رسا ںیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، ھندوستانی حکومت اس حال میں پچیس ہزار غیر مسلم کو یہاں پر اقامت دے چکی ہے جہاں اقوام متحدہ کی تنظیم شہریت قانون کے حوالے سے بھارت کو تنقید کا نشانہ بنا چکی ہے۔ اس قانون سے دیگر افراد بہ آسانی مقامی افراد کے حقوق پر قابض ہوسکتے ہیں۔
گذشتہ سال کشمیر کی خصوصی حیثت کو ختم کرکے یہاں کے مقامی قانون کو بھی منسوخ کردیا گیا۔
مقامی قانون میں دیگر غیر ملکی افراد کو اختیارات دینے پرپابندی تھی جنمیں انڈین بھی شامل تھے۔
سوشل میڈیا میں ایک بھاری کی اقامت کے کاغذات کی تصاویرسوشل میڈیا پر وائرل ہونے پر اعتراضات کیے جارہے ہیں۔
انڈیا میں جہاں کورونا کی وجہ سے تمام ادارے بند ہیں اس حال میں غیر مقامی افراد کو یہاں پر اقامت دینے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔
نئے قانون کے مطابق پندرہ سال یہاں پررہنے والے یا سات سال تعلیم حاصل کرنے والوں کو یہاں کی شہریت یا لوکل تسلیم کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے خصوصی نمایندے نے شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والوں کی آزادی اور انکے حقوق کی رعایت کا مطالبہ کیا ہے تاہم مودی کے طرز سیاست سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
رپورٹ کے مطابق شہریت قانون کے خلاف احتجاج کرنے والے کافی افراد اب بھی جیلوں میں بند ہیں اور انسانی حقوق کی تنظیم ان گرفتاریوں کی مذمت کر چکی ہے تنظیم نے ان تمام اقدامات کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
مقامی سوشل ایکٹیوسٹ بھی ان اقدامات کو کرونا کے نام پر سیاسی حربہ قرار دیتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم نے شہریت قانون معطل کرنے اور مسلمانوں سے درست رویہ کا مطالبہ کیا ہے۔/