رسا نیوز ایجنسی کی رھبر معظم انقلاب اسلامی ایران کی خبر رساں سائٹ سے رپورٹ کے مطابق، رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی سید علی خامنہ ای نے گذشتہ روز مقننہ، عدلیہ اور مجریہ کے سربراہوں، اعلی حکام، سیاسی، سماجی اور ثقافتی شعبوں کی شخصیات سے ملاقات میں بنیادی توانائیوں کی توسیع کو ملک و قوم کی طاقت اور تحفظ کا باعث قرار دیتے ہوئے کہا: دو بنیادی مشکلات کساد بازاری اور بے روزگاری کے حل کے سلسلے میں منصوبہ بندی اور ترجیحات کے تعین سے استقامتی معیشت کو عملی جامہ پہنانے کی رفتار بڑھے گی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آغاز میں ماہ رمضان المبارک کی روحانی فضا سے حتی المقدور استفادہ کرنے کی سفارش کرتے ہوئے اس مہینے کی بعض دعاؤں کا ذکر کیا اور فرمایا : رمضان المبارک کی بعض دعاؤں میں ایسے گناہوں سے نجات کی التجا کی گئی ہے کہ اگر خدانخواستہ ملک کے حکام ان میں مبتلا ہو جائیں تو اس کا نقصان پورے سماج اور ملک کو پہنچے گا۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای کے مطابق جذبات کا مر جانا، غفلت، سنگدلی، بے توجہی اور غرور ایسے ہی گناہوں میں آتے ہیں۔ آپ نے فرمایا : اگر حکام محتاط نہ رہیں اور ان گناہوں سے آلودہ ہو جائیں تو بعد کے مراحل زیادہ خطرناک ہوں گے اور پرخطر مواقع پر وہ خود کو نہ سنبھال پانے اور منافقت و نعمت خداوندی کے انکار جیسے مسائل میں مبتلا ہو جائیں گے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اس بات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ان گناہوں اور لغزشوں سے بچنے کا واحد راستہ تقوی اور محاسبہ نفس ہے فرمایا : ملک اس وقت بڑے حساس اور خاص قسم کے حالات سے گزر رہا ہے اور موجودہ دور کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اوائل انقلاب کے برخلاف آج حکام ملک کی عظیم صلاحیتوں سے زیادہ آشنا نہیں اور توانائیوں اور استعداد کے بارے میں جامع اور کامل آگاہی رکھتے ہیں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا : موجودہ دور کی ایک اور انفرادی خصوصیت جس کی وجہ سے یہ دور بہت حساس بن گیا ہے، اسلامی جمہوریہ کے مخصوص اور کھلے ہوئے دشمن کا سامنے موجود ہونا ہے، جس کی دشمنی دو حکومتوں کے عام اختلافات سے بالاتر ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے یہ کہتے ہوئے کہ اس خاص دشمنی کی اصلی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کا ایک عدیم المثال حقیقت کا روپ اختیار کر لینا ہے فرمایا : اسلامی نظام اسلامی فکری و عملی بنیادوں کے مطابق استکبار، تفریق، ظلم اور زور زبردستی کی مخالفت کرتا ہے اور تمام سختیوں کے باوجود علاقے اور دنیا میں اس کی قوت اور اثر و رسوخ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے اور اس نے نئی ابھرتی طاقت کی حیثیت سے استکباری قوتوں کے ظالمانہ مفادات کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نےاس بات پر زور دیتے ہوئے دشمن کے منصوبوں کو پہچاننا اور اس کے مقابلے کے لئے دراز مدتی اور حفاظتی منصوبہ بندی کرنا چاہئے فرمایا : دشمن کا منصوبہ یہ ہے کہ اسلامی جمہوریہ کی توانائیوں کو نابود کر دے اور اگر نابود نہ کر سکے تو توانائیوں کے نمو کو روک دے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا : دشمن کی سازش کا مقابلہ کرنے کا واحد طریقہ صلاحیتوں کا صحیح اور مناسب استعمال اور ملک کی تقویت ہے۔
اسلامی جمہوریہ ایران کی توانائیوں کا ذکر کرتے ہوئے رہبر انقلاب اسلامی نے سب سے پہلے اسلامی ایمان و عقیدے کے بارے میں بحث کی فرمایا: فریق مقابل اپنی تمام توانائیوں بالخصوص سائیبر اسپیس کو بروئے کار لا رہا ہے کہ موجودہ اور آئندہ نوجوان نسلوں کے اسلامی عقیدے کو کمزور کر دے، لہذا معاشرے میں اسلامی عقائد کی جڑیں اور گہری کرنے پر خاص توجہ دی جانی چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے علم و سائنس کے شعبے میں پیشرفت کو ملک کی دوسری بنیادی توانائی سے تعبیر کیا اور زور دیکر کہا : فریق مقابل علمی پیشرفت کی سختی کے ساتھ مخالفت کر رہا ہے اور اس سلسلے کو روکنے کے لئے اس نے ملک کے سائنسدانوں کو قتل تک کروایا ہے۔
آپ نے فرمایا : انھوں نے علمی پیشرفت کے عمل کو روکنے کے لئے ممنوع اور خباثت آلود حربوں جیسے کمپیوٹر وائرس کا بھی استعمال کیا جس کے سلسلے میں ہم بین الاقوامی عدالتوں میں ان کا گریبان پکڑ سکتے تھے لیکن افسوس کی بات ہے کہ یہ کام نہیں کیا گيا۔
آپ نے مزید فرمایا : ایٹمی شعبے پر دباؤ ڈالنے کی ایک بنیادی وجہ ملک کی علمی پیشرفت کو روکنا ہے اور وہ خود بھی جانتے ہیں کہ ایٹم بنانے کی کوشش کرنے کا الزام سراسر جھوٹ ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے اقتصادی قوت اور دفاعی توانائیوں کو بھی ملک کی مقتدرانہ پوزیشن کے دیگر عوامل سے تعبیر کیا اور ان توانائيوں کو بڑھانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا : ملی سیاسی توانائی جو قومی اتحاد و یکجہتی کے معنی میں ہے قائم رکھی جانی چاہئے اور گوناگوں سیاسی رجحان و میلان کے باوجود اسلامی نظام کی بنیادی پیش قدمی کے بارے میں عوام کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہونا چاہئے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ملک کی جوان آبادی کو بھی قدرت و توانائی کے عوامل میں شمار کرتے ہوئے فرمایا : آبادی کا جوان ہونا بہت بڑی نعمت ہے، ملک کے حکام کو چاہئے کہ صحیح منصوبہ بندی کے ذریعے نوجوانوں کی آبادی میں اضافہ کریں۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے دشمن کے منصوبوں کا مقابلہ کرنے کے لئے ملک کی چھے بنیادی توانائیوں میں توسیع پر زور دیتے ہوئے فرمایا : دشمن سے مراد استکباری نیٹ ورک ہے جس میں سب سے اوپر امریکی حکومت ہے، اسی طرح اس میں صیہونی نیٹ ورک شامل ہے جس کا مظہر جعلی صیہونی حکومت ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: فریق مقابل اپنی دشمنی چھپانے کی کوشش بھی نہیں کرتا۔
