رسا نیوز ایجنسی کے رپورٹر کی رپورٹ کے مطابق حضرت آیت الله ناصر مکارم شیرازی اندنوزی کے دینی وزارت کے ماہرین سے ملاقات میں اسلامی جمہوریہ ایران میں اقلیت کے مقام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : ہم ایران کی بنادی قانون سازی کے وقت مذہب امور کے بخش میں شامل تھے اور اس بخش میں عیسائی ، یھودی اور زرتشتی کے نمائندے بھی موجود تھے ۔ اس زمانہ میں ہم لوگوں نے ایران کی عوام کی زیادہ آبادی تشیع ہونے کی وجہ سے اس ملک کا قانونی مذہب تشیع ہونے کی منظوری دی تھی اور عیسائی ، یھودی اور زرتشتی کو بھی قانونی ادیان کے عنوان سے بنادی قانون میں شامل کیا گیا ۔
انہوں نے بہائیت کی طرف سے اسلامی جمہوریہ ایران میں اقلیت کے عنوان سے ان کو شمار کئے جانے کی کوشش کی طرف اشارہ کرتے وضاحت کی : اس زمانہ میں بہائیت کی کوشش تھی کہ ان کو اس ملک کی بنیادی قانون میں اقلیت میں شمار کیا جائے جس کو مذہب امور کے بخش نے قبول نہیں کیا اور ہم لوگوں نے کہا کہ آپ لوک ایک مذہب نہیں ہیں بلکہ آپ لوگوں کا صیہونی حکومت کی طرف سے پیدا کی گئی ایک سیاسی پارٹی میں شمار ہوتا ہے ۔
مرجع تقلید نے وضاحت کرتے ہوئے بیان کیا : ہم لوگوں نے تاکید کی کہ آپ لوگوں کا مرکز و تعاون و حمایت صیہونی حکومت کی طرف سے ہے اس وجہ سے آپ لوگوں کا شمار ایک دین و مذہب کے عنوان سے شمار نہیں کیا جائے گا بلکہ اسرائیل سے وابستہ ایک سیاسی پارٹی ہیں ۔
حضرت آیت الله مکارم شیرازی نے اسلامی جمہوریہ ایران میں شیعہ و اہل سنت برادران کے ساتھ اچھے تعلقات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اظہار کیا : ہم لوگوں کے رابطے اہل سنت برادران کے ساتھ بہت اچھے ہیں اور مشترک کام جیسے تکفیروں سے مقابلہ میں ایک دوسرے کی مدد کرتے ہیں ۔ ملک میں عیسائی ، یھودی اور زرتشتی بھی پوری آزادی کے ساتھ رہتے ہیں جن کی عبادت گاہیں ہیں اور انتخابات میں ان کے نمائندہ شرکت کرتے ہیں اور پارلیہ مینٹ میں بھی جاتے ہیں اور ان لوگوں سے ہم لوگوں کا کسی بھی طرح کا تنازعہ نہیں پایا جاتا ۔/۹۸۹/ف۹۳۰/ک۴۳۵/