‫‫کیٹیگری‬ :
07 February 2017 - 21:33
News ID: 426177
فونت
سید ہدایت رسول قادری:
سید ہدایت رسول قادری نے پاکستان کی نیوز سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی بلاک کی اسرائیل سے قربت عالم اسلام کیلئے تشویش کا باعث بتایا اور کہا: عالم اسلام آل سعود سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر منزل نہیں پاسکتا ۔
سید ہدایت رسول قادری


رسا نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، سید ہدایت رسول قادری نے پاکستان کی نیوز سائٹ سے گفتگو کرتے ہوئے سعودی بلاک کی اسرائیل سے قربت عالم اسلام کیلئے تشویش کا باعث بتایا اور  کہا: عالم اسلام آل سعود سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر  منزل نہیں پاسکتا ۔

امریکہ کیجانب سے ایک بار پھر مسلمانوں کیخلاف مذموم پروپیگنڈہ شروع کیا گیا ہے، پابندیوں کا مسلمان ممالک کو کیا جواب دینا چاہیے۔؟

ہدایت رسول قادری: اسلام دین امن و سلامتی ہے۔ تنگ نظری، انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا اس سے کوئی واسطہ نہیں ہے۔ ہم منفی رویوں کی ہر سطح پر سختی سے مذمت کرتے ہیں۔ صوفیاء کرام نے محبت، امن اور سلامتی کے رویے عام کرکے اپنے کردار سے لاکھوں لوگوں کی تقدیر بدل دی اور مختلف معاشروں کو امن سے ہمکنار کیا۔ مشائخ اور پیران کرام معاشرے میں پرامن رویوں کے فروغ کیلئے کلیدی کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے مزید بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ وطن عزیز بدترین دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے، اسلام اور پاکستان کے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ آج پوری دنیا میں امن کی باتیں ہو رہی ہیں اور دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑی جا رہی ہے۔ اس میں شک نہیں کہ دہشت گرد نہ صرف امن کے دشمن ہیں بلکہ پوری انسانیت کے دشمن ہیں۔ ان کے خلاف امن پسند قوتوں کو جدوجہد کرنا چاہئے، مگر سوال یہ ہے کہ اس دہشت گردی کو ہوا کس نے دی؟ یہ محاذ کس نے کھولا؟ آج سے قبل تک تو یہ صورتحال ہمارے ہاں نہیں تھی۔ پھر یہ دہشت گردوں کے لشکر اچانک کہاں سے نمودار ہونے لگے؟ دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما عالمی قوتوں نے خود ہی یہ بت گھڑ لیا ہے اور اب قیام امن کے نام پر پوری دنیا کو تہذیبی تصادم میں جھونکا جا رہا ہے۔ اس لئے امن قائم کرنے کے لئے دہشت گردی کی مذمت ہی کافی نہیں، بلکہ سب سے پہلے امن کے حقیقی دشمنوں کی شناخت کی جانا چاہئے۔ مثال کے طور پر پاکستان کے شمالی علاقہ جات فاٹا، وزیرستان اور سوات وغیرہ پرامن سیدھے سادھے اور دیندار مسلمانوں کے علاقے ہیں، یہاں بنیادی ضرورت کی چیزیں بھی میسر نہیں۔ اکثریت تنگ دست محنت کش لوگوں پر مشتمل ہے۔ اچانک دو تین سالوں میں وہاں کیا انقلاب آگیا تھا کہ ان لوگوں کے اندر ملک دشمنی کے جراثیم پیدا ہوگئے، وہ سب لوگ پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز کے خلاف صف آراء ہوگئے اور انہیں اندھا دھند قتل کرتے رہے۔

