تحریر: علی احمدی
فرانس کے معروف میگزین چارلی ایبڈو نے ایک بار پھر ختمی مرتبت حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی شان میں گستاخی کا اظہار کیا ہے۔ اس گستاخ میگزین کا یہ پہلا توہین آمیز اقدام نہیں بلکہ وہ اس سے پہلے بھی یہ گھناونا فعل انجام دے چکا ہے۔ چارلی ایبڈو کے نئے شمارے میں ملعون جان کابو کے بنائے گئے کارٹون کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی پر مبنی بعض نئے کارٹون بھی شائع کئے گئے ہیں۔ یہ توہین آمیز خاکے میگزین کے پہلے صفحے پر موجود ہیں۔ پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخانہ خاکے سب سے پہلی بار 2005ء میں ڈنمارک کے ایک اخبار میں شائع ہوئے تھے جس کے بعد فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو نے 2006ء میں پہلی بار یہ گستاخانہ عمل انجام دیا۔
2015ء میں جب فرانس کے میگزین چارلی ایبڈو نے ایک بار پھر پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کی تو دنیا بھر کے مسلمانوں میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی تھی۔ دنیا بھر میں مسلمانوں نے احتجاجی مظاہروں کے ذریعے اس گستاخانہ عمل کی شدید مذمت کی تھی۔ اسی طرح اس توہین آمیز اقدام کے بعد چارلی ایبڈو میگزین کی عمارت پر مشتعل ہجوم نے حملہ ور ہو کر ملعون کارٹونسٹ جان کابو اور گیارہ دیگر افراد کو ہلاک کر ڈالا تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک کے درمیان فرانس میں ہی کیوں اسلامی مقدسات کی توہین زیادہ انجام پا رہی ہے؟ فرانس میں مسلمانوں کے مقدسات کی توہین آزادی اظہار کے نعرے کی آڑ میں انجام پاتی ہے۔ یاد رہے فرانس کا موجودہ سیاسی نظام کلیسا کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں معرض وجود میں آیا تھا۔
فرانس کے حکمران دینی امور کی توہین اور تضحیک کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں اور اسے اپنے تشخص کا حصہ سمجھتے ہیں۔ فرانسیسی معاشرے میں انسانوں اور خدا کی تضحیک ایک طویل تاریخ کی حامل ہے۔ 1789ء میں فرانس میں انقلاب برپا ہو جس کے بعد دینی اقدار کو پس پشت ڈال دیا گیا۔ اس کے بعد دینی مقدسات کی توہین قانون کی نظر میں جرم کے زمرے میں داخل نہیں ہوتی۔ فرانس یورپ کا وہ واحد ملک ہے جہاں 1881ء میں سرکاری سطح پر الحاد اور دینی مقدسات کی توہین کا آغاز ہوا تھا۔ 1972ء میں فرانس میں نسل پرستی کے خلاف بعض نئے قوانین بنائے گئے جن کی رو سے توہین، تہمت، نفرت کو فروغ دینا، شدت پسندی اور امتیازی سلوک ممنوع قرار دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود دینی مقدسات کی توہین کو جرم قرار نہ دیا گیا۔
اگرچہ فرانس کے آئین میں دینی مقدسات کی توہین جرم شمار نہیں کیا گیا لیکن 1990ء کے بعد ہولوکاسٹ کا انکار باقاعدہ جرم قرار پا چکا ہے اور اس بارے میں قانون بنایا گیا ہے۔ 2015ء میں چارلی ایبڈو میگزین کی جانب سے پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کے بعد اس کی عمارت پر حملہ ہوا اور ملعون کارٹونسٹ سمیت کئی افراد مارے گئے۔ اس واقعے کے خلاف احتجاجی مظاہرے برپا کئے گئے جن میں لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ دلچسپ بات تو یہ ہے کہ ملعون کارٹونسٹ کی ہلاکت پر فرانس کے صدر سمیت کئی مغربی اور حتی عرب ممالک کے سربراہان نے بھی فرانس میں احتجاجی ریلی نکالی۔ انہوں نے خود کو آزادی اظہار کا حامی قرار دیتے ہوئے یہ نعرہ لگایا کہ "میں چارلی ہوں۔"
حال ہی میں فرانس کے صدر ایمانویل میکرون نے چارلی ایبڈو میگزین کی جانب سے پیغمبر اکرم ص کی شان میں گستاخی کے بارے میں اظہار خیال کرتے ہوئے اس کی مذمت کرنے سے گریز کیا ہے۔ انہوں نے اس توہین آمیز اقدام کو اظہار اور عقیدے کی آزادی قرار دیتے ہوئے کہا: "ہمارے ملک میں اظہار اور عقیدے کی آزادی پائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود فرانسیسی شہریوں کو ایکدوسرے کا احترام کرنا چاہئے۔" میکرون اس سے پہلے بھی توہین رسالت کی مرتکب ایک فرانسیسی لڑکی کی حمایت کر چکے ہیں۔ اگرچہ اس وقت بھی ایک فرانسیسی وزیر نے اس بات پر زور دیا تھا کہ یہ لڑکی دین کی توہین کی مرتکب ہوئی ہے لیکن میکرون نے اس کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ فرانسیسی شہریوں کو کفر آمیز اظہارات، دین کی تنقید اور دین کے بارے میں کارٹون بنانے کا پورا حق حاصل ہے۔
دین مبین اسلام کے مقدسات کی توہین پر مبنی اقدامات صرف فرانس تک محدود نہیں بلکہ گذشتہ چند سالوں کے دوران یورپ کے مختلف ممالک میں قرآن کریم کی بے حرمتی پر مبنی واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ ابھی چند دن پہلے ہی سوئیڈن میں دائیں بازو کی شدت پسند تنظیم کے بعض کارکنوں نے قرآن کریم کی بے حرمتی کرتے ہوئے اسے آگ لگا دی تھی۔ اسی طرح مالمو شہر میں بھی اسی قسم کے واقعے کے بعد عوامی ہنگامے پھوٹ پڑے تھے۔ اس سے پہلے ڈنمارک میں دائیں بازو کے شدت پسند رہنما راسموس پیلوڈان نے قرآن کریم کی بے حرمتی کی۔ اس واقعے کے بعد شمالی یورپ کے اس ملک میں نسلی فسادات آغاز ہو گئے تھے۔/۹۸۸
ادارہ کا صاحب اثر کے نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں