسی طرح ایک قوم اور ایک نصاب کا نعرہ بظاہر بہت دلکش ہے، لیکن یہاں قوم سے مراد فقط اہل حدیث و دیوبندی قوم ہے۔ سارے پاکستانیوں کو اب اسی ایک ہی قوم میں جبری طور پر تبدیل کرنے کے ایجنڈے پر کام ہو رہا ہے۔
تاریخ شاہد ہے کہ ہمیشہ عالمی اور استعماری طاقتوں کے منصوبوں کو صرف اور صرف یہی قوم کامیاب کرواتی ہے، سو اب پاکستان میں پورے زور و شور سے سب کو یہی قوم بننے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بین الاقوامی ایجنڈے کے مطابق جیسے ہی عرب ریاستوں کے اعلانیہ طور پر اسرائیل کو تسلیم کرنے کے شیڈول پر علمدرآمد کا وقت آیا ہے، اس اقلیتی پریشر گروپ نے پاکستان میں فرقہ واریت کو بھرپور طریقے سے بھڑکا دیا ہے، مقصد صرف اتنا ہے کہ پاکستانی متحد ہوکر عرب ریاستوں کے خلاف کوئی احتجاج نہ کرسکیں۔ یہ پریشر گروپ ماضی میں لوگوں کو مسافر بسوں سے اتار کر قتل کر دیتا تھا، ابھی لوگوں کو پکڑ کر اُنہیں زدوکوب کیا جا رہا ہے اور پھر زبردستی ان کے عقائد کے خلاف اُن سے بیانات لیے جا رہے ہیں، دمِ تحریر مانسہرہ کے تھانے میں جس سفاکیت اور درندگی کے ساتھ ایک نوجوان سے اُس کے عقائد کے خلاف توہین آمیز اظہار کروایا گیا اور اُس سے اپنے ہی مذہبی رہنماوں پر لعنت کرائی گئی۔ اس سے ہر باشعور آدمی کو یہ پتہ چل رہا ہے کہ اس فرقے اور پریشر گروپ کو بین الاقوامی اور داخلی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے ایک مکمل منصوبہ دیا گیا ہے۔
جب تک سعودی عرب اسرائیل کو تسلیم نہیں کر لیتا اور یہ مسئلہ سرد نہیں ہو جاتا، اس وقت تک بلاشبہ پاکستان میں اب اس پریشر گروپ کی طرف سے فرقہ وارانہ کارروائیاں بڑھتی ہی جائیں گی۔ خیر اربابِ اقتدار کو اُن کا اقتدار مبارک ہو، بہرحال ہم یہ عرض کئے دیتے ہیں کہ زبردستی تو آپ لوگوں کی سیاسی وفاداریاں بھی تبدیل نہیں کرا سکتے، پھر مذہبی عقائد کی تبدیلی تو بہت دور کی بات ہے۔ اس بات کو سمجھنے کیلئے ایک مرتبہ پھر سانحہ بنگال کو یاد کیجئے، بنگالیوں کے ساتھ ہمارے مذہبی اختلافات نہیں تھے، صرف سیاسی اختلافات تھے اور جب سیاسی اختلافات کو اسی پریشر گروپ اور فرقے نے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا تھا تو پھر اس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹ گیا تھا۔ صاحبانِ دانش بخوبی جانتے ہیں کہ یہ لوگ تو ہیں ہی پاکستان کے دشمن، انہوں نے بنگالیوں کے خلاف پہلے تو نفرت کو خوب بھڑکایا تھا اور پھر موقع پاکر آج کی سپاہِ صحابہ اور لشکر جھنگوی کی طرح اُس وقت البدر اور الشمس کے نام سے جتھے بنا کر بنگالیوں پر شب خون مارا تھا اور اسی کے نتیجے میں بنگال بنا تھا۔
جیسے ماضی میں انہوں نے بنگالیوں کو جگتو فرنٹ اور مکتی باہنی بنانے پر مجبور کیا تھا، آج ایک مرتبہ پھر یہ دیگر مذاہب و مسالک کے پاکستانیوں کو ہتھیار اٹھانے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ سب کچھ دانستہ طور پر اور سب کے سامنے ہو رہا ہے۔ اس وقت سعودی بادشاہوں اور شاہزادوں کی عظمت اور ناموس پر پاکستان کو قربان کرنے کی تیاریاں مکمل ہوچکی ہیں، یہ پریشر گروپ ان ایام میں قتل و غارت کا بازار گرم کرنا چاہتا ہے۔ ہماری دانشمند طبقے سے گزارش ہے کہ یہ بازار گرم تو ہو جائے گا، سعودی عرب بھی اسرائیل کو تسلیم کر لے گا لیکن سعودی عرب کے جرائم پر پردے ڈالنے کی پاکستانیوں کو نجانے کتنی بڑی قیمت چکانی پڑے گی۔ یاد رکھئے! ملک دشمن عناصر کو پہچاننے کے بعد اُن کا مقابلہ نہ کرنا ہی اصل میں غداری اور ملک دشمنی ہے۔/
نوٹ: ادارہ کا مصنف کے اثر سے متفق ہونا ضروری نہیں