ان کے پاس اس بے سروسامانی کے ماحول میں اس قدر جدید جنگی سہولتیں مہلک ہتھیار اور عسکری مہارت کہاں سے آگئی؟ کون ان دہشت گردوں کو ٹریننگ، اسلحہ اور وافر سرمایہ فراہم کر رہا تھا؟ اب یہ بات بے شمار حقائق کی بنا پر کھل کر کہی جا رہی ہے کہ اس دہشت گردی کو بیرونی طاقتیں سپورٹ کر رہی ہیں۔ امریکی صدر اگر مسلمانوں کو دہشت کہتے ہیں، سب سے پہلے انہیں اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے، امریکہ اگر ان لوگوں کو ختم کرنا چاہتا ہے تو بہت سے لوگ جو حقیقی معنوں میں شرپسندی پھیلا رہے ہیں اور انہوں نے امریکہ کو کئی بار دھمکیاں بھی دی ہیں، انہیں نشانہ کیوں نہیں بنایا جاتا؟ ایسا کیوں ہے کہ پاکستان کے بے شمار شہریوں کو محض شک کی بناء پر اٹھا لیا گیا، مگر افغانستان سمیت ان سرحدی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں موجود ان لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے، جو کھلے عام عسکری کارروائیاں کرتے ہیں۔ ان کے نیم خواندہ کمانڈر میڈیا کو بریفنگ بھی دیتے ہیں، دشمن کے اہداف کو نشانہ بنانے کے منصوبوں کا انکشاف بھی کرتے ہیں اور سیٹلائٹ کے اس دور میں وہ پکڑے بھی نہیں جاتے۔ یہ ایسے سوالات ہیں جو معمولی سمجھ بوجھ رکھنے والے شخص کو بھی کھٹکتے ہیں۔ ان سب سوالوں سے بڑھ کر تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ جتنی طویل ہو رہی ہے، دہشت گردی ختم ہونے کی بجائے تیزی سے پھیل رہی ہے۔ جس کا ذمہ دار امریکہ ہے۔

اسلام ٹائمز: امریکی سازشوں میں کوئی شک نہیں، مسلم ممالک کو ایسی پالیسیوں کے جواب میں کیا کرنا چاہیے۔؟

ہدایت رسول قادری: اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان اگر چاہیں تو امریکی سازشوں کو ہمیشہ کے لئے دفن کر دیں، لیکن کاش ایسا ہوتا، ایسا ہے نہیں۔ سب سے افسوسناک ردعمل سعودی حکومت کا آیا ہے، نہ صرف انہوں نے امریکی اقدامات کی مذمت نہیں کی بلکہ ٹرمپ انتظامیہ کی تائید کرتے ہوئے انہیں یقین دلایا ہے کہ امریکہ کے دشمن انکے دشمن ہیں، وہ امریکہ کے ساتھ ہیں۔ یہ ہر مسلمان کے لئے باعث شرم ہے، اسلامی غیرت و حمیت اس کی اجازت نہیں دیتی، خود عرب قومیت کے بھی خلاف ہے۔ یہ ایک المیہ ہے کہ ایرانی قیادت کے علاوہ کسی میں جرات نہیں کہ عالمی قوتوں کے مظالم کی نفی کرسکیں اور ظالموں کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر بات کرسکیں۔ ایسی صورت میں مسلمان عوام کی آنکھیں کھلنی چاہیں، ہمیں بیدار ہونا چاہیے، اس کا حل یہی ہے کہ سب سے پہلے مسلمان ممالک اندرونی طور پر مضبوط ہوں، دیانت دار قیادت آگے لائیں، اس کے بعد مسلم ممالک کا بلاک بن سکتا ہے، اتحاد بھی قائم ہوسکتے ہیں، ورنہ خود مسلمان مختلف بلاکوں اور اتحادوں میں تقسیم ہو کر ایک دوسرے کی قوت کمزور کرتے رہیں گے۔ ایک تلخ حقیقت یہ ہے کہ سعودی بلاک کی اسرائیل سے قربت اس بات غماز ہے کہ عالم اسلام اس وقت تک نجات کی منزل نہیں پا سکتا، جب تک آل سعود سے چھٹکارا حاصل نہ کر لے۔

