تحریر: ثاقب اکبر
پاکستان میں جس طرح کے فتنے مذہب کے نام پر رونما ہو رہے ہیں، ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطان لگاتار اپنے اولیاء، نمائندگان اور دوستوں کو وحی کر رہے ہیں۔ قرآن حکیم اس بات کی پہلے ہی خبر دے چکا ہے کہ شیطان اپنے اولیاء کو وحی کرتے ہیں۔ سورہ انعام کی آیت 112 میں ہے: وَ کَذٰلِکَ جَعَلْنَا لِکُلِّ نَبِیٍّ عَدُوًّا شَیٰطِیْنَ الْاِنْسِ وَ الْجِنِّ یُوْحِیْ بَعْضُھُمْ اِلٰی بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُوْرًا "اس طرح ہم نے ہر نبی کے لیے انسانی اور جِناتی دشمن قرار دیے ہیں، جو ایک دوسرے پر وحی کرتے ہیں، وہ ایک دوسرے کی طرف دلفریب اور پُرفریب باتیں مخفی طور پر بھیجتے ہیں۔" اس سورت کی آیت 121 میں بتایا گیا ہے کہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے شیطان اپنے اولیاء کو وحی کرتے ہیں اور اس وحی کا مقصد مسلمانوں کو باہمی مجادلے اور مباحثے میں الجھانا ہے۔ اس میں مسلمانوں کو خبردار کیا گیا ہے کہ اگر تم ان کے فریب میں آگئے تو یکتائی اور توحید پرستی کا راستہ چھوڑ کر انتشار اور شرک کا راستہ اختیار کر لو گے۔ آیت ملاحظہ کیجیے: وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ "اور یقیناً شیطان اپنے اولیاء کی طرف وحی کرتے ہیں، (اور مخفی طریقے سے انھیں پیغام بھیجتے ہیں) تاکہ تمھیں بحث و مجادلہ پر ابھاریں اور اگر تم نے ان کی اطاعت کی اور ان کے پیچھے لگ گئے تو تم بھی مشرک ہو جائو گے۔"
پاکستان میں چند ہفتوں سے جس طرح کے بحث و مجادلہ کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے، اس کے نتیجے میں افتراق و انتشار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں اور دیکھ رہے ہیں۔ ہمیں یہ بات نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہر وہ فتنہ گر جس کی باتوں سے معاشرے میں اختلاف و انتشار پیدا ہوتا ہو، وہ شیطانی وحی کا پیام بر ہے۔ یہاں یہ بات واضح کرنا ضروری ہے کہ وحی کا لغوی معنی تیز رفتار اور خفیہ پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ فرشتوں کے ذریعے اور اپنے الٰہی طریقے سے اپنے نبیوں پر وحی نازل کرتا ہے اور اپنے خاص اولیاء کو پیغام بھیجتا ہے، جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کی والدہ گرامی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ معظمہ پر اس نے وحی نازل کی، جبکہ شیطان اپنے دوستوں اور نمائندوں کو خفیہ اور تیز رفتار طریقوں سے پیغام بھیجتا ہے۔ اسی کو شیطانی وحی کہتے ہیں۔ مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ رحمانی وحی اور شیطانی وحی میں فرق کریں۔ دونوں میں امتیاز کرنے کے لیے خداداد بصیرت سے کام لیں۔ مندرجہ بالا دوسری آیت مجیدہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شیطانی نمائندے اپنی باتوں کو بظاہر سجا بنا کر اور مرصع کرکے پیش کرتے ہیں۔ اگر ان کی باتوں کو مان لیا جائے تو پھر شرک کا راستہ ہموار ہو جاتا ہے۔ یہاں یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ شرک انتشار کا باعث بنتا ہے اور توحید پرستی انسانوں کو ایک خدا سے جوڑ کر معاشرے میں بھی اتحاد و وحدت پیدا کر دیتی ہے۔
