26 August 2020 - 12:48
News ID: 443563
فونت
مصنف محترم نے ناصبیوں کا یہ نقطہ نظر نقل کیا ہے کہ امام حسینؑ کی طرف داری غلو پر مبنی ہے نیز انھیں باغی قرار دے کر وہ انکے قتل کو جائز قرار دینے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ الازہری نے یہ واضح کیا ہے کہ کربلا میں امام حسینؑ کا مقصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے۔

تحریر: ثاقب اکبر

ہم جانتے ہیں کہ امام حسین علیہ السلام تمام مسلمانوں کے نزدیک نہایت بلند اور عظیم مقام رکھتے ہیں۔ ان کی مودت و محبت مسلمانوں کے تمام مسالک میں واجب گردانی جاتی ہے۔ غلبۂ حق کے لیے امام حسینؑ اور ان کے رفقاء کی عظیم الشان قربانی کو سب اہل حریت خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم نے اپنے قارئین کی خدمت میں اکابر اہل سنت کی امام حسینؑ کے حوالے سے لکھی ہوئی کئی ایک کتابوں کا تعارف پیش کیا ہے۔ ہمارا مقصد ہے کہ یہ بات سب مسلمانوں کے دلنشین ہو جائے کہ امام حسینؑ کی محبت پر کسی گروہ یا مسلک کی اجارہ داری نہیں بلکہ وہ سب کے محبوب ہیں، اس لیے کہ وہ محبوبؐ الٰہی کے محبوب ہیں۔ اس وقت ہمارے پیش نظر بھکھی شریف کے سادات کرام کی بلند مرتبہ اور محترم علمی و روحانی شخصیت علامہ سید محمد امجد منیر الازہری کی کتاب ’’سیدنا امام حسین علیہ السلام اور معرکۂ حق و باطل‘‘ ہے۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ اس کتاب کی تالیف کا ایک جذبۂ محرکہ ایک ناصبی کی کتاب ’’رسومات محرم الحرام اور سانحہ کربلا‘‘ ہے۔

اس کتاب میں مولف نے یزید کو ایک برحق خلیفہ اور امیرالمومنین ثابت کرنے کے لیے قرآن و سنت کی واضح تعلیمات اور حقائق کو جھٹلا دیا ہے۔ بہت سارے مقامات پر حق و باطل میں اختلاط پیدا کرکے قارئین کو گمراہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسے میں ایک پاک دل مومن جو نبی پاکؐ سے محبت رکھتا ہے اور نبی پاکؐ ہی کے اسوہ اور فرمودات کی روشنی میں اہل بیتؑ سے بھی محبت رکھتا ہے، کا بے قرار ہو جانا فطری ہے۔ اسی فطرت کے جلوے ہم پیش نظر کتاب میں دیکھتے ہیں۔ ’’رسومات محرم الحرام‘‘ میں نسب اور قبیلے کے شرف کی علی الاطلاق نفی کی گئی ہے، اس زعم باطل کو آشکار کرنے کے لیے مولف محترم نے کئی ایک فرمودات پیغمبر اکرمؐ کو نقل کیا ہے۔ صحیح ترمذی کی جلد ۲ سے ایک روایت کا ترجمہ ملاحظہ ہو: ’’حضرت عباس بن عبدالمطلب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو منبر شریف پر یہ فرماتے ہوئے سنا کہ اے لوگو! ’’من انا‘‘ میں کون ہوں۔ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کیا آپ اللہ تعالیٰ کے رسول ہیں۔ آپ نے فرمایا میں محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہوں، اللہ تعالیٰ نے جب مخلوق کو پیدا فرمایا تو مجھے بہترین مخلوق میں پیدا فرمایا۔‘‘(ص ۱۶)

