باسمہ تعالیٰ
امام رضا علیہ السلام اور ولی عہدی
امام علی ابن موسیٰ الرضا ؑکی زندگی کا ہم ترین واقعہ آپ کا ولی عہد ہونا ہے مامون نے ۲۰۰ ھ یا ۲۰۱ ھ میں آپ کو مدینہ سے خراسان بلایا۔ (1)
اس سلسلہ میں اپنے چند افراد جیسے رجاء ابن ابی ضحاک اور یاسر خادم کو یہ ذمہ داری سونپی کہ مدینہ جاکر علی ابن موسیٰ الرضا ؑکو اس سفر پر راضی کریں سفر کے دوران ان کے ہمراہ رہیں اوران پر نظر رکھیں یہاں تک وہ خراسان پہونچ جائیں۔
جیسا کہ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے امام رضا ؑاس سفر پر دل سے راضی نہیں تھے اور مامون کے اصرار کی وجہ سے مجبوراً اس کو قبول کیاتھا گویا آپ کو مامون کی نیت پر پہلے ہی سے شک تھا اور آپ خطرہ محسوس کر رہے تھے۔
مخول سجستانی کا بیان ہے جس وقت حکومت کے افراد امام رضا ؑکو خراسان لے جانے کے لئے مدینہ لے آئے میں مدینہ ہی میں تھا آپ اپنے جد کی قبر سے رخصت ہونے کے لئے مسجد النبیؐ میں داخل ہوئے مسجد سے باہر نکلتے اور پھر واپس چلے جاتے تھے اور بلند آواز سے گریہ فرماتے تھے۔
میں آپ کی خدمت میں پہونچا سلام کیا امام ؑنے فرمایا میں اپنے جد کی قبر چھوڑ کر جا رہا ہوں میری موت عالم غربت میں ہوگی اور ہارون کے برابر میں دفن ہوں گا۔ (2)
وشّاء کا بیان ہے : امام رضا ؑنے مجھ سے فرمایا، جب مجھے مدینہ سے لے جایا جانے لگا تو میں نے اپنے اہل و عیال کو جمع کیا اور ان سے کہا کہ میرے لئے گریہ کرو اس طرح کہ میں تمہارے گریہ کی آواز سن لوں اس کے بعد میں نے بارہ ہزار دینار ان میں تقسیم کئے اور ان سے کہا شاید میں دوبارہ تم لوگوں کے پاس واپس نہ آسکوں۔ (3)
امام رضا ؑنے اپنے ساتھیوں کے ساتھ خراسان کی طرف سفر کیا یہ راستہ کتنے دن میں طے ہوا
اس کی تفصیلات کا علم نہیں ہے بعض شہروں میں آپ نے قیام بھی فرمایا کچھ عرصہ کے بعد ’’مرو‘‘ پہونچے جو خراسان کا بڑا شہر تھا یہ ایک آباد شہر تھا جو خراسان کا دار الحکومت بھی تھا مامون اس زمانے میں اسی شہر میں رہتا تھا۔
مامون اور اس کی حکومت کے افراد نے شہر کے دوسرے لوگوں کے ساتھ آپ کا شایان شان استقبال اور بڑا احترام کیا۔
استقبال کی رسومات انجام پانے کے بعد ایک دن مامون نے امام رضا ؑسے عرض کیا میرا ارادہ ہے کہ میں خلافت سے کنارہ کش ہو جاؤں اور اسے آپ کے حوالہ کردوں کہ اس منصب کے لئے آپ سب سے زیادہ موزوں ہیں امام رضا ؑچونکہ مامون کے خفیہ مقاصد سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ اس کے اس عمل میں سچائی نہیں ہے لہٰذا آپ نے خلافت کو قبول نہیں کیا۔
مامون نے پھر اصرار کیا اور کہا اگر خلافت قبول نہیں کرتے تو ولی عہدی قبول کر لیجئے۔ امام ؑکو ولی عہدی بھی منظور نہیں تھی لیکن مامون کے اصرار پر مجبور ہو کر ولی عہدی قبول کرنا پڑی مگر آپ نے یہ شرط لگادی کہ ملکی امور اور کسی کو معزول یا منصوب کرنے میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔
مامون نے یہ شرط منظور کرلی اور بنی عباس کے بہت سے افراد، حکومت کے امراء و وزراء اور بنی ہاشم کی ایک جماعت کے سامنے آپ کی ولایت عہدی کا حکم لکھ کر امام کے سامنے پیش کر دیا اور حکم دیا کہ لوگ آپ کی بیعت کریں اور آپ کے نام کا سکہ چلایا جائے۔
آپ کی ولایت عہدی کا حکم تاریخ و حدیث کی کتابوں میں درج ہے۔
مامون کا یہ عمل بظاہر ایک غیر معمولی عمل تھاا ور اس کی حکومت کے افراد میں کسی کواس کی امید نہیں تھی لہٰذا ابتدا میں اسے اپنی حکومت کے بعض امراء اور بنی عباس کے بزرگوں کی شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا جو کبھی مخفی طور پر اور کبھی علی الاعلان مامون کے اس عمل کے خلاف عَلم بغاوت بلند کرتے تھے لیکن مامون ہمیشہ اس کا دفاع کرتا تھا اور اس کو اپنا ایک سنجیدہ اور مصلحت آمیز اقدام بتاتا تھا۔
اس عمل سے مامون کا مقصد کیا تھا؟ یہ واضح نہیں ہے اور اس کے بارے میں تحقیق کرنے کی ضرورت ہے کیا مامون کے ذریعہ امام کو ولی عہد بنائے جانے میں خلوص تھا؟ اور کیا وہ واقعی حکومت اور خلافت جواہلبیتؑ کا حق تھا ان کو واپس کرنا چاہتا تھا؟ (4)
مامون جس نے خلافت پر قبضہ کرنے کے لئے اپنے بھائی سے جنگ کی ہو اور اس میں لاکھوں افراد قتل ہوئے ہوں یہاں تک کہ بھائی کے قتل کے بعد جب مامون کے لئے اس کا سر لایا گیا ہو تو سجدہ کیا ہو اور اس پر خوشی کا اظہار کیا ہے۔ (5)
یہ بہت بعید ہے کہ وہ خلوص کے ساتھ حکومت علی ابن موسیٰ الرضا ؑکے حوالے کر دے۔
کیا اس بظاہر نیک عمل سے اس کا کوئی سیاسی مقصد تھا اور وہ عوام کے سامنے اپنی کھوئی ہوئی حیثیت واپس پاکر با عزت بننا چاہتا تھا یا اس کا مقصد بنی ہاشم اور علوی سادات کو راضی کرنا تھا جو وقتاً فوقتاً قیام کیا کرتے تھے اور حکومت کے خلاف اقدامات کرتے تھے تاکہ وہ اپنے خونی قیام سے باز آجائیں اس طرح کے احتمالات پائے جاتے ہیں جس پر جامع تحقیق کی ضرورت ہے ان مختصر تحریرمیں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
افسوس کہ امام ؑکی بے وقت شہادت سے ولی عہدی کا موضوع خود بخود ختم ہوگیا اور جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا آپ کو ۲۰۰ھ میں شہر ’’مرو‘‘ میں ولی عہد بنایا گیا لیکن یہ معلوم نہیں ہے کہ آپ کب اور کیوں وہاں سے طوس منتقل ہوئے اور سناباد کے قریہ نوقان میں قیام فرمایا۔ آپ کی ولی عہدی کا دور صرف ۲ سال اور چند مہینہ تھا۔
سیدحمیدالحسن زیدی
الاسوه فاؤنڈیشن سیتاپور