اسلام ٹائمز: پاکستان دہشتگردی کا شکار ہے، دوسری طرف کشمیر میں بھارتی مظالم کا سلسلہ جاری ہے، بھارت بھی پاکستان کیخلاف وہی پروپیگنڈہ کر رہا ہے، جو امریکہ کر رہا ہے، اس گٹھ جوڑ کا مقابلہ کیسے کیا جا سکتا ہے۔؟

ہدایت رسول قادری: پہلے یہ جنگ افغانستان سے پاکستان کے سرحدی علاقوں میں آئی، وہاں خانہ جنگی کے بعد اب اس کا رخ کوئٹہ، اسلام آباد، لاہور، ڈیرہ اسماعیل خان، پشاور اور آرمی کی طرف آگیا۔ ہماری مساجد، امام بارگاہیں، مقدس مقامات، اولیاء کرام کے مزارات، تعلیمی ادارے اور ہسپتال بھی محفوظ نہیں رہے۔ یقیناً یہ وقت ہمارے لئے بڑا نازک اور افسوسناک ہے، مگر محض افسوس کرنے یا ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرانے سے ہم اس حملے سے محفوظ نہیں رہ سکتے۔ ہماری سلامتی پر یہ حملے بیرونی طاقتوں کی طرف سے ہوں یا اندرونی شرپسندوں کی طرف سے، ہمیں اس وقت سنجیدہ قومی پالیسی اپنانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بنیادی ذمہ داری حکومت وقت پر عائد ہوتی ہے۔ اس نے ملک کے ساتھ وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ ہماری پارلیمنٹ نے متفقہ قرارداد بھی منظور کر رکھی ہے، ہماری سیاسی، مذہبی اور فوجی قیادت کو بہت چوکنا رہنے اور فیصلہ کن عملی اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں از سر نو خارجہ پالیسی وضح کرنی چاہئے، جس میں دوست اور دشمن کی واضح نشاندہی ہونی چاہئے۔ ہمیں بھارت، افغانستان اور خصوصاً امریکہ کے ساتھ قومی نفع و نقصان کی روشنی میں تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہئے۔ ہماری بقاء اور سلامتی کا تحفظ باہر سے آکر کوئی بھی نہیں کرے گا، حتٰی کہ کوئی اسلامی ملک بھی کام نہیں آئے گا۔ اس لئے اپنی فکر خود ہی کرنی پڑے گی اور قومی یکجہتی کو فروغ دینا ہوگا۔ ہمیں سفارتی ذرائع کو بھرپور استعمال میں لاتے ہوئے قیام امن کی کاوشیں تیز کرنا ہوں گی۔

اس وقت طالبان، القاعدہ اور اب داعش ایک مخصوص مذہبی رجحان کے نمائندہ اور شناخت بن چکے ہیں۔ پاکستان کے بعض علماء انہیں اپنا Brainchild بھی کہتے ہیں، اس لئے ان پر سب سے زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ آگے بڑھ کر انہیں دین کا حقیقی تصور سمجھائیں، تاکہ وہ دین و ملت کے عالمی دشمنوں کے آلہ کار بن کر نہ تو اسلام کو بدنام کریں اور نہ ہی واحد ایٹمی اسلامی مملکت کی تباہی میں حصہ دار بنیں۔ پاکستانی قوم خود کسی بھی ملک اور قوم سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ہو رہی ہے اور 1980ء سے اب تک دہشتگردی کے خاتمے کے لئے مسلسل قربانیاں دے رہی ہے، اس کی دنیا میں کوئی دوسری مثال نہیں ملتی، اس لئے اس مذموم پراپیگنڈہ کا مقابلہ پوری قوم کو کرنا ہوگا۔ حکومت پاکستان اب تک دہشت گردی سے نمٹنے اور اس کا قلع قمع کرنے میں مکمل طور پر ناکام دکھائی دیتی ہے۔ موجودہ معذرت خواہانہ اور بے بسی پر مبنی خارجہ پالیسی کو فوری طور پر تبدیل کرکے آزادانہ اور برابری کی سطح پر باوقار خارجہ پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ بیرون ملک پاکستانی سفارخانوں کو متحرک کرکے وہاں اہل، قابل اور صحیح معنوں میں محب وطن افراد کے ذریعے پاکستان اور اس کے اداروں کے خلاف ہونے والے منفی اور مذموم پراپیگنڈے کا بھرپور جواب دیا جانا چاہیے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشتگردی اور اس کے جملہ رجحانات کے خاتمے کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ پوری قوم بالخصوص قوم کے مؤثر طبقات جن میں وکلاء، علماء، سیاستدان، صحافی، دانشور، اساتذہ، تاجر حضرات اور تنظیمیں شامل ہیں، اپنا اپنا مؤثر اور بھرپور کردار ادا کریں۔ اسی طرح میڈیا دہشتگردی کے خاتمے کے لئے ذمہ دارانہ کردار ادا کرے اور ملکی مفاد، سالمیت اور نیک نامی کو ہمیشہ مقدم رکھے۔

اسلام ٹائمز: کشمیر سے متعلق غیر ریاستی عناصر کے ذریعے جاری جہادی پالیسی کو تنقید کا سامنا ہے، کیا فقط مذاکرات سے آزادی ممکن ہے۔؟

ہدایت رسول قادری: مسئلہ کشمیر کسی کی انا نہیں، بنیادی انسانی حقوق اور 2 کروڑ نفوس کے سیاسی، سماجی، معاشی، مذہبی مستقبل کا معاملہ ہے۔ کسی بھی شخص، قوم کو طاقت کے زور پر اس کے بنیادی حقوق سے محروم نہیں کیا جا سکتا۔ مسئلہ کشمیر کا واحد حل اقوام متحدہ کی منظور کی جانیوالی قرارداوں پر عمل درآمد میں ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل اور کشمیری عوام سے انصاف ہونا چاہیے۔ مسئلہ کشمیر کے اہم فریق کشمیر کے عوام ہیں، انہیں اپنے مستقبل کے فیصلے کا حق ملنا چاہیے۔ اقوام متحدہ نے کشمیر کے عوام سے جو وعدے کر رکھے ہیں، کشمیر کے عوام ان پر عمل درآمد کے منتظر ہیں۔ ماضی اور حال کی حکومتوں نے مسئلہ کشمیر پر صرف سیاست چمکائی، مسئلہ کے حل کیلئے جس موثر اور فعال سیاسی، سفارتی کردار کی ضرورت تھی وہ ادا نہیں کیا گیا۔ تاشقند معاہدہ ہو یا شملہ معاہدہ، اعلان لاہور ہو یا کشمیر ی عوام کے ساتھ دو طرفہ معاہدے، کشمیر کاز کو ان سے نقصان پہنچا اور کشمیری عوام اس پر دکھی ہیں۔ کشمیر کاز کی بات کرنیوالی لیڈر شپ خود ظلم و بربریت، اپنے شہریوں کو قتل کرنے اور کرپشن کی دلدل میں اتری ہوئی ہے۔ کسی حکومت کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کشمیری قوم کے مفادات کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھائے۔ کشمیری عوام نے آزادی کیلئے بے مثال جانی و مالی قربانیاں دے کر آزادی کی شمع کو روشن رکھا ہوا ہے۔ عالمی برادری بھی مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرے۔ کشمیریوں کے بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، فریقین، عالمی برادری اور اقوام متحدہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ اللہ رب العزت کشمیر کے عوام کو آزادی کی نعمت سے بہرہ مند کرے۔

اسلام ٹائمز: پانامہ کیس کا نتیجہ کیا نکلے گا، قوم کو عدلیہ سے جو امیدیں ہیں، یہ بر آئیں گئیں یا ایک دفعہ پھر کسی دھچکے کیلئے تیار رہنا چاہیے۔؟

ہدایت رسول قادری: جسٹس قاضی فائز عیسٰی کمیشن کی رپورٹ پر وزارت داخلہ کا توہین آمیز اور ناشائستہ ردعمل اس سوال کا جواب ہے۔ سپریم کورٹ کو اس کا سخت نوٹس لینا چاہیے۔ وزارت داخلہ کا ردعمل توہین عدالت کے زمرے میں آتا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی کمیشن کی رپورٹ میں حکومت کو آئینہ دکھایا گیا، اس کا دوسرا رخ عوام کے لئے ہے کہ حکمران جماعت کے نزدیک اداروں کی کیا حیثیت ہے۔ پانامہ کیس سمیت جو بھی فیصلہ آئے گا، اس کا یہی حشر کریں گے۔ کون نہیں جانتا کہ نواز لیگ دہشتگردوں کیلئے نرم گوشہ رکھتی ہے، کالعدم تنظیمیں انتخابات میں انکی سیاسی اتحادی ہوتی ہیں اور قومی ایکشن پلان کو سبو تاژ کرنے کے حوالے سے حکمران جماعت نے انتہائی منفی کردار ادا کیا۔ فوجی عدالتوں کو توسیع نہ دیئے جانے کا تعلق بھی اسی سوچ سے ہے۔ نون لیگی حکمرانوں کو جو رپورٹ پسند نہیں آتی، اس پر گالم گلوچ شروع کر دیتے ہیں۔ نون لیگ سیاسی مافیا کا روپ دھار چکی ہے، اسی قسم کا ردعمل سانحہ ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد دیا گیا اور جسٹس باقر علی نجفی کی کردار کشی کی گئی اور ماڈل ٹاؤن جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کو آج کے دن تک منظر عام پر نہیں آنے دیا گیا۔

وزارت داخلہ نے جو توہین آمیز جواب دیا ہے، اسکا تعلق پانامہ لیکس کیس سے ہے، کیونکہ سپریم کورٹ کا بنچ پانامہ لیکس کے حوالے سے اہم سوالات اٹھا رہا ہے، جس کے حکمران خاندان کے پاس جوابات نہیں ہیں۔ وزیراعظم گرفت میں آنے کے خوف میں مبتلا ہیں اور اسی وجہ سے سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت وفاقی وزراء ججز پر بالواسطہ حملہ آور ہو رہے ہیں، انہیں ڈرانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کا مقصد پانامہ لیکس کیس کے فیصلے پر اثر انداز ہونا ہے۔ اس سے قبل وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق لوہے کے چنے والی دھمکی دے چکے ہیں۔ عدالتیں سانحہ ماڈل ٹاؤن اور پانامہ لیکس پر قانون کے مطابق فیصلے دیں۔ قوم نون لیگی غنڈوں سے خود نمٹ لے گی۔ شریف برادران کو سبق سکھانے کیلئے باقر نجفی جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کا منظر عام پر آنا ضروری ہے۔ شریف خاندان جب تک ہے، کسی خیر کی امید نہیں، نہ ہی پاکستان کی کشتی پار لگ سکتی ہے۔/۹۸۹/ف۹۴۰

منبع : ‌اسلام ٹائمز

تبصرہ بھیجیں
‫برای‬ مہربانی اپنے تبصرے میں اردو میں لکھیں.
‫‫قوانین‬ ‫ملک‬ ‫و‬ ‫مذھب‬ ‫کے‬ ‫خالف‬ ‫اور‬ ‫قوم‬ ‫و‬ ‫اشخاص‬ ‫کی‬ ‫توہین‬ ‫پر‬ ‫مشتمل‬ ‫تبصرے‬ ‫نشر‬ ‫نہیں‬ ‫ہوں‬ ‫گے‬