امام حاکم کی المستدرک جلد۴ سے بھی انھوں نے ایک روایت نقل کی ہے، ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: "جب اللہ تعالیٰ نے گھر بنائے تو مجھے بہترین گھر اور نسب میں مبعوث فرمایا۔"(ص۱۷) ایک اور روایت انھوں نے صحیح مسلم اور ترمذی شریف سے نقل کی ہے، جس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، اللہ رب العزت نے اولاد حضرت آدم میں سے حضرت ابراہیم کو پسند فرمایا، انھیں مقام خلت عطا فرمایا۔ پھر اولاد ابراہیم علیہ السلام میں سے حضرت اسماعیل علیہ السلام کا انتخاب فرمایا۔ اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے حضرت نزار پر نگاہ انتخاب رُکی۔ اولاد نزار میں سے قبیلہ بنو مضر کو منتخب کیا گیا۔ بنو مضر میں سے کنانہ کو چنا گیا، اولاد کنانہ میں سے قریش۔ قریش میں سے بنی ہاشم اور بنو ہاشم میں سے مجھے خالق کائنات نے مصطفیؐ بنایا۔‘‘(ص۱۸)

مصنف محترم نے ناصبیوں کا یہ نقطہ نظر نقل کیا ہے کہ امام حسینؑ کی طرف داری غلو پر مبنی ہے نیز انھیں باغی قرار دے کر وہ ان کے قتل کو جائز قرار دینے کے درپے ہیں۔ اس سلسلے میں علامہ الازہری نے یہ واضح کیا ہے کہ کربلا میں امام حسینؑ کا مقصد امت میں پھوٹ ڈالنا نہ تھا بلکہ آپ جماعت ہی میں رہنا چاہتے تھے۔ دوسری طرف ناصبی حضرات کہتے ہیں کہ مسلمانوں کا خون یکساں حرمت رکھتا ہے، پس ہاشمی و غیر ہاشمی کا خون برابر ہے۔ اس نقطہ نظر کا بطلان ثابت کرنے کے لیے مصنف محترم نے کئی ایک آیات اور روایات نقل فرمائی ہیں۔ اس سلسلے میں مسند امام احمد بن حنبل کی جلد ۳ سے ایک روایت نقل کی گئی ہے جس میں آنحضرتؐ کا یہ فرمان موجود ہے ’’علی کو اذیت دینا میں محمد رسول اللہؐ کو اذیت دینا ہے۔‘‘ (ص ۳۱و۳۲) مسند احمد ابن حنبل ہی سے ایک اور روایت نقل کی گئی ہے: ’’حضرت عبداللہ جدلی فرماتے ہیں، میں حضرت ام المومنین حضرت ام سلمہ کے پاس حاضر ہوا تو ام المومنین نے فرمایا: عبداللہ کیا تمھاری موجودگی میں رسولؐ اللہ کو گالی دی جاتی ہیں۔‘‘ میں نے عرض کیا، اللہ کی پناہ، الامان والحفیظ۔ ام المومنین رضی اللہ عنہا نے فرمایا: "عبداللہ میں نے رسول اللہؐ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جس نے علی کو گالی دی اس نے میں محمدؐ کو گالی دی۔"(ص۳۳)

پنجتن پاک سے خصوصی محبت کے حوالے سے مصنف محترم نے نبی کریمؐ کے کئی ایک فرمودات نقل کیے ہیں۔ مثلاً:
۱۔ ترمذی شریف سے ایک روایت نقل کرنے کے بعد وہ اس کا ترجمہ یوں نقل کرتے ہیں: "رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب کہ مولا حسن اور مولا حسین کے مبارک ہاتھوں کو رسول ؐ اللہ پکڑے ہوئے تھے: جس نے مجھ سے اور ان دونوں سے، ان کے والد اور والدہ سے محبت کی وہ قیامت کے دن میرے ساتھ ہوگا۔"(ص۳۴)