یہ امر ہمارے سامنے ہے کہ ایک مولوی صاحب نے سیدہ کائنات سلام اللہ علیہا کے خلاف ناروا لفظ استعمال کیا اور بظاہر صحابہ کرامؓ سے اپنی دوستی ظاہر کی، جبکہ سیدہ کائنات خاتون جنت ؑاور دیگر اہل بیتِ رسولؐ کی مودت و طہارت کی گواہی قرآن حکیم دے چکا ہے۔ صحابہ کرامؓ کے احترام پر بھی پوری امت متفق ہے۔ اس لیے مولوی صاحب کا جذبہ محرکہ الٰہی نہیں ہوسکتا۔ ان کی بے بصیرتی پر مبنی باتوں سے پورے ملک میں ایک بحث و مجادلہ اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس کے بعد بیشتر علماء، دانشوروں، سیاست دانوں اور مشائخ نے اچھے انداز سے مقام اہل بیتؑ کو بیان کیا اور اس ردّعمل سے پاکستان کا سارا معاشرہ ایک صفحے پر دکھائی دیا، لیکن شیطان کو یہ اتحاد ہمیشہ برا لگتا ہے، چنانچہ اس کی ’’وحی‘‘ کے نتیجے میں چند شیطونگرے اہل بیت کرامؑ کے دفاع کے نام پر بعض صحابہ کرامؓ کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہیں نکلتا کہ پہلے گروہ کے مقاصد کو تقویت ملتی ہے۔
ابھی ہم عوام کو اس طرف متوجہ کر رہے تھے اور فرقہ واریت برپا کرنے کی نئی لہر سے خبردار کر رہے تھے کہ ’’ولایت علیؑ‘‘ کے نام پر لاہور میں موجود ایک انتہاء پسند غالی گروہ متحرک ہوگیا۔ ہم جانتے ہیں کہ ایسے چھوٹے بڑے شیطان ہر جگہ اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ہر گروہ کو مزید گروہوں اور ہر اسلامی مملکت کو مزید ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کی سازشیں دن رات جاری رہتی ہیں۔ مذکورہ لاہوری گروپ اور ولایت شیطانی کا پرچم بردار گروہ بھی ویسا ہی ایک فتنہ ہے۔ یہ فتنہ بھی ہے، فتنہ گر بھی اور فتنہ پرور بھی اس سے ہوشیار رہنا ضروری ہے۔ اس فتنے کی خصوصیات یہ ہیں کہ یہ دین کو علماء سے نہیں لینا چاہتا، اس لیے علماء کی توہین، انھیں گالیاں دینا اس کا مشغلہ ہے، تاکہ عوام الناس کی نظروں میں علماء کرام کو گالیاں دینا ایک معمولی بات ہو جائے۔ ان کے پاس علم ہے نہ عمل۔ ان کے پاس گالی، توہین اور بدتمیزی کے ہتھیار ہیں۔ اس شیطانی گروہ کو عالمی شیطانی طاقتوں کے خلاف نبرد آزما استقامت و جہاد کے علم برداروں سے عوام کو برانگیختہ کرنے کا کام سونپا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آپ دیکھیں گے کہ یہ لوگ امریکہ اور اسرائیل کے خلاف میدان عمل میں موجود قائدین و مجاہدین کے بارے میں نازیبا اور توہین آمیز کلمات شب و روز بے تکان استعمال کر رہے ہیں۔
ہمیں یقین ہے کہ شیطان کے دھوکے اور پُرفریب حربے ضرور ناکام ہوں گے، لیکن اہل اسلام و ایمان کو بیدار رہنا ہوگا، کیونکہ ان فتنوں کے باعث ایک مرتبہ تو معاشرے میں بہت سے افراد کی توجہ ان کی طرف ہو جاتی ہے، انحراف کی ایک لہر جنم لیتی ہے اور یہی شیطان بزرگ کا ہدف ہے۔ اس انحراف کے خاتمے کے لیے کچھ نہ کچھ طاقت تو صرف ہوتی ہے، جب کہ یہی طاقت دشمنانِ دین و ملت کے خلاف استعمال ہونا چاہیے۔ اس وقت اس کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں کہ عوام کو ایسے فتنہ پرور عناصر کے ہتھکنڈوں سے آگاہ کیا جائے اور فتنے کی آنکھ پھوڑنے کے لیے اولیائے الٰہی کی تدبیر و حکمت سے کام لیا جائے۔ سب سے اہم امر ہمارے لیے یہ ہے کہ امت اسلامیہ کی صفوں میں اتحاد برقرار رہے اور اتحاد و وحدت کے مخالف عناصر کے ہر حربے کو ناکام بنا دیا جائے۔/۹۸۸/ن