آپ نے وزیر خارجہ محمد جواد ظریف کے چند روز قبل پارلیمنٹ کے اجلاس میں دئے گئے اس بیان کا حوالہ دیا کہ امریکا کی ذات اور ماہیت نہیں بدلی ہے فرمایا : امریکیوں کی ماہیت وہی ریگن کے دور کے امریکا کی ماہیت ہے اور ڈیموکریٹوں اور ریپبلکنوں کے درمیان اس میں کوئی فرق نہیں ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے امریکا کے بارے میں پائے جانے والے ایک غلط تصور کا ذکر کرتے ہوئے کہا : بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ ہم امریکا سے مفاہمت کرکے اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں، جبکہ یہ کورا توہم اور غلط تصور ہے۔ آپ نے فرمایا : منطقی اعتبار سے کبھی بھی اسلامی جمہوریہ ایران امریکی حکومت کی پسند نہیں بن سکتا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا : امریکیوں کا رویہ ہمیشہ خباثت آلود اور معاندانہ رہا ہے، بنابریں یہ خیال کہ ایران اور امریکا کے مسائل غلط فہمی کی وجہ سے ہیں اور مذاکرات کے ذریعے انھیں حل کیا جا سکتا ہے غلط اور حقیقت سے پرے ہے۔
آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا: امریکیوں کی بنیادی مشکل خود اسلامی جمہوریہ ایران کا وجود ہے جو مذاکرات اور رابطے سے حل نہیں ہو سکتی، کیونکہ اسلام پر استوار خود مختاری اور قدرت استکبار کو قبول نہیں ہے۔
آپ نے فرمایا : امریکا کی نظر میں مصالحت سے مراد فریق مقابل کا اپنے اصولوں اور موقف سے پیچھے ہٹ جانا ہے۔ رہبر انقلاب اسلامی نے فرمایا : اس پسپائی کا کوئي اختتامی نقطہ نہیں ہے، جیسا کہ اب ایٹمی مسئلے کے بعد انھوں نے میزائل کا ایشو چھیڑ دیا ہے، میزائل کے بعد انسانی حقوق کی باری آئے گی، انسانی حقوق کے بعد نگراں کونسل کا موضوع اٹھایا جائے گا، اس کے بعد ولایت فقیہ اور آخر میں آئین اور اسلام کی بالادستی کی باری آئے گی۔ لہذا یہ تصور کہ اسلامی جمہوریہ اور امریکیوں کے مابین مفاہمت ہو سکتی ہے بے بنیاد ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ایک اور غلط تصور کا حوالہ دیتے ہوئے فرمایا : بعض افراد یہ سوچتے ہیں کہ ایران سے امریکا کی دشمنی کی وجہ اسلامی جمہوریہ ایران کی اشتعال انگیزی ہے، جبکہ در حقیقت اسلامی انقلاب کی فتح کے فورا بعد بدکلامی، بائیکاٹ، بے جا مطالبات ملت ایران کے دشمن کو پناہ دینے جیسے اقدامات کے ذریعے دشمنی اور پیکار کی بنیاد امریکیوں نے رکھی۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں کساد بازاری اور بے روزگاری کو ملک کی دو بنیادی مشکلات قرار دیا اور فرمایا : یہ مشکلات پابندیوں سے بڑھ کر موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی پالیسیوں اور منصوبوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے ان مشکلات کے حل کے سلسلے میں چھوٹی اور اوسط صنعتوں پر توجہ دینے کی ضرورت پر زور دیا۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب کے آخری حصے میں مشترکہ جامع ایکشن پلان اور فریق مقابل کی وعدہ خلافیوں کا جائزہ لیا۔ آپ نے ملک کے اندر مشترکہ جامع ایکشن پلان کے حامیوں اور مخالفین دونوں کے موقف کو مبالغہ آمیز قرار دیا اور فرمایا : جو لوگ مشترکہ جامع ایکشن پلان کی تعریفیں کرتے ہیں وہ بھی اور اس کے مخالفین و ناقدین بھی اپنی رائے پیش کرتے وقت مبالغہ آرائی کرتے ہیں جبکہ مشترکہ جامع ایکشن پلان میں مثبت پہلو اور اچھائیاں بھی ہیں، اسی طرح کمزوریاں اور خامیاں بھی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے کہا: مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مثبت پہلو وہی ہیں جن کی وجہ سے اسلامی جمہوریہ ایران مذاکرات کے لئے آمادہ ہوا البتہ ان میں بہت سی چیزیں اب تک حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خامیوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا : یہ خامیاں وہی ہیں جن کا اندیشہ ہمیں ہمیشہ سے تھا اور ہم نے بار بار انتباہ بھی دیا تھا کہ فریق مقابل بد ذات اور وعدہ شکن فریق ہے جو بہانہ جوئی کا عادی ہے اور اپنے وعدے توڑتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے ایٹمی مذاکرات کاروں کی محنت و مشقت کی قدردانی کی اور زور دیکر کہا : ہم جو کچھ مشترکہ جامع ایکشن پلان کے بارے میں کہتے ہیں اس کا ان برادران عزیز کی محنتوں اور مربوط مساعی سے کوئی تعلق نہیں ہے، بلکہ وہ فریق مقابل کی کارکردگی پر تبصرہ ہوتا ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کے مبہم پہلوؤں کا ذکر کیا جن کا فریق مقابل غلط استعمال کر رہا ہے آپ نے زور دیکر کہا : اسلامی جمہوریہ نے مشترکہ جامع ایکشن پلان کی خلاف ورزی نہیں کی کیونکہ وعدہ ایفا کرنا قرآن کا حکم ہے، لیکن اگر مشترکہ جامع ایکشن پلان کو پھاڑ کر پھینک دینے کی امریکی صدارتی امیدواروں کی دھمکی پر عمل کیا گيا تو اسلامی جہوریہ ایران اس معاہدے کو آگ لگا دے گا اور یہ بھی قرآن کے حکم کی تعمیل ہوگی جو دونوں طرف سے وعدہ توڑے جانے سے متعلق ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے اپنے خطاب میں امریکا کی وعدہ خلافی کے مصادیق گنواتے ہوئے فرمایا : فریق مقابل کی ذمہ داری تھی کی پابندیوں کو ہٹائے لیکن اس نے اس ذمہ داری پر عمل نہیں کیا، یعنی ایک طرح سے کچھ پابندیاں تو ہٹا دیں لیکن عملی طور پر پابندیاں ہٹی نہیں ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ امریکیوں نے ابتدائی پابندیوں کو جوں کا توں باقی رکھا ہے جس کا اثر بعد کی پابندیوں پر بھی پڑ رہا ہے جنھیں ہٹایا جانا تھا۔
رہبر انقلاب اسلامی آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے فرمایا : متعلقہ افراد اس حقیقت پر اچھی طرح دھیان دیں اور بار بار یہ نہ کہیں کہ پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں۔
رہبر انقلاب اسلامی آيت اللہ العظمی خامنہ ای کا کہنا تھا: غیر ملکی بینکوں کے ساتھ ٹرانزیکشن کی مشکلات اب تک باقی ہیں، امریکی حکام زبانی طور پر اور سرکولر میں تو کہتے ہیں کہ ایران سے بینکوں کے ٹرانزیکشن میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے لیکن عملی طور پر وہ اس انداز سے کام کرتے ہیں کہ بینک ایران سے لین دین کی ہمت نہ کر سکیں۔ رہبر انقلاب اسلامی کا کہنا تھا : ایک امریکی عہدیدار کا یہ بیان کہ ہم ایران کو چین سے نہیں رہنے دیں گے اس دوغلے پن کی مثال ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی نے دوسرے ملکوں میں پھنسے ایران کے پیسوں کے بارے میں کہا کہ آج ملک کی تیل کی آمدنی تک رسائی بڑا دشوار اور خرچیلا کام ہے اور دوسرے ملکوں کے بینکوں میں ہمارے جو پیسے ہیں اب تک ایران نہیں آئے ہیں کیونکہ یہ پیسے ڈالر کی شکل میں ہیں اور امریکا کی دشمنی اور وعدہ خلافی کی وجہ سے ان کی منتقلی ٹھپ ہو گئی ہے۔
رہبر انقلاب اسلامی کے خطاب سے پہلے صدر مملکت حجت الاسلام و المسلمین روحانی نے تقریر کرتے ہوئے اپنی حکومت کی کارکردگی اور کامیابیوں کی رپورٹ پیش کی۔