۲۔ ترمذی شریف سے ہی ایک اور روایت نقل کرتے ہیں: "حضرت عبداللہ بن عباس فرماتے ہیں، رسول اللہ نے فرمایا اللہ سے محبت کرو کیونکہ اس کے احسانات و عطیات تم پر وافر ہیں اور مجھ سے محبت کرو کیونکہ میں اللہ کا رسول ہوں اور اہل بیت سے محبت کرو کیونکہ وہ میرے محبوب ہیں۔"(ص۳۴)
۳۔ ترمذی کی کتاب المناقب سے اور مسند احمد ابن حنبل کی جلد ۲ سے مصنف محترم نے یہ روایت بھی نقل کی ہے: "حضرت علی، حضرت زہراء، حضرت حسن و حضرت حسین علیہم السلام کے محاربین کے لیے میرا اعلان جنگ ہے اور ان کے سامنے سر تسلیم خم کرنے والوں کے لیے میں پیامبر صلح و سلامتی ہوں۔"(ص۳۵)

علامہ سید محمد امجد منیر الازہری نے متعدد روایات نقل کی ہیں، جن سے پنجتن پاک کا اللہ تعالیٰ کے نزدیک خصوصی مقام ظاہر ہوتا ہے۔ آیہ مودت ’’قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَىٰ‘‘ (اے رسول کہہ دیجیے کہ میں اپنی زحمات رسالت پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا مگر یہ کہ تم میرے قریبیوں سے محبت اختیار کرو۔) کے بارے میں علامہ الازہری لکھتے ہیں: حضرت ابی حاتم، طبرانی اور ابن مردویہ نے حضرت ابن عباس سے نقل فرمایا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عرض کیا گیا:" یا رسول اللہ آپ کے وہ قرابت دار کون ہیں جن کی محبت ہم پر واجب کی گئی ہے؟ تو آپ نے فرمایا۔ میرے قرابت دار حضرت علی، حضرت فاطمہ الزہراء اور حضرات حسنین ہیں۔"(ص۴۹) یہ اور اس کی ہم معنی روایات مصنف نے تفسیر روح المعانی سے بھی نقل کی ہیں۔ علاوہ ازیں وہ لکھتے ہیں کہ شیخ اکبر محی الدین ابن عربی رقمطراز ہیں: یا رسول اللہ من قرابتک ھولاء الذین و جبت علینا مودتھم قال علی وفاطمۃ والحسن والحسین۔ "یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وہ آپ کے قرابت دار کون ہیں، جن کی محبت فرض ہے تو آپ نے فرمایا:علی، فاطمۃ الزہرا اور حسنین کریمین۔"(۴۹و۵۰)

اہل بیت کون ہیں کے زیر عنوان آیت تطہیر کے ضمن میں تفسیر خازن جلد ۳ سے مصنف نے ایک روایت نقل کی ہے، جس کا ترجمہ وہ یوں کرتے ہیں: "عائشہ ام المومنین فرماتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جلوہ فگن ہوئے، آپ منقش دھاری دار سیاہ بالوں کی چادر مبارک اوڑھے ہوئے تھے۔ حضرت حسن و حسین، سیدہ طاہرہ اور جناب علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہم کو رسول اللہؐ نے چادر کے نیچے لیا اور فرمایا: إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّـهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا [اے اہل بیت! اللہ کا تو بس یہ ارادہ ہے کہ ہر طرح کی ناپاکی کو تم سے دور رکھے اور تمھیں پاک رکھے جیسے پاک رکھنے کا حق ہے۔](ص۸۴) موصوف نے مختلف روایات اور مفسرین کے کلمات سے یہ بھی واضح کر دیا ہے کہ آیہ مباہلہ میں ابناء نا کا مصداق حسنین ؑشریفین ہیں، نساء نا کا مصداق حضرت فاطمۃ الزہراؑ ہیں اور انفسنا کا مصداق امیر المومنین حضرت علیؑ ہیں۔ چنانچہ وہ الجامع لاحکام القرآن للقرطبی کی جلد۴ سے ایک عبارت نقل کرکے اپنا مقصود ثابت کرتے ہیں۔(ص۹۰) ہمارے پیش نظر چونکہ اختصار ہے اور ہماری خواہش یہ ہے کہ قارئین کتاب کا خود مطالعہ کریں، اس لیے ہم چند اہم مطالب کا ذکر بطور تعارف کر رہے ہیں۔ کتاب کے چند مزید اہم مطالب آئندہ نشست میں پیش کریں گے۔/۹۸۸/